خاور باجی میرے بچپن کا رومانس بن گئیں میں ان سے چپکے چپکے لیکن بے پناہ محبت کرنے لگی خاور باجی کا نام جتنا خوبصورت تھا وہ خود اس سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں نام میں کشش تھی یا باجی میں مجھ سے کبھی فیصلہ نہیں ہوا پھر مجھ پہ انکشاف ہوا خاور اور باجی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے ان کا نام اگر کچھ اور ہوتا تو وہ ہرگز اتنی دلکش نہ لگتیں اور اگر کسی اور لڑکی کا نام خاور ہوتا تو قطعاً کشش نہ رکھتا حقیقت میں خاور باجی کا قالب اور نام مل کے ایک دوسرے کو دو آتشہ اور کامل بناتے تھے بوٹے سے قد کی خاور باجی اتنی خوبصورت اور پرکشش تھیں کہ انہیں دیکھ کے میری تشبیہات دینے والی حِس متحرک ہوئی کبھی جلتا انگارہ لگتیں کبھی جگنوؤں کا استعارہ انہیں بیان کرنے کے لئے مجھے کبھی مناسب تمثیل ملی ہی نہیں بس جیسے بھری برسات کی اندھیری راتوں میں جگنوؤں کی باڑ اچانک جل بجھ کے چمکار سی مار جائے یا انگیٹھی میں چپ چاپ سلگتے ہوئے بجھنے کے قریب والا انگارہ ہوں ۔ مجھے خاور باجی کی ان پڑھ اماں پہ ہمیشہ رشک آتا جنہوں نے بیٹی کا نام خاور رکھا میرا دل کرتا کاش میرا نام بھی خاور ہوتا آج سوچتی ہوں یہ نام ضرور انکے نازک خیال والد نے رکھا ہوگا ۔۔ میرے ابا بھی اخبارات نہ پڑھتے ہوتے خیالی دنیا میں رہ کے ناولیں پڑھتے تو یقیناً مجھے بھی خاور نام مل جاتا ۔
ہمارے ابا کو عادت تھی تخت پوش پہ لیٹ کے آنکھیں موندھ لیتے اور کسی بچے سے( جس کی شامت آجاتی )اخبارات کی شہہ سرخیاں اور مطلوبہ خبریں چھانٹ چھانٹ کے سنتے رہتے میری اردو پڑھنے میں روانی کی مشق تب ہی ہوئی اور املا کی غلطیاں بھی درست ہوجاتیں ایک دن ابا کو اخبار سنانے کے دوران جب مجھے معلوم ہوا کہ خاور کا مطلب سورج ہوتا ہے تب سے خاور باجی سے میری محبت دوچند ہو گئی وہ مجھے بالکل تابناک سورج جیسی لگنے لگیں ۔ انکی رنگت سانولی تھی آبنوسی لکڑی کے فرنیچر جیسی ملائم اور چمکتی ہوئی جیسے کسی ماہر نے بڑی محبت اور احتیاط سے سنگی مجسمے کو موم کا کوٹ چڑھا دیا ہو ۔۔۔ بہت کم بولتی تھیں ان کی آنکھیں البتہ خوب بولتی تھیں انکی موٹی موٹی خمار آلود آنکھوں پہ پلکوں کی گھنی جھالر اور آنکھوں کی رنگت میں غروب ہوتے سورج کی ماندی تھی جنہیں شاعرانہ بیانِ جمال میں بن پئے مست نین کہا جاتا ہے ان کہے راز ان نینوں میں ڈبڈباتے رہتے چھوٹی سی ستواں ناک کے قدرے فراز پہ چاندی کا چھ نگینوں والا روپہلا پھول انکے آبنوسی چمکیلے چہرے پہ سجا پہرےداری کے مزے لوٹتا ۔ شائد کسی کو معلوم نہ ہو چاندی کے زیورات صرف سانولی رنگت کے لئے بنے ہیں اور انہیں پہ سجتے ہیں ۔ خاور باجی انتہائی دبلی پتلی تھیں لگتا تھا ایک پھونک سے اڑ جائیں گی ایک بالشت کی کمر پہ انکے بھاری سنہری بالوں کی موٹی سی چٹیا ناگن کی طرح بل کھاتی رہتی ۔ اس زمانے میں انتہائی فٹنگ والی قمیض کا رواج تھا زپ کے ساتھ قمیض اور بھی چپک جاتی اور جسمانی خطوط کی تراش خراش مزید واضح ہو جاتی میں سوچتی خاور باجی کھال کے ساتھ مڑھی ہوئی یہ قمیض کیسے بدلتی ہوں گی ۔
وہ ہماری محلے دار تھیں انکے ابا مڈل ایسٹ میں کہیں معمار تھے ایک بار خوب سا مال و منال جمع کر کے لائے تو اپنا پرانا گھر توڑ تاڑ کے ملبے سے محل جیسا گھر نکال کے کھڑا کر لیا جس کے اونچے دروازے الگ ہی شان و شوکت رکھتے تھے پھر محلے بھر میں ان کا گھر سب سے جدید طرز کا بن گیا ورنہ ہمارے بچپن میں گھر ایک آدھ مخصوص طرز پہ ڈیزائین ہوتے تھے ۔۔۔ داخلی دروازہ چھوٹی سی ڈیوڑھی آگے آنگن اور آنگن کے آگے برآمدہ اور پیچھے دو تین کمرے ۔۔ دس مرلہ گھر ہوگا لیکن جدید طرز تعمیر نے بھول بھلیاں کی سی شکل دے دی تھی انکے پردیسی ابا کو ناول پڑھنے کا چسکا تھا انکے ان کے ریشمی کڑھائی والے تکیے کے نیچے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ناول چھپا رہتا کام دھندے سے فارغ ہوکے ناولوں میں گھس جاتے میں نے انہیں کبھی بولتے ہوئے نہیں سنا ۔ انکے پاس رضیہ بٹ , بشریٰ رحمان , حمیدہ بانو بشیر احمد اور نیلم احمد بشیر اے حمید وغیرہ کے ناولوں کا وسیع ذخیرہ تھا ۔ خاور باجی کے برابر والے گھر میں ساجی باجی رہتی تھیں جو انکی ہم عمر کزن بھی تھیں لیکن دلچسپاں الگ الگ ہونے کے باعث دونوں کی آپس میں بالکل نہیں بنتی تھی خاور باجی ایسا چلتا پھرتا پرکشش سا راز تھیں جو آپا کے علاوہ کبھی کسی پہ کھلا ہی نہیں ویسے بھی ساجی باجی کھلتی رنگت کی لیکن ذرا بھاری اور موٹی تھیں اور زیادہ تر سوئے رہنا پسند کرتی تھیں انہیں اپنا رنگ نکھارنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی نہ پڑھنے لکھنے سے انہیں شغف تھا نہ وہ پتلے ہونے کے لئے نہار منہ قہوے میں لیموں نچوڑ کے پینے کے جتن کرتی تھیں بلکہ ٹھونس ٹھونس کے کھانے کے بعد اماں کی بتائی پتیلیاں راکھ سے مانجھ چمکا کے پھر سو جاتیں ۔ ساجی باجی کا ایک بھالو جیسا بھائی بھی تھا جس کی آنکھیں ہمیشہ غصے سے جلی ہوئی لال انگارہ سی رہتیں ۔
خاور باجی کی دوستی صرف میری بڑی آپا کے ساتھ تھی یہ دوستی کم اور ہم عمری کی کشش زیادہ تھی دونوں جیسے ایک ہی سانچے سے ڈھل کے نکلی تھیں دونوں ایک دوسری سے کڑھائیوں کے گلے کے ڈیزائین کا تبادلہ کرتیں کاربن پیپر کی مدد سے ڈیزائین ٹریس کرتیں کس رنگ کی قمیض پہ کون کون سے رنگ کے پھول کھل کے بہار دیں گے منتخب کرتیں کورے لٹھے کی شلواروں کے پائنچوں پہ نیلے دھاگے سے ڈوریوں والے ڈیزائین بناتیں شرط لگا کے اور کبھی دکھا کے کبھی ایک دوسری سے ہی چھپا چھپا کے جہیز کی چادریں کاڑھتیں نٹنگ کے ڈیزائین کچھ بتاتیں کچھ چھپاتیں ۔ چھوٹی چھوٹی فیشنی سوئٹرز بنتیں کبھی کبھار فٹنگ والی شرٹ کے ساتھ فلیپرز اور بلاک ہیلز کا فیشن کر کے ایک دوسری کو دکھاتیں دبلی رہنے کے لئے قہوے میں لیموں نچوڑ کے پیتیں پھر دھاگے سے موٹے پتلے ہونے کا فیصلہ لینے کے لئے کلائیاں ناپتیں اور گوری رنگت کے لیے ایمکس کریم لگاتیں جس کا اشتہار اخباروں اور رسالوں میں چھپتا تھا کیسٹر آئیل سے پلکیں گھنی کرنے کی سعی کرتیں مالٹے کے چھلکوں کو سکھا کے بنائے گئے ابٹن سے مل مل کے منہ چمکاتیں ریڈیو پہ گیت مالا , چتر ہار , آپکی فرمائش , سینک بھائیوں کی فرمائش وغیرہ سنتیں اور چپکے چپکے جانے کون سے تبصرے کرتیں کانوں میں سرگوشیاں کرتیں اور پھر گٹک کے بے تحاشا ہنستیں اس وقت ان دونوں کی آنکھوں کی چمک ست رنگی پھلجھڑیاں چھوڑتی خاور باجی کی آنکھوں کا غروب ہوتا سورج اس وقت جانے کیسے طلوع ہو کے نصف النہار جیسا روشن ہونے لگتا ۔ (حالانکہ ہماری آپا خاندان بھر کی سب سے خوبصورت لڑکی تھیں لیکن آج تو خاور باجی کا دن ہے ) مجھے خدشہ جگتا ان کی آنکھوں میں ڈوبتے سورج کی تپش سے کہیں ان کا مومی وجود پگھل ہی نہ جائے چپکے سے اپنے ابا کے شیشے کے تالا بند کیس سے ناول اڑا لیتیں جانے کون سی جادو کی چابی تھی انکے پاس خود بھی پڑھتیں اور جلدی جلدی پڑھ کے واپس کرنے کی تاکید کے ساتھ آپا کو بھی پڑھنے واسطے ادھار دیتیں اور یہ سارے ادلے بدلے میرے ذمہ تھے ۔ جس دن بھالو بھائی گھر پہ ہوتے مجھے بہت ڈر لگتا وہ بہت زور کا ڈانٹتے تھے انہیں یہ لین دین ذرا پسند نہیں تھے ہمیشہ ڈانٹ کے بھگا دیتے خاور باجی سکول نہیں جاتی تھیں پرائمری کے ہی کسی درجے میں سکول کو خیر باد کہہ دیا تھا بس اردو پڑھ لیتی تھیں اور گھر میں رہ کے ہر سال کے نئے ماڈل کے بہن بھائی پالنے میں اماں کا ہاتھ بٹاتی تھیں ۔
اگلی بار جب انکے ابا مڈل ایسٹ سے سالانہ چھٹی آئے تو نیشنل کے جاپانی ٹیپ ریکارڈر اور ٹیلیویثرن بھی لے آئے ۔ اب سوچتی ہوں انکے ابا کافی رنگین مزاج تھے ہمارے ابا ٹیلیویژن کو شیطانی چرخہ کہتے تھے لیکن انکے ابا خود ہی لا کے چھوڑ گئے اب تو خاور باجی کی موجیں لگ گئیں وہ آپا کو بھی روز ڈرامہ دیکھنے کا بلاوا دیتیں ہمارے عین سامنے والوں کی بائیں بغل میں ان کا گھر تھا لیکن امی آپا کو سختی سے منع کر دیتیں ہاں کبھی کبھار اتوار کو دن کے وقت لگنے والی فلم دیکھنے کی اجازت مل جاتی اس دن دونوں کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ست رنگی قہقہے چھوٹتے ۔۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتی وہ کسی نہ کسی کام میں سردئیے ہوتیں ۔۔ کبھی فریم میں جکڑے کپڑے پہ پھول بنا رہی ہوتیں کبھی گھر کی صفائی ستھرائی کبھی چھوٹے بھائی کی سائیکل دھو رہی ہوتیں کبھی نل پہ بیٹھ کے گھر بھر کے میلے کپڑوں کا ڈھیر نمٹا رہی ہوتیں ۔ یہ سب کام کرتے ہوئے انکی بھاری چوٹی کے اطراف سے بال نکل جاتے کچھ لٹیں فطری انداز میں چہرے کے اطراف میں ہالا سا بنا لیتیں اور خاور باجی مصور ازل کا ایک لاثانی شاہکار دکھائی دیتیں ۔
ابا نے تین چار ہی سالوں میں وہ گھر فروخت کر دیا ہمارا محلہ چھوٹ گیا ۔۔ شروع شروع میں امی کو پرانے محلے کی کشش کھینچ لیتی کئی بار کسی خوشی غمی میں چلی جاتیں وہاں سے بھی خواتین ملنے آجاتیں رفتہ رفتہ میل ملاپ کا وقفہ بڑھنے لگا میرے دل میں انکی محبت کی میٹھی سی کسک کبھی کبھی لو دیتی رہتی خاور باجی گھر میں سب سے بڑی تھیں انکی شادی ساجی باجی کے غصیلے بھالو بھائی سے طے ہوگئی تھی دعوتی کارڈ آیا رکھا رہا امی ابا کو اپنی کسی مصروفیت میں شرکت کی فرصت نہیں ملی میں انہیں دلہن بنا نہیں دیکھ سکی اب میں تھوڑی بڑی ہو رہی تھی واقعات کو تخیل کرنا سیکھ رہی تھی تخیل میں خاور باجی کو دلہن بنے دیکھا لیکن ان کے شعلہ جوالا پہلو میں ان کا بھالو دلہا تخیل نہیں کر سکی شائد میری سوچ کی پرواز کم تھی یا خاور باجی اتنی کامل تھیں کہ انکے پہلو میں کوئی سج ہی نہیں سکا ۔
کئی برسوں بعد ایک بار شہر کے مین بازار میں خاور باجی اپنی امی کے ساتھ اچانک مل گئیں میں اشتیاق سے دیکھنے لگی پر وہ پریشان سی تھیں ایک ناک بہتا مسلسل ریں ریں کرتا کاکا انکے کندھے سے لگا تھا اور ناک کی آلائش سے انکے برقعے کا اوپری حصہ لتھڑا ہوا تھا کوکے کی نگہبانی میں کھڑی ستواں ناک پھیل سے گئی تھی چہرے پہ روشنیاں بجھ رہی تھیں غلافی آنکھوں میں سورج غروب ہونے والی جھٹ گھڑی کی کیفیت بالکل غروب ہو چکی تھی میں نے آنکھیں مل مل کے خود کو جھٹلایا وہ لوگ عجلت میں چل دیں ۔
کچھ عرصے بعد پردیس سے انکے ابا کی تابوت بند لاش آئی ہمارے گھر پہ بھی اطلاع پہنچی امی ابا شریک ہوئے اور ایک پردیسی کی کسمپرسی کی موت پہ افسوس کرتے رہے مجھے تو کوئی لے کے ہی نہیں گیا کہ موت فوت کے گھروں میں لڑکیوں کا کیا کام ۔ امی ایک بار پھر جارہی تھیں میرے اصرار پہ مجھے بھی لے ہی گئیں سر کو ایک کالی دھجی سے کس کے باندھے خاور باجی بھی موجود تھیں ۔۔ پر اب وہ خاور نہیں رہی تھیں انکی آنکھوں میں گدلی سے سرد سی دھند اتر چکی تھی اور حدِ نگاہ صفر تھی نہ انکی وہ غلافی پپوٹے والی آنکھیں رہی تھیں نہ ان آنکھوں میں شام کی سرخی کا ہلکورہ تھا بلکہ شام کے ملگجے اندھیروں کا ڈیرا تھا کمر جس پہ بل کھائی ناگن پھنکارتی رہتی تھی اب ایک بڑے چپٹے کمرے میں بدل چکی تھی اور کمرے میں ایک سنپولیا سا چپکا رینگ رہا تھا جس بالشت بھر کی کمر پہ زپ چپکی رہتی تھی وہاں ایک کاکی سوار تھی آبنوسی رنگت کی چمک ایمکس کریم کے مسلسل استعمال سے اپنا فطری رنگ چھوڑ کے بے رنگ ہو چکی تھی سچ کہوں تو بے ڈھنگے پن سے پھٹی آواز میں بچوں کو ڈانٹتی خاور باجی بہت بری لگ رہی تھیں ۔
میرا خاور باجی کا سحر بری طرح سے ٹوٹ گیا ۔۔ وہاں سب کچھ بدل چکا تھا کاش خاور باجی اپنا نام بھی بدل ڈالیں اب وہ اس نام کے قابل نہیں رہی تھیں بلکہ اب وہ نام اپنی تمام تر کشش کھو چکا تھا اب اسے کوئی لڑکا ہی رکھ لے یا کوئی ڈیشنگ ہیرو ۔۔۔ میری بلا سے ۔