ایک دفعہ ایک ماتحت نے اپنے افسر سے کہا کہ 'سر! اگر میں آپ کو ایک کھڑوس کچے کانوں والا سٹھایا ہوا شخص کہوں تو آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟
'' افسر نے جواب دیا '' میں تمہیں نوکری سے فارغ کر دوں گا ماتحت نے پوچھا کہ سر اگر میں آپ کے لیے یہی القابات اپنے دل میں سوچوں تو پھر افسر نے جواب دیا پھر میں کچھ نہیں کر سکوں گا ۔
یہ سن کر ماتحت بولا " سر پھر سمجھ لیں کہ میں نے دل میں آپ کے لیے یہی سوچا ہے یہ لطیفہ مجھے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر یاد آتا ہے بظاہر اس لطیفے کا ویلنٹائن ڈے سے دور تک بھی تعلق نظر نہیں آتا تاہم جس طرح ویلنٹائن ڈے محبت کے اظہار کے طور پر منایا جاتا ہے اسی طرح ایک دن ایسا بھی ہونا چاہیے جس دن لوگ کھل کر نفرت کا اظہار کر سکیں ۔
اس دن کو " یوم نفرت " کہا جائے اور اس دن لوگ اپنے دشمنوں کو مختلف طریقوں سے wish کریں-
یوم نفرت کی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس دن نفرت کا اظہار (اس ماتحت کی طرح ) دل میں نہیں بلکہ برملا کیا جائے گا۔ جس طرح ویلنٹائن ڈے کے موقع پر دل والے ایک دوسرے کو کارڈ سرخ گلاب اور چاکلیٹ بھیجتے ہیں اسی طرح یوم نفرت کے موقع پر اپنے دشمنوں کو اور ان لوگوں کو جن سے شدید نفرت ہو فون کر کے برا بھلا کہا جائے ۔ سرخ گلاب کی جگہ کانٹے بھیجے جائیں اور چاکلیٹ کی جگہ چقندر بھیجی جائے ۔ مجھے یقین ہے کہ یوم نفرت سے پوری قوم کا نہ صرف کتھارسس ( اپنا دکھ یا غصہ کسی سے شیئر کرنے سے جو ہلکا پن محسوس ہوتا ہے اسے کتھارسس Catharsis کہتے ہیں۔) ہوگا بلکہ اگر یہ دن ایمانداری سے منایا جائے تو کم از کم اس ایک دن کے لیے ہمارے ملک سے منافقت ختم ہو جائے گی۔
نفسیاتی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ دل کا بوجھ دبائے رکھنے سے انسان اندر ہی اندر ٹوٹتا ہے۔ ذہنی دباؤ بڑھتا ہے، نیند اڑ جاتی ہے، رویے تلخ ہو جاتے ہیں اور انسان دوسروں سے نہیں، اپنے آپ سے بھی دور ہو جاتا ہے۔ اگر یومِ نفرت جیسے دن پر لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں تو شاید کئی دل ہلکے ہو جائیں، کئی ذہن سکون پا لیں اور کئی رشتے ایک نئے جذبے کے ساتھ جینے لگیں۔
یہ دن نفرت پھیلانے کے لیے نہیں ہوگا، بلکہ نفرت کو ختم کرنے کے لیے پہلا قدم ہوگا۔ کیونکہ جب تلخی باہر نکل جائے تو اس کی جگہ محبت اور سکون لینا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہی تو اصل ضرورت ہے—دلوں کی صفائی، ذہنوں کا سکون اور رشتوں میں قربت۔
کچھ لوگ یقینا ایسے بھی ہوں گے جو " یوم نفرت " کے آئیڈیا سے ہی نفرت کریں گے۔ ان میں محبت کا پرچار کرنے والی تنظیمیں بھی ہو سکتی ہیں اور کچھ وہ علماء بھی ہو سکتے ہیں جن کا ماننا ہے کہ نفرت کو نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے مارا جاتا ہے۔
جبکہ ایسا ہوتا تو حضرت امام حسین جن کی شخصیت صبر قربانی اور اخلاق کا مجسمہ تھی ان کی محبت اور نرم خوئی یزید کی نفرت کو ختم کر سکتی تھی اگر ایسا ہوتا تو ہٹلر کی نفرت لاکھوں لوگوں کے قتل کا باعث نہ بنتی اگر محبت نفرت کو ختم کر سکتی تو تقسیم برصغیر کا منظر اتنا خونی نہ ہوتا ۔
تاہم کم از کم اس دن ہمیں کھل کر ان تنظیموں کی مخالفت کرنا ہوگی اور عوام کو بتانا ہوگا کہ صرف محبت ہی نہیں بلکہ نفرت کا اظہار بھی انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق کا اظہار کرنے سے کسی کو بھی نہیں روکا جا سکتا گو کے ویلنٹائن ڈے سال میں صرف ایک دن یعنی 14 فروری کو ہی منایا جاتا ہے تاہم دل والے عملی طور پر سارا سال ہی ویلنٹائن ڈے موڈ میں رہتے ہیں جبکہ ہم تو صرف سال کا ایک دن نفرت کے کھلم کھلا اظہار کے طور پر مانگ رہے ہیں اور وہ بھی صرف اس لیے کہ ہمارا کتھارسس ہو سکے۔
ذرا سوچیں کہ جس شخص سے آپ شدید نفرت کرتے ہیں اس دن اسے فون ملائیں گے اور کہیں گے۔
کہیے کیسے ہیں جناب! آج چونکہ " یوم نفرت" ہے تو میں نے سوچا کہ سب سے پہلے آپ کو wish کروں سو جناب آ پ پر اللہ کا عذاب نازل ہوں اور آپ کو اپنے کیے کا اجر ملے ۔ ( ہاہاہا)
ظاہر ہے کہ تہوار کی مناسبت سے غیر ملکی کمپنیاں بھی میدان میں آ جائیں گی اور نت نئے گارڈز بازار میں لے آئیں گی جن سے نفرت کے اظہار میں مدد ملے گی۔ ان کارڈز میں نفرت انگیز عبارتیں لکھی ہوں گے اور ہو سکتا ہے کچھ کمپنیاں اس سے بھی دو قدم آگےجائیں اور کارڈز میں کچھ جدید قسم کی گالیوں کا اندراج بھی کر دیں ۔ اس دن کے لیے تاریخ کا تعین کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ سب سے موثر تاریخ جو میرے ذہن میں آئی ہے وہ 11 ستمبر ( امریکہ پر سب سے خطرناک دہشت گردوں کا حملہ ) یا 16 دسمبر ( حملہ پشاور) ہے۔
کیونکہ یہ وہ تاریخیں ہیں جن کی بدولت دنیا میں نفرت اپنے عروج کو پہنچی تاہم ان تاریخوں میں ایک قباحت ہے کہ " یوم نفرت" ان تاریخوں کو منانے سے ایسا تاثر ملے گا جیسے یہ مغربی تہوار ہے ۔ ہمارے ہاں اکثر ایسے تہواروں پر مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے لیکن اس کا ایک حل میں نے یہ کالم لکھ کر پیش کر دیا جس سے واضح ہو کہ یہ دلکش تخیل نمرہ کی ذہنی اختراع ہے لہذا اس سو فیصد " دیسی تہوار" ہی سمجھا جائے ۔
مجھے یقین ہے کہ یوم نفرت کا یہ آئیڈیا پاکستان سے باہر بھی مقبول ہوگا اور عالمی سطح پر بھی لوگ اپنی نفرت کا اظہار اس ایک دن کریں گے۔ عالمی لیڈران بھی اس روز ایک دوسرے کو تہنیتی پیغامات بھیجیں گے اور مجھے یقین ہے کہ اس دوڑ میں بھی دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ سب سے اگے رہے گی۔
اور پاکستان میں سب سے زیادہ پیغامات جناب صدر آصف علی زرداری کو ہی موصول ہوں گے۔
دنیاوی نفرت اکٹھا کرنے کی اس دور میں ہمارے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، میاں محمد شہباز شریف اور ہمارے عظیم رہنما عمران خان صاحب جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن رہ چکے ہیں اور ہماری وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ اور ایک محتاط اندازے کے مطابق صدر بش کے بعد بالترتیب دوسرے تیسرے چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئیں گے۔
اب ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیے اور سوچئے کہ وہ کون لوگ ہوں گے جنہیں آپ " یوم نفرت" کے موقع پر wish کرنا چاہیں گے ۔ چشم زن میں پوری ایک فہرست آپکے زہن میں تیار ہو جائے گی ۔ کچھ لوگوں کے زہن میں پہلا نام " پھوپو" آئے گا ۔ یہ دراصل پاکستان کا المیہ بن چکا ہے کہ لوگ" پھوپو " کے نام سے بھی نفرت کرتے ہیں مگر میں ہر گز اتفاق نہیں کرتی میری چاروں پھوپو میرے لیے معتبر اور قابل ستائش ہیں ۔
یا ہو سکتا ہے کوئی آپکا ساتھی employee جو ہر وقت آپکے خلاف لوگوں کے کان بھرتا رہتا ہو ۔ یا ایسا بھی ہو سکتا ہے وہ خود آگے نکلنے کے چکر میں آپکے senior کو منصفانہ انداز میں آپکی غلط رپورٹنگ کرتا ہو۔ ایسا کرنے سے وہ اپنی آخرت تو خراب کر ہی لیتے ہیں مگر تھوڑا دنیاوی نقصان آپکا بھی کروا دیتے ہیں ۔
اب کچھ لوگ کہیں گے کہ نہیں یہ دنیاوی نقصان تو معنی ہی نہیں رکھتا اصل زندگی تو آخرت کی ہےاور اللہ تعالیٰ بہترین نوازنے والا ہے۔ بے شک! اس پر میرا کامل یقین ہے ۔
اس فہرست میں آپکا پڑوسی بھی ہو سکتا ہے جو آپ کو جلانے کے لئے لسی پی کر آپ کے گھر کے عین سامنے پہنچ کر ڈکار مارتا ہے یا آپکا وہ رشتہ دار ہو سکتا ہے جس نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر آپکو مناسب پروٹوکول نہیں دیا یا پھر آپکا وہ دوست جو آپکی ہر سچی جھوٹی بات پر ہاں میں ہاں نہیں ملاتا
یا کوئی آپکا رشتہ دار ہو سکتا ہے جس کے خود کے بچے تو اسکے قابو سے باہر ہوں اور وہ ہر وقت آپ پر حکم صادر کیے رکھتا ہو یا ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو آپکے بارے میں غلط افواہیں پھیلا تے ہوں مگر بے سود
کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو آپ کے والدین کے کان بھرنے میں لگے رہتے ہیں وہ تو شکر خداوندی اجکل کے والدین بھنگ پی کر نہیں بیٹھتے ورنہ کیا بنتا ہم معصوم generation_z کا
اور کچھ ایسے علماء رشتہ دار بھی ہو سکتے ہیں آپکے فرض پورا نہ ہونے کی ٹینشن میں مرے جا رہے ہوتے ہیں اور واللہ وہ آ پکو مار کر بھی نہیں مرتے خیر جب فرض پورا کرنے نکلیں تو اگلے خاندان سے انکی برسوں پرانی دشمنی نکل آتی ہے ۔ اور دشمنی بھی اتنی گہرائی کہ یا تو انھوں نے آپکی چھت سے خاندانی کبوتر پکڑا لیا ہو یا آپ سے چائے کی پتی ادھار لے کر واپس نہ کی گئی ہو۔
خیر Hate day وش کرنے کے لیے آپکا وہ کزن بھی ہو سکتا ہے جس نے اپنے رشتہ پکا ہونے کی خوشی میں پورے خاندان کو مٹھائی بھجوائی ہو صرف آپکا گھر چھوڑ کر
اور نفرت کے اظہار کے لیے آپکی وہ بہن بھی ہو سکتی ہے جس نےسکول کے وقت پر ہمیشہ آپکو لیٹ کروائی ہو۔
یا میں اور میری وہ کزن بھی ہو سکتے ہیں جو ہر کسی کو پانی جھوٹا کرنے کے بعد دیتے ہوں ۔
یوں کہنے کو تو یہ سب آپ کے پڑوسی دوست رشتہ دار یا محب ہیں اور محبت کے حقدار ہیں تاہم جب آپ نفرت کے حقداروں کی لسٹ بنانے بیٹھیں گے تو یہی نام آپ کے ذہن میں آئیں گے کس قدر تعجب کی بات ہے کہ کسی ملک دشمن یا دہشت گرد کا نام آپ کی فہرست میں شامل نہیں ہوگا اور اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ ان ملک دشمن ٹائپ لوگوں سے آپ کا کیا لینا دینا کہ ان سے نفرت کی جائے نفرت کرنے کے لیے اپنے دوست رشتہ دار پڑوسی کیا کم ہیں اور یوں بھی " زمینی حقائق" اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اپ اپنے کسی اصل دشمن سے نفرت کریں۔
