ہوٹل بکنگ فراڈ اور ہم ۔۔یمین الدین احمد

میں اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے بہت زیادہ سفر کرتا ہوں اور ملک کے اندر یا باہر اپنے قیام کے لیے ہوٹلز بک کرنے کے لیے آن لائن ٹریول بکنگ پورٹلز کا استعمال تقریبًا 15 سال سے کرتا آرہا ہوں۔

چونکہ مستقل استعمال کی وجہ سے میں ان پورٹلز کا ٹاپ ٹیئر ممبر ہوں تو مجھے بہت سی سہولیات مل جاتی ہیں جیسے جلدی چیک ان، لیٹ چیک آؤٹ، فری ائرپورٹ ٹیکسی، کھانے پینے پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ۔

میں نے دنیا کے بیسیوں ممالک کا سفر کیا ہے لیکن ایک حرکت جو پاکستان میں ہوٹلز یا گیسٹ ہاؤسز کرتے ہیں، یہ حرکت مجھے کسی بھی اور ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔

   اس میں بڑے فائیو اسٹار ہوٹل شامل نہیں ہیں لیکن کچھ فور اسٹار ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز یا فرنشڈ اپارٹمنٹس میں یہ مستقل تجربہ ہورہا ہے۔

میں جیسے ہی چیک ان کرتا ہوں، مجھ سے کہا جاتا ہے کہ 

سر آپ اپنی آن لائن بکنگ کینسل کردیں، ہم آپ کو یہی ریٹ ڈائریکٹ دے دیتے ہیں۔

کیوں؟

سر، آپ کو تو وہی ریٹ مل رہا ہے نا! تو آپ کردیں۔۔۔

لیکن میں ایسا کیوں کروں؟

کیونکہ ہمیں 10 فیصد کمیشن آن لائن پورٹلز کو دینا پڑتا ہے تو وہ ہمیں بچ جائے گا۔ اور آپ تو اپنے ہی بندے ہیں۔ 

لیکن بھائی میری کینسل کرنے کی ڈیڈ لائن تو نکل چکی ہے، اور اب آن لائن پورٹل مجھے ایک نائٹ کا تو چارج کرے گا!

نہیں سر! وہ ہمیں نقصان سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اگر ہم میسج ڈال دیں گے کہ وہ آپ کو چارج نہ کریں تو وہ نہیں کریں گے اور آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

اوہ، اچھا! ماشاء اللہ! یعنی آپ آسان الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ بھی ان سے جھوٹ بولیں، میں بھی ان سے جھوٹ بولوں تاکہ آپ کا دس فیصد کمیشن بچ جائے اور ان کا 10 فیصد کمیشن کا نقصان ہوجائے۔ 

جبکہ وہ آپ کی پراپرٹی کو اپنے پورٹل پر مارکیٹ کررہے ہیں یعنی انہوں نے آپ کو اپنے پاس جگہ دی ہوئی ہے جس پر آپ ساری مارکیٹنگ کرتے ہیں، اپنی پراپرٹی کی تصاویر اپلوڈ کرتے ہیں اور میرے جیسے بہت سارے لوگ وہیں سے آپ کے بارے میں جانتے ہیں اور بکنگ کرواتے ہیں۔ 

اب یہ میرا مستقل کام ہوگیا ہے کہ مجھے چیک ان کے وقت پاکستان کے اکثر ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز والوں کو پہلے کمٹمنٹ اور انٹیگرٹی پر ایک منی ورکشاپ کروانی پڑتی ہے اور جتنے دن قیام رہتا ہے، بار بار تذکیر کے طور پہ بٹھا کر کرواتے رہنی پڑتی ہے کہ۔۔۔ 

 اللہ کے بندو اور بندیوں! کچھ اللہ کا خوف کرو، یہ حرکتیں کیوں کررہے ہو؟ معلوم یہ ہوا کہ اکثر گیسٹ ان کی بات مان لیتے ہیں اور جھوٹ بول دیتے ہیں کہ ہم نہیں جارہے، کینسل کررہے ہیں، اور ادھر سے یہ بھی او کے کردیتے ہیں۔

میں یہ بات اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ہم یہ بات سمجھیں کہ یہ کاروباری بددیانتی اور بے ایمانی ہے۔ یہ جھوٹ، دھوکہ اور فریب ہے۔ 

شاید اس سے 10 فیصد نفع زیادہ ہوجاتا ہو لیکن آپ نے خسارہ کمایا ہے۔ 

برکت گنوا دی ہے، اور آن لائن پورٹلز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک پراپرٹی پر اکثر بکنگ ہوتی ہے لیکن عین چیک ان کے ٹائم پر کینسل ہوجاتی ہے۔

ان کا ڈیٹا ان کو یہ بھی بتارہا ہوتا ہے کہ کون سے ممالک اور شہروں میں ایسا اکثر ہوتا ہے۔

یہ ہے ہمارا وہ امیج جو ہم دنیا میں اپنا بناتے ہیں۔ پھر دنیا کے اکثر ممالک ہمارے ویزے بند کردیتے ہیں، سفری پابندیاں لگا دیتے ہیں، ہمیں کام نہیں دیتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟

آپ مجھے بتایئے، کیا یہ بددیانتی نہیں ہے؟ 

کیا ہم پاکستان اور اسلام دونوں کو بدنام کرنے کا باعث نہیں بن رہے؟

اور اس میں اکثر پراپرٹی کے مالکان خود ملوث ہوتے ہیں جو اسٹاف کو کہتے ہیں کہ تم گیسٹ کو یہ آفر کردیا کرو۔

ان لوگوں کو یہ اندازہ نہیں کہ کم از کم میں ایسی ہر پراپرٹی کو اپنی بلیک لسٹ میں ڈال دیتا ہوں کہ دھوکہ دینے اور جھوٹ بولنے والے کو میں کوئی سپورٹ نہیں کروں گا اور آئندہ کبھی بھی یہاں نہیں قیام کروں گا۔

کیونکہ جو بندہ یہ کرتا ہے، وہ میرے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی دھوکہ کرے گا۔ ہوسکتا ہے جو کھانا میں کھا رہا ہوں، اس میں گھٹیا معیار کے اجزائے ترکیبی استعمال کرتا ہو۔ 

اس نے تو دھوکہ دے کر اپنا نفع بڑھانا ہے تو میں کیوں اس کو سپورٹ کروں۔ ایسے لوگوں کا نقصان ہونا چاہیے تاکہ ان کا دماغ درست ہو۔

دل تو میرا یہ بھی چاہتا ہے کہ ان پورٹلز کو ایسی پراپرٹی ہائی لائٹ کردوں تاکہ وہاں بھی بلیک لسٹ ہوجائیں اور ان کو بزنس ہی نہ ملے۔

لیکن یہ سوچ کر نہیں کرتا کہ تین چار دن تک جو فری منی ورکشاپس کروائی ہیں، شاید بات سمجھ آگئی ہو اور آئندہ ایسا نہ کریں۔

بعینہ یہی حرکت ان ڈرائیو اور کریم کے ڈرائیورز کرتے ہیں اور اس کا تجربہ مجھے سب سے زیادہ اسلام آباد اور لاہور میں ہورہا ہے۔

اس میں بھی منی ورکشاپ کرواتا ہوں اور ریٹنگ خراب دینی پڑتی ہے۔ 

اور وطن عزیز میں جابجا ایسے مشاہدے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔

میرے کئی پاکستانی بزنس کلائنٹس جو دیگر ممالک میں کاروبار کرتے ہیں، ان میں سے کئی لوگ پچھلے پانچ سات سالوں سے مجھے یہ بات کہتے آرہے ہیں کہ۔۔۔

یمین بھائی، ہم پاکستان سے لوگوں کو ہائر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہمارے لوگوں کی اخلاقیات اتنی خراب ہیں کہ ہم تھک چکے ہیں۔

وقت پر نہ آنا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی، کام میں ڈنڈی مارنا، وقت ضائع کرنا۔۔۔۔۔ عام بات ہے۔

جبکہ ان کے مقابلے میں ہندوستان،بنگلہ دیش، فلپائن وغیرہ کے لوگ اخلاقی معاملات میں بدرجہا بہتر ہوتے ہیں۔ خصوصا" جو نوجوان گریجویٹ آتے ہیں، ان کا تو بہت ہی برا حال ہے۔

اب ہوا یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات ہو، سعودی عرب ہو یا دیگر خلیجی ممالک ہوں، اکثر جگہوں پر ہمارے لوگوں کو جابز نہیں آفر ہورہیں۔

اور اگر جاب آفر ہوجائے تو ویزہ اپروو نہیں ہوتا،نتیجہ یہ ہے کہ اکثر کمپنیوں کی یہ پالیسی بن گئی ہے کہ پاکستان سے لوگ نہیں رکھنے۔

حال ہی میں، دبئی میں میرے ایک ہندوستانی کلائنٹ نے بہت افسوس کے ساتھ ایک پاکستانی ملازم کو اس کی بے ایمانی کی وجہ سے نوکری سے فارغ کردیا۔ حالانکہ وہ ایک مناسب پوزیشن پر تھا، اور مناسب آمدنی بھی تھی، رہائش بھی کمپنی نے دی ہوئی تھی۔

یہاں پاکستان میں ایک جاننے والے صاحب کے بیٹے کو ایک ادارے میں ریفر کیا جو ایک اچھی یونیورسٹی سے گریجویٹ ہے۔ 

انہوں نے رکھ لیا کہ یمین بھائی نے ریفر کیا ہے تو صحیح کیا ہوگا۔

مصیبت میرے گلے پڑ گئی۔۔۔۔!!! 

تین مہینے کے اندر اندر فارغ کرنا پڑا۔ کیوں؟

ایک دن بھی وقت پر دفتر نہیں پہنچے موصوف۔

ہر ہفتے کم از کم ایک چھٹی الگ کررہے ہیں۔

کوئی کام وقت پر کر کے نہیں دے رہے۔

کبھی وقت سے پہلے دفتر سے خاموشی سے چلے جارہے ہیں۔

گھر میں بقول ان کے والد کے، بہت پریشانی ہے، بچہ کام پر لگ جائے گا تو کچھ آسانی ہوجائے گی۔ مجھے ہر طرح سے یقین دلایا گیا کہ یہ بہت محنتی لڑکا ہے۔

لیکن ہوا کیا؟ 

مجھے اس ادارے کے مالکان کی جانب سے کالز اور میسجز آرہے ہیں۔ 

میں سمجھا بھی رہا ہوں کہ یہ کیا کررہے ہو، لیکن پھر وہی حرکتیں۔۔۔

بالآخر، دو مہینے اور دس دن کے بعد فارغ ہوگئے۔ اور تنخواہ بھی لیٹ ہونے، جلدی جانے اور چھٹیاں کرکے خوب کٹوائی۔

لیکن اس ادارے کے تین ماہ ضائع ہوگئے، میں آج بھی ان سے ملتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے۔

جو بھی میری پوسٹ پڑھ رہے ہیں، اس بات کو سمجھ لیں کہ اگر آپ کے اندر انٹیگرٹی یعنی اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کا مزاج نہیں ہے، 

اگر آپ کے اندر کمٹمنٹ کا ہائی لیول نہیں ہے۔۔۔

تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ملازمت پیشہ ہوں یا اپنا بزنس کرتے ہوں، آپ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے چاہے آپ کتنے ہی ٹیلینٹد انسان کیوں نہ ہوں۔

ہمارا من حیث القوم، سب سے بڑا مسئلہ ہی اخلاقی ہے۔ 

میرے بھائیو،بہنوں، بچوں! 

اللہ سبحانہ و تعالٰی، معاذ اللہ، ہمارے حق میں ظالم نہیں ہیں، لیکن اس دنیا میں اللہ کی کچھ سنتیں ہیں جن کے مطابق اس دنیا کے معاملات چلتے ہیں۔

اسی لیے جب بھی کوئی مصیبت آئے تو سب سے پہلے خود کے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے کہ میں کیا کررہا ہوں۔

اللہ تعالٰی کے اجتماعی فیصلے اجتماعی اعمال کے خلاصے کے مطابق ہی اترتے ہیں۔

اگر آپ زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ایک اصول اپنا لیجیے کہ میں نے جو بھی کام کرنا ہے، انٹیگرٹی اور کمٹمنٹ کے ساتھ کرنا ہے۔

چاہے اس کے لیے مجھے کوئی تکلیف سے گزرنا پڑے۔ کوئی قربانی دینی پڑے، یا اپنے مزاج کے خلاف کچھ کرنا پڑے۔

اور اگر آپ یہ نہیں کرسکتے، یا کمفرٹ زون کا شکار ہیں، یا معاشرے کا عام رنگ خوب چڑھ گیا ہے تو پہلے خود کی تربیت کیجیے۔

اور نہیں تو ساری زندگی روتے رہیے، اور دنیا کو کوستے رہیے۔۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !