پرتعیش شاپنگ مال کا افتتاح کرتے ہوئے سیٹھ اسماعیل کی نظر پلے ایریا کے باہر ٹھٹھک گئی جہاں کچھ بیتے پل صورت گری پہ مامور تھے۔ایک ہیولہ تیزی سے واضح ہوا جس کا عکس آنکھ میں ٹہرا آنسو بھی مدھم نہ کر پایا۔ کندھے پہ میٹھی گولیوں، بسکٹ اور پاپڑ کا تھیلا لٹکائے بارہ سال کے لڑکے کی نظر آسمان تک جاتے ہنڈولے پہ حسرت سے ٹکی تھی۔ جیب میں پڑے اکیس روپے آٹھ آنے دل کو بہکانے میں مصروف تھے۔ میلے کا آخری دن تھا اور اس کی بِکری بھی خوب ہوئی تھی۔ ٹھیلے پہ سجی چنے کی چاٹ، گول گپے، رنگ برنگے جھولے اور پتلی تماشے کا لگنے والا آخری شو سب اس کی دسترس میں ہوسکتا تھا اگر وہ آج کی کمائی اپنے اوپر خرچ کرلیتا۔ رنگین دنیا کی طرف دل ہمک ہمک کے لپکتا تھا پر قدم بہت بھاری ہوچکے تھے۔ چھوٹے چھوٹے دو ننگے پیروں نے اسکے ناتواں وجود کے ساتھ چار خالی شکم کا بوجھ بھی اٹھایا ہوا تھا جن کی دہائی قدموں کو زنجیر کئے دیتی تھی۔خواہشوں کو پرواز کے لئے موافق فضا میسر نہیں تھی,۔ اسے اپنا آسمان خود کمانا تھا۔ وہ پھڑپھڑاتی آرزوؤں کو دل کے نہاں خانے میں قید کئے شکستہ قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ چند ماہ پہلے تک کندھے پہ پڑا تھیلا اس کے روزگار کا وسیلہ نہیں تھا بلکہ اس میں پرانے کورس کی کچھ کتابیں اور پتلی پتلی چند کاپیاں تھیں۔ چھامو ایک سرکاری اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ خوشحالی تو خیر کبھی اسکی زندگی میں آئی ہی نہیں پر وہ اتنا بدحال بھی نہ تھا۔ اس کے بڑے بھائی الیاس کی بازار میں چھوٹی سی ذاتی دکان سب گھر والوں کی روزی روٹی کا آسرا تھی۔ قناعت کا دور تھا۔ تھوڑے کو بہت جانا جاتا۔ سب کو ہی صبر شکر کا سبق ازبر تھا۔ صدی ختم ہونے میں تقریباً ایک دہائی باقی تھی کہ زندگی نے چھامو کو گھنے سایہ سے گھسیٹ کے جلتی دھوپ میں پٹخ دیا۔ ابا تو چھامو کی پیدائش سے پہلے ہی گزر گیا تھا۔ خدا کا کرم تھا کہ جاتے جاتے دو کمروں کا آبائی گھر اپنے دونوں بیٹے کے لئے ورثہ میں چھوڑ گیا۔ اماں نےلوگوں کے گھروں میں برتن مانجھنے شروع کردئے اور دس سال کے الیاس کو پرچون کی دوکان میں بٹھا دیا۔ اماں شیر خوار چھامو کو گود میں سنبھالے لوگوں کے گھروں میں جاتی الیاس کو یہ اچھا نہ لگتا۔ تین سال میں ہی وہ اتنا ہوشیار ہوگیا کہ اس نے بازار میں موسم کے لحاظ سے مختلف اشیاء کا ٹھیلا لگانا شروع کردیا۔ تیرہ سالہ الیاس، چھامو کا باپ نہیں تھا پر اس نے باپ کی ساری زمہ داریاں اپنے کاندھے پہ لاد لیں۔ ضد کرکے اماں کو لوگوں کے گھر جانے سے روک دیا۔ وہ خود تو نہ پڑھ سکا مگر اس نے چھامو کو اسکول بٹھایا۔اس کی نیک نیتی کا صلہ بہت برکت والا ملا بیس سال کی عمر میں اس نے بازار میں اپنی چھوٹی سی دکان خرید لی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں اماں نے اس کی شادی اپنی بھانجی سے کروادی۔ الیاس کی شادی کے بعد گھر میں گویا رونق اتر آئی۔ سال بھر میں الیاس دو جڑواں بیٹیوں کا باپ بن گیا تھا۔ چہار سو خوشیاں محسوس ہوتیں پر یہ دھنک رنگ صرف انکے گھر تک ہی محدود تھے۔شہر بھر میں اندھیر سائے منڈلا رہے تھے۔ حالات بہت خراب تھے آئے دن چوک چوراہوں میں بوری بند لاشیں ملتیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھیں۔ حالات حکومت کے قابو سے باہر تھے۔ ہر طرف خوف و ہراس پھیلا تھا۔ شہر میں منڈلاتا نحوست کا سایہ اتنا دراز ہوا کہ چھاموں کی رنگین دنیا کو سیاہ کرگیا۔ جس دن الیاس کی بوری بند لاش ملی اس دن اماں اور بھابھی کی کرلاہٹ کسی ذبیح جانور سے مشابہہ تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں ہمت سے بڑھ کے بوجھ ڈھونے والا بہت جلد تھک گیا جب ہی اپنے کاندھوں کا پورا بوجھ چھامو کے سینے پہ دھر گیا تھا۔ شہر کی بد ترین حالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیاس کے پڑوسی دوکاندار نے اس کی دکان پہ قبضہ کرلیا تھا۔ اماں نے چھامو کے ساتھ جا کے کئی دفعہ منت کی، ہاتھ پیر جوڑے، پر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ روزی روٹی کا اکلوتا سہارا چھن گیا تو اماں نے دوبارہ لوگوں کے گھروں کی چاکری کرنی چاہی مگرچھامو دیوار بن گیا۔ الیاس کی فطرت چھامو کی تربیت بن کے ابھری تھی ۔بھائی نے تیرہ سال کی عمر میں باپ کی زمہ داری اٹھائی تھی تو بارہ سالہ چھاموں نے بھی خود کو اپنی شیرخوار بھتیجیوں کا باپ تصور کر لیا۔ توانائی کم تھی اور بوجھ ذیادہ، زندگی کی گاڑی گھسیٹتے گھسیٹتے چھامو کا وجود شل ہوگیا۔ در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد چھامو کو ایک اسکول کے باہر ٹھیامل گیا تھا۔ بھابھی نے گھر سے چنا چاٹ اور سموسے بنا کے دینے شروع کردئیے۔ لڑکھڑاتے قدموں کو سہارا مل گیا۔ وقت نے رفتار پکڑلی تھی۔ چھامو نے دونوں بھتیجیوں کو اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اسکول میں داخل کرایا۔ اگلے دس سالوں میں اس کا ٹھیا چھوٹے سے ڈھابے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ چھامو جوان ہوا تو امنگیں بھی جوان ہوگئیں۔ پڑوس میں رہنے والی چنچل سی فاخرہ سے کبھی روبرو بات نہ ہوئی پر آنکھوں کے کلام پہ پابندی نہ تھی۔ فاخرہ اکثر اس کے گھر ہی پائی جاتی۔ کبھی اماں کے سر میں تیل لگاتی تو کبھی بھابھی کی مدد کرتی۔ بچیوں کے ساتھ لایعنی باتیں، بے تحاشا ہنسی ان سب کے بیچ چھامو کو کن انکھیوں سے دیکھتی اور شامو بلا وجہ ہنس دیتا وہ جھینپ جاتی۔ دونوں مطمئن تھے کیونکہ ان کے بیچ کوئی ظالم سماج نہ تھا ۔ دونوں گھروں کے درمیان فقط ایک دیوار تھی جسے کبھی بھی پار کیا جاسکتا تھا مگر یہ چھامو کی غلط فہمی تھی اس کی نہ زندگی سہل تھی نہ قسمت مہربان۔ اماں کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی جگر نے کام کرنا چھوڑ دیا جس کا پتہ بہت دیر میں چلا وہ چھامو پہ مزید کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھیں سو نہ جانے کب سے اکیلی ہی اپنی تکلیفوں سے لڑ رہی تھیں۔ چار دن سرکاری ہسپتال میں داخل رہ کے عدم سدھار گئیں۔ جانے سے پہلے ہاتھ جوڑ کے جو بات چھامو کے کانوں میں انڈیلی اس نے چھامو کو پتھر کر دیا۔ کون جاتے جاتے یوں کلیجہ نوچتا ہے۔ وہ اماں سے خفا ہوگیا پر اماں کتنی دور اندیش تھیں اس کا اندازہ اسے اماں کا جنازہ اٹھنے سے پہلے ہی ہوگیا۔ لوگوں کو اماں کی موت کے غم سے زیادہ ان کی جوان بہو کی فکر تھی۔ اب وہ اکیلے دیور کے ساتھ ایک ہی گھر میں نہیں رہ سکتی تھی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بنارہے تھے۔ بھابھی بھی شرمندہ سی کونے میں دبکی تھی گویا اماں کے مرنے میں سارا قصور ہی اس کا ہو۔ اماں کے سوئم تک لوگوں نے ان کو کتنی ہی تجاویز دے دی تھیں۔ یوں لگتا کہ سارا زمانہ ہی اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں جت گیا ہو۔اس نے دبے لفظوں میں کہا تھا کہ وہ جلد ہی شادی کر کے بیوی لے آئے گا تب تو بھابھی اور بچیاں اس کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ اس کی بات سن کے سب سے پہلے فاخرہ کے ابو نے ہی مضحکہ اڑایا کہ ساس کی بات الگ ہوتی ہے پر کون لڑکی اتنی خوبصورت اکیلی جیٹھانی کو برداشت کرے گی۔ چھاموں دل برداشتہ ہو کے گھر سے نکل گیا۔ ساری رات وہ گھر نہیں آیا پر بھابھی کا دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ گھر میں اکیلا ہونے کا خیال پریشان کرتا رہا۔ اماں کے انتقال کو فقط پانچ دن ہوئے تھے اماں کے بنا گزارے ہوئے یہ دن بہت خوفناک تھے۔ چھامو اس ذہنی کرب کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔ سوئم کے دو دن بعد ہی وہ اپنی یتیم بھتیجیوں کے لئے باپ جیسا نہیں رہا ۔ سچ مچ کا باپ بن گیا تھا۔ بھابھی جو اس سے عمر میں محض چھ سال بڑی تھی پر اس کے لئے ماں سمان تھی مگر ماں جیسا ہونے سے کوئی سچ مچ ماں نہیں ہوجاتی یہ حقیقیت لوگوں نے اسے فقط پانچ دن میں سمجھا دی تھی۔بھابھی سے مدیحہ تک کا سفر بہت اذیت ناک تھا۔ مدیحہ جس نے جوانی میں بیوہ ہونے کے بعد ساری زندگی الیاس کے نام پہ بیٹھے رہنے کی قسم کھائی تھی۔وہ بھی ان پانچ دنوں میں ٹوٹ گئی تھی۔ گاہے بگاہے زندگی کی مار کھانے والی مدیحہ کردار پہ وار نہیں سہہ سکتی تھی۔ جب خاردار رستہ مقدر ہو تو آبلہ پائی اٹل ہے۔ وہ زخمی پیروں کے ساتھ متوازن نہیں چل سکتی تھی۔ لڑکھڑانے کے خوف سے اس نے چھامو کا ہاتھ تھام لیا کہ فقط یہ سہارا ہی اس کی بچیوں کا سائبان تھا۔
ہمیشہ کی طرح چھامو نے اپنی خواہشات کو اپنے دل میں دبالیا تھا۔ وقت نے اسےکچی عمر کا ایسا پختہ مرد بنا دیا جس کی سماعتوں میں بلکتی امنگوں کی معدوم ہوتی سسکیاں گونجتی تھیں۔ ذمہ داریوں نے بےفکری کے پر نوچ لئے اور تمناؤں کی بے رنگ تتلیاں ہچکیاں لیتے لیتے سو گئی تھیں۔ چھامو نے جلد ہی گھر بدل لیا کہ آتے جاتے فاخرہ کی بنجر نظر اس کا دھیان بھٹکاتی تھی۔ اسے اب اپنے بارے میں نہیں سوچنا تھا۔ بھتیجیوں کی بہترین پرورش ہی اس کا مقصدِ حیات بن گئی تھی۔ مدیحہ نے ہر چھوٹے بڑے مسائل میں اس کا ساتھ دیا۔ ان کے رشتے کی بنیاد ضرورت پہ رکھی گئی تھی سو سمجھوتے کی آگ میں محبت کی کلیاں ایسے جلیں کہ نہ راکھ رہی نہ خوشبو۔
دھیرے دھیرے وقت کا مزاج بدل گیا۔ اس نے منزل کی طرف دھیان لگا کے سیدھا چلنے والے چھامو کا ہاتھ بہت نرمی سے تھام لیا۔ چھامو کا ڈھابہ ہوٹل میں ڈھل گیا پھر ایک ہوٹل سے شہر کے مختلف علاقوں میں کئی ہوٹل بن گئے۔ بھتیجیوں کو استطاعت سے بڑھ کے تعلیم دلوائی۔ ایک بھتیجی بیاہ کے کینیڈا چلی گئی تھی تودوسری بھتیجی ڈاکٹر بن گئی تھی۔ شہر کے پوش علاقے میں اس کا اپنا ذاتی کلینک تھا۔ زندگی کی دوڑ میں وقت، موسم اور انسان بتدریج بدلتے رہتے ہیں۔ چھامو بھی بدل گیا تھا اب وہ سیٹھ اسماعیل تھا۔ آج اس کی حصے کا آسمان اس کے سر پہ تھا۔ حالات موافق تھے اور فضا ساز گار۔ اس نے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کی اور مقفل پنجرہ کھول کے تمناؤں کو آزاد کرنا چاہا تو یہ ادراک ہوا۔
"ایک عرصے سے دل میں مقید خواہشیں دم گھٹنے سے مر چکی تھیں۔"