نیلی بار کی کہانی کو سمجھنے سے پہلے ہمیں پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب کے جغرافیہ کے بارے میں سمجھنا ہو گا۔ بار گھنے جنگل کو کہتے ہیں ۔ انگریزی سرکار کے برصغیر آمد کے بعد یہاں نہری نظام متعارف ہوا۔ اس نہری نظام سے پہلے جنگل دو دریاؤں کے درمیان ہوتے تھے ان کو بار کہا جاتا تھا۔ وسطی پنجاب میں مختلف باریں تھیں جیسے کہ گنجی بار، ساندل بار ، کڑانہ بار اور نیلی بار وغیرہ ۔ نیلی بار کا علاقہ دریائے راوی اور دریائے ستلج کے درمیان واقع ہے۔ ساہیوال ، اوکاڑہ ، پاک پتن ، چیچہ وطنی اور وہاڑی کا علاقہ نیلی بار میں آتا ہے۔ طاہرہ اقبال کا ناول اس علاقے یعنی اس نیلی بار کی ہی کہانی ہے۔
یہ ناول دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا باب اس ناول کو ایک بڑا ناول بنانے کی مضبوط بنیاد رکھتا ہے۔ اس باب میں طاہرہ اقبال صاحبہ نے گاؤں کی ثقافت کا جس خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے اور ایک شادی کا منظر پیش کیا ہے۔پنجاب کے گاؤں کی شادیوں کا ایک الگ رنگ ہے۔ گو کہ زمانے کی جدت سے ان میں بھی بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے ۔ لیکن آج سے پندرہ بیس سال پیچھے بھی چلے جائیں تو اس وقت کی شادی کو آپ اس پہلے باب میں محسوس کر سکتے ہیں ۔ جس طرح وہاں پر عورتیں ماہیے اور ٹپے گاتی ہیں وہ اب بھی موجود ہے ۔ مصنفہ نے پنجابی زبان میں ان گیتوں کے اشعار کو لکھ کر اس منظر کشی میں حقیقی رنگ بھرا ہے۔ اگر تو آپ پنجاب کی ثقافت سے دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ باب آپ کو اس حوالے سے بھرپور معلومات فراہم کرے گا۔ شادی کا یہ منظر پاکستان بننے سے کچھ سال بعد کا ہے۔ شادی کی رسم ورواج کے حوالے سے بھی کافی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر گاؤں کی شادی فقط ایک گھر کی شادی نہیں بلکہ اس میں آدھا گاؤں کسی نہ کسی حوالے سے ذمہ داری کی حد تک شریک ہوتا ہے وہ بھی ہم یہاں محسوس کرتے ہیں ۔ شادی کے کھانے کے حوالے سے مردوں کی مصروفیات کس طرح کی ہوتی ہیں ان کی جھلک بھی ہم کو نظر آتی ہے۔ دلہن کی سہیلیاں دلہن کو جس طرح چھیڑتی اور اس کے آنسو سمیٹتی ہیں وہ بھی ہم کو نظر آتا ہے۔
تقسیم ہند کے حوالے سے جغرافیائی طور پر سب سے زیادہ متاثر پنجاب اور بنگال ہوئے تو جغرافیائی تبدیلی کا یہ دکھ بھی ہم کو محسوس ہوتا ہے۔ پھر نیلی بار میں دو طرح کے غیر مقامی لوگوں کا بسیرا ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو راولپنڈی ، چکوال کی طرف سے آنے والے لوگ ہیں تو دوسری طرف جالندھر، لدھیانہ ، گورداسپور اور امرتسر سے آنے والے مہاجرین نے یہاں ڈھیرا ڈال دیا ہے۔ یہ مہاجرین مقامی لوگوں کے لیے خصوصاً درد سر ہیں۔ ایک تو یہ بار کی رہتل (ثقافت) سے واقف نہیں دوسرا یہ بار میں رہ کر بھی لدھیانہ ، امرتسر اور جالندھر کو یاد کرتے ہیں اور اس کے گن گاتے ہیں۔ ان کا وجود سب سے زیادہ یہاں کے جاگیرداری نظام کے لیے خطرہ ہے کیونکہ یہ جاگیر داروں کے نسل درنسل غلام اور مزارع نہیں رہے اس لیے آداب سے واقف نہیں دوسرا پھر یہ یہاں کی سیاست جو کہ جاگیر داروں اور وڈیروں کا حق ہے میں بھی دخل انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس بات کا خوف بھی ہے کہ کہیں وہ مقامی لوگوں کا ذہن ہی نہ گندہ کر دیں اور نسل در نسل غلام چلنے والی اس کھیپ کو کہیں اپنے مالکان سے متنفر نہ کر دیں.
اس پہلے باب میں ہی طاہرہ اقبال صاحبہ نے جاگیرداری نظام اور اس سے وجود میں آنے والی طبقاتی تقسیم اور پھر اس جاگیردارانہ سماج میں عورت کی کمتر حیثیت اور اس کے استحصال کو بھی موضوع بنایا ہے ۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ کیسے جاگیر کے بٹوارے کے خوف سے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں نہیں ہونے دی جاتی پھر غریب کی حیثیت تو وڈیروں کے مال ڈنگروں سے بھی کم ہوتی ہے اور ان کی عورتیں تو گویا انسان ہی نہیں ہیں ۔ خود وڈیروں کو اپنی عیاشیوں کے لیے ہر ممکن سامان میسر ہوتا ہے۔ وہ جب چاہیے کسی کی عورت کو اٹھا لیں بلکہ پوری بارات لوٹ لیں تو بھی متاثرین احتجاج بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے.
پہلے باب میں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ مصنفہ کی کہانی اور اس کے کرداروں پر بہت مضبوط گرفت ہے اور وہ اپنی مرضی سے قاری کو جس طرف لیکر جانا چاہیے لے کر چلی جاتی ہیں۔ لیکن اگلے ابواب میں یہ گرفت گو کہ قائم تو رہتی ہے لیکن پہلے کی نسبت کچھ ڈھیلی محسوس ہوتی ہے۔
کہانی کا آغاز ایک شادی سے ہوتا ہے جس میں دیہات کا رنگ جھلک رہا ہے اور یہ پاکستان بننے کے کچھ سال بعد ہی کی کہانی ہے۔ یہ بارات راستہ بھولتی ہے تو بالآخر اغواء کر لی جاتی ہے۔ اس کو ملک فتح شیر جو کہ وڈیرا بھی ہے اور قانون ساز اسمبلی کا رکن بھی اس کے لوگ اغوا کرتے ہیں ۔ بالآخر مال غنیمت فتح شیر کے سامنے لایا جاتا ہے لوگ اس کی منتیں کرتے ہیں تو وہ کمال مہربانی کر کے ان کا سامان چھوڑ دیتا ہے ساتھ ہی باراتیوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے مگر دلہن اور اس کی تین سہیلیوں کو وہ پاس رکھ لیتا ہے۔ ملک فتح شیر کی بیوی رقیہ اپنے شوہر کی رنگ رلیوں سے ناصرف واقف ہے بلکہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسے کوئی اعتراض بھی نہیں بلکہ ایسی اغواء شدہ لڑکیاں ان کی ملازماؤں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور پھر غنیمت میں لٹی ہوئی یہ ہی لڑکیاں ان ڈاکوؤں کو ایک رات کے لیے بطور انعام بھی دی جاتی ہیں جو بڑے ہاتھ مارتے ہیں۔ ست بھرائی جو دلہن اور اس کی تین سہیلیاں ملک فتح شیر کے ڈیرے پر پہنچ جاتی ہیں تو وہاں فتح شیر کا بیٹا عبدالرحمان اپنے باپ کی عیاشیوں پر سیخ پا ہوتا ہے جبکہ اس کی ماں اسے منع کرتی ہے۔ لیکن پھر وہ ست بھرائی کو بھگا کر لے جاتا ہے۔ ہمیں شروع میں نظر آتا ہے کہ عبدالرحمان اپنے باپ سے مختلف ہے مگر ست بھرائی کو وہ اپنے پاس الگ جگہ رکھتا ہے۔ گو کہ اس کا سلوک ست بھرائی سے اچھا ہے لیکن پھر بھی اس کا رشتہ ہوس کا ہی ہے۔ جلد ہی عبدالرحمان کی ہوس جب پوری ہو جاتی ہے تو اسے ست بھرائی میں پہلی سی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ پہلے وہ اس کے نخرے اٹھاتا ہے لیکن اب اس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ملک عبدالرحمان ملک فتح شیر سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ست بھرائی اور اس کی سہیلیوں کے رشتے دار اپنے ذیل دار کے ذریعے ملک فتح شیر سے اپنی بیٹیوں کو چھڑانے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے ۔ یہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ قافلے والے اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کے بیٹے چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ مطلب یہاں صنفی امتیاز کو بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ بیٹیوں کا اغواء ہونا افسوس ناک سہی مگر اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہوتا کہ اگر بیٹے اغوا کر لیے جاتے. بہرحال سال دو سال بعد یہ لڑکیاں اپنے ورثاء کو واپس کر دی جاتی ہیں لیکن یہاں پر عبدالرحمان اپنے باپ سے اس طرح مختلف ہوتا ہے کہ وہ ست بھرائی کو زیور دیکر بھیجتا ہے جبکہ اس کی سہیلیاں خالی ہاتھ آتی ہیں۔ یہاں پر ان کے رشتے داروں کی ذہنی پستی کو دیکھا جا سکتا ہے جب وہ ست بھرائی کے زیورات دیکھتے ہیں تو اپنی لڑکیوں کو دیکھتے ہیں کہ شاید وہ بھی کچھ لے کر آئی ہوں مگر انہیں مایوسی ہوتی ہے۔ ست بھرائی کے ان زیورات کی وجہ سے اس کا سسرال بھی اس کو قبول کرتا ہے مگر وہ اپنے شوہر کو قبول نہیں کرتی بلکہ اب اس کے ذہن پر ملک عبدالرحمان ہی سوار ہے۔ ملک عبدالرحمان کے عشق میں وہ پاگل ہو جاتی ہے اور اس پر آسیب کا سایہ پڑ جاتا ہے۔ ست بھرائی کا یہ پاگل پن آگے بھی چلتا رہتا اور اگلے دو تین ابواب کا حصہ ہوتا ہے۔ ست بھرائی کی کہانی کے ساتھ ہی یہاں ملک فتح شیر کی بیٹی جو پہلے زائرہ فتح شیر اور بعد میں زارا فتح شیر ہوتی ہے کی چلتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک کردار پاکیزہ کا آتا ہے ۔ ان دونوں خواتین کا کردار بہت مضبوط ہے اور اس کے بعد کی کہانی زیادہ تر ان سے اور ان سے وابستہ کرداروں کے گرد ہی گھومتی ہے
ناول کی کہانی تقریباً ساٹھ سال تک پھیلی ہوئی ہے تو اس میں کئی کردار شامل ہوتے جاتے ہیں۔ زارا فتح شیر اور پاکیزہ کے علاوہ رقیہ بیگم کا کردار بھی اہم ہے۔ جبکہ فتح شیر ، ذیل دار ، ملک عبدالرحمان ، علی جواد المعروف مولانا محمد علی معاویہ اور پیر اسرار احمد شاہ کے مردانہ کردار بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے موٹے کردار بالخصوص نیچ برادری کی خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ ایک دلچسپ کردار فوجی نصیر کا ہے۔
صفورہ جو کہ ملک فتح شیر کی بہن ہے۔ اس کی فتح شیر شادی نہیں ہونے دیتا۔ اس شادی سے ڈر ہے کہ کہیں جاگیر نہ تقسیم ہو جائے۔ بالآخر ایک دن ایک نوکرانی کے ساتھ اچانک کسی چور راستے سے صفورہ حویلی سے باہر جاتی ہے جہاں ملک فتح شیر کے نجی قید خانے میں قید وحشی ڈکیت سے اس کا میلاپ ہوتا ہے۔ رقیہ جو اپنی نند پر نظر رکھے ہوتی ہے جب دیکھتی ہے کہ صفورہ کے ماہواری کے دن نہیں آ رہے جو کہ آ جانے چاہیے تھے تو خطرہ کا آلارم بجتا ہے اور وہ ملک کو اس کی اطلاع دیتی ہے۔ دائی سے تصدیق کے بعد اب ان کے لیے وڈیروں کے لیے مشکل نظر آتی ہے کہ وہ اس بات کو کیسے کور کریں تو ملک فتح شیر اس حمل کو ایک کرامت کا روپ دیتا ہے کہ اس کی کنواری بہن کو کسی نے چھوا تک نہیں اس کے باوجود وہ حمل سے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صفورہ امام مہدی کو جنم دینے والی ہے یوں وہ اپنی 'عزت' بھی بچاتا ہے اور صفورہ کے لیے اعلان ہوتا ہے کہ وہ پاکیزہ ہستی ہے ، یہ دھرتی اس کے قابل نہیں ، مہدی کی پرورش کے لیے ضروری ہے کہ وہ لاہور میں داتا دربار کے سائے میں پلے۔ یوں اس کو رخصت کیا جاتا ہے اور راستے میں ہی اس کا کام تمام کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ کام بھی وہ وحشی ڈکیت کرتا ہے۔ یوں صفورہ زندگی سے نجات حاصل کرتی ہے اور ملک فتح شیر بدنامی سے اور اس کا قصہ بھی گاؤں سے غائب ہو جاتا ہے۔ صفورہ کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے جاگردار طبقہ اپنے مطلب کی بر آوری کے لیے مذہب کا سہارا لیتا ہے۔ یہ مذہب فروشی ہمیں ناول کے باقی کرداروں میں بھی نظر آتی ہے اور یہ مذہب فروشی ایک ایسا کاروبار جس میں طبقاتی تقسیم کی بھی قید نہیں جس کا جب بھی داؤ چلے وہ اس کو آزماتا ہے۔
فوجی نصیر کا کردار بڑا دلچسپ ہے۔ جب ایوب خان کا مارشل لاء لگتا ہے اور زرعی اصلاحات کا اعلان ہوتا ہے تو فوجی نصیر جو دیہاتیوں میں پڑھا لکھا مشہور ہے جو دیہاتیوں کو عالمی خبریں بھی سناتا ہے۔ زرعی اصلاحات پر وہ گاؤں والوں کو امید دلاتا ہے کہ اب مزارعوں کے حالات بدلنے والے ہیں اب زمینں وڈیروں سے لیکر مزارعوں کی دی جائیں گی۔ فوجی نصیر کی باتیں سن کر دیہاتی ذیل دار کے خلاف اگلے دن بغاوت کر دیتے ہیں جس پر پولیس کے ذریعے سے قابو پایا جاتا ہے۔ مزارعوں کی عورتیں ذیل دار کی بیوی سے منتیں کرتی ہیں کہ انہیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا یہ سب فوجی نصیر کے کہنے پر کیا گیا۔ اس مکالمے میں ایک دلچسپ بات جب فوجی نصیر زرعی اصلاحات کا ذکر کرتا ہے تو انپڑھ دیہاتی تو درست لفظ ادا نہیں کر سکتے اس کو 'زرعی الات' کہتے ہیں۔ پولیس ایکشن کے بعد فوجی نصیر بھاگ جاتا ہے۔ بعد میں بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ جب بھی حکومتی سطح پر انقلابی اقدامات کا اعلان ہوتا ہے تو فوجی نصیر کی امید جاگ جاتی ہے کہ اب حالات بدل جائیں گے اور محرومیاں ختم ہو جائیں گے یہ طبقاتی تقسیم ختم ہو جائے گی۔
ہم دیکھیں تو ہمارے اردگرد بہت سے فوجی نصیر بستے ہیں جو ہر ایسے حکومتی اعلانات کے بعد پر امید ہو جاتے ہیں کہ اب تو سب معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکمران کے ایک اعلان سے پورا سسٹم ہی بدل گیا ہے۔ یہ خیالات کی دنیا میں بسنے والے اور باتوں سے خوش ہونے والے ہر ایسے اعلانات پر ایمان لے آتے ہیں۔ جیسے کہ آج ہماری مقتدرہ کسی شخص کو مسیحا بنا کر پیش کر رہی ہے تو ہمارے ہاں کے فوجی نصیر اس پر یقین کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن اب خوش آئند بات یہ ہے کہ فوجی نصیر اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سرحدوں کی حفاظت پر مامور نے ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ایک دو فوجی نصیروں سے سنا کہ اب ڈنڈا چل گیا ہے اب ملک پٹری پر چلے گا۔ کامران خان کی شکل میں بھی کچھ فوجی نصیر ایسی قوتوں کو میسر ہوتے ہیں جو جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔
زارا فتح شیر اور پاکیزہ دو نسوانی کردار ہیں جو کہ تقریباً ایک ہی طرح کے خاندانی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ دونوں جاگیردارانہ گھر میں پیدا ہونے والی ہیں لیکن زارا فتح شیر کی خوش قسمتی کہ اپنے باپ کے قتل کے بعد ماں کے ساتھ وہ اپنی بہن کے ساتھ لاہور میں آٹھ کنال کی کوٹھی میں چلی جاتی ہے۔ یہاں وہ تعلیم حاصل کرتی ہے اور پھر اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیتی ہے۔ وہ ایوب دور کے آخر میں ہونے والے طلباء مظاہروں کو بھی قریب سے دیکھتی ہے۔ وہ بھٹو کے سوشلزم اور اس سے متاثر ہونے والوں سے بھی براہ راست بحث کرتی ہے۔ وہ اعلی ایوانوں اور وہاں کی شخصیات سے بھی وابستہ ہے۔ وہ ناصرف بے باک ہے بلکہ ساتھ ہی اس میں کسی حد تک سسٹم میں بہتری کی خواہش بھی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جس سسٹم کے خلاف وہ تقریریں کرتی ہے بعد میں وہ خود اس سسٹم کا حصہ بھی بنتی ہے۔ وہ اعلیٰ ایوانوں میں رہنے والی شخصیات کے دوغلے پن اور شاہ خرچیوں کو بھی ملاحظہ کرتی ہے۔ وہ ان کے مابین ہونے والی گفتگو کا بھی حصہ بنتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان ایوانوں میں ہونے والی گفتگو کا معیار ہی عام آدمی سے الگ ہے۔ بلکہ اس کو اس عام عوام کے مسائل کے حل میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔ عام آدمی جب ان لوگوں کی گفتگو سنے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک الگ دنیا میں بستا ہے۔ اس گفتگو کی ایک جھلک مصنفہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں
"اسی دان میں پاکستانی سیاست بند ہے۔ کسے الیکشن جتوانا ہے۔ کس کی حکومت بنوانا،یا گرانا ہے۔ کس نے کب اپنی ازلی مخالفین کو بھلا کر دشمنوں سے دوستی کر لینی ہے۔ کس کس کو وزیر اور سیکرٹریز لگانا ہے پھر انہیں کب مری مکھی کی طرح اقتدار کے دودھ سے نکال باہر پھینکنا ہے۔ کس کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانا ہے۔ اپنے اپنے حصے کا گیٹ اپ ہر ایک کو اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے۔ آپ جانو زارا بی بی! پالیٹکس کی سائنس میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کر لینا اعزاز کی بات سہی لیکن پاکستانی پالیٹکس کو سمجھنا ایک الگ ایشو ہے"
زارا فتح شیر کا اور علی جواد کا تعلق کوئی عجیب ہے۔ اس کو نفرت و محبت کا تعلق کہہ سکتے ہیں۔ زارا علی جواد سے بھرپور نفرت کا اظہار بھی کرتی ہے جبکہ اس کے بارے میں اکثر سوچتی بھی ہے۔ وہ اس کی احتجاجی سرگرمیوں کے خلاف بھی ہے مگر بعد میں جب علی جواد پناہ لینے آتا ہے تو اسی کے گھر میں رہتا ہے۔ پہلے ہم علی جواد کے کردار کو دیکھتے ہیں کہ وہ کون ہے۔ تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ ایک بہروپیا، موقع پرست اور مطلب پرست شخص ہے۔ جو زمانہ طالب علمی میں جبکہ سوشلزم کی ہوا چل رہی ہوتی ہے تو سوشلسٹ بن جاتا ہے۔ وہ سٹوڈنٹ لیڈر بنتا ہے اور اپنی ناموری کے لیے کئی لوگوں کو احتجاج کی آگ میں جھونک کر خود نکل جاتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ بھٹو کے سوشلزم کا سب سے بڑا داعی ہے اور جب بھٹو کی حکومت آئے گی تو وہ اس کے مشیروں میں سے ہو گا لیکن بھٹو دور میں وہ کوئی اتنا خاص خوش نہیں ہوتا پھر معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو کے لیے طلباء کے احتجاج منعقد کرانے والا بھٹو کی موت پر مٹھائی بانٹنے والوں میں سے ہوتا ہے۔ پھر افغان جنگ شروع ہوتی ہے تو یہ علی جواد ایک نیا روپ اور نیا نام اختیار کرتا ہے وہ علامہ محمد علی معاویہ کا۔ مطلب ایک زمانے کا سوشلسٹ اب ایک عالم دین کا روپ اختیار کر جاتا ہے۔ علامہ محمد علی معاویہ جنرل ضیاء کے افغان وار سے فوائد سمیٹنے والوں میں سے ہے۔ اس کو سرکاری سرپرستی میں مدارس کی ایک کھیپ مہیاء ہوتی ہے جہاں وہ روسیوں کے خلاف مجاہدین تیار کرتا ہے۔ اس سے اس کے مالی حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ اس کا کردار مکمل طور پر ایک منفی کردار ہے جس میں ہمیں کہیں بھی بھلائی نظر نہیں آتی بلکہ موقع پرستی اور مطلب پرستی کی مجسم تصویر ہمیں اس کردار میں نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ابن الوقت کردار پائے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ پائے بھی جاتے ہیں جو پہلے اشتراکیت کے مبلغ تھے اور اب سرمایہ دارانہ نظام کے وکیل ہیں۔ ہمارے ہاں کا اکثر لبرل کہلانے والے لوگ اس کی مثال ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں کہ جب حکومت کا زور سوشلزم کے فروغ پر تھا تو وہ اس کے حق میں دلیلیں گھڑتے ، پھر افغان جنگ میں روسی خطرے کے بارے میں بتاتے، جب روش خیال اعتدال پسندی حکومتی پالیسی ٹھہری تو وہ اس کے حق میں جواز پیش کرنے لگے نیز جو حکومت وقت کا نعرہ تھا تو یہ اس کو دستیاب تھے۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسے لوگ حکمرانوں کو ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں جو ان کے اقدامات کے لیے حیلہ سازی کر کے ان کو درست قرار دیتے ہیں ۔ علی جواد بھی ایک ایسا ہی کردار ہے۔ علی جواد کے کردار میں ہم کو ماسوائے منفیت کے کچھ نظر نہیں آتا، یہ کچھ غیر حقیقی بات ہے۔ پھر جہاں بھی علی جواد یا پھر محمد علی معاویہ کا سامنا زارا فتح شیر سے ہوتا ہے تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ وہ ہر وقت زارا فتح شیر سے اپنی جنسی خواہشات ہی پوری کرتا ہے جس کو زارا چاہ کر بھی روک نہیں پاتی۔ شروع میں زارا فتح اس کی بیوی بھی رہتی ہے اور پھر زمین کے عوض اس نکاح سے آزاد ہوتی ہے۔ اس نکاح اور اس سے پہلے اس کے حمل کے بارے میں بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ لاہور جیسے شہر میں رہنے والی امیر کبیر لڑکی کو مانع حمل ادویات بھی نہیں مل سکیں تاکہ وہ یہ حمل ضائع کر سکے۔ اس کے بعد جب زارا پیر اسرار احمد شاہ کی چوتھی بیوی بنتی ہے جس کی تینوں بیویوں سے اپنی اولاد ہے۔ زارا کا سال تک اولاد کے لیے محمد علی معاویہ سے تعلق کا انتظار کیوں کرنا پڑا۔ یہ ان دو کرداروں کے تعلقات کے حوالے سے کچھ کمزور پہلو ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب محمد علی معاویہ خود تو لوگوں کے بچے افغان جنگ کے ایندھن میں جھونک رہا ہوتا ہے لیکن جب زارا فتح شیر کا بیٹا جو کہ محمد علی معاویہ کا بھی بیٹا عسکریت پسند بن کر افغان وار میں امریکیوں کے خلاف جاتا ہے تو وہ اس کو کیسے بچاتا ہے۔ نیز زارا فتح شیر کا بیٹا جو کاغذی طور پر پیر اسرار احمد شاہ کا بیٹا ہے کے عادات و اطوار کبھی بھی مقتدر طبقے والے نہیں بلکہ اس کے اندر وہ انقلابی بستا ہے جو کبھی علی جواد یعنی علی محمد معاویہ کے ہاں بسا کرتا ہے۔ زارا جو کہ اس وقت وفاقی وزیر بھی ہوتی ہے کا بیٹا ایک ایسے سکول میں ہوتا ہے جہاں پر فقط مقتدر حلقوں کے بچے ہی جاتے ہیں اور ان کو وہاں آداب حکمرانی سکھائے جاتے ہیں مگر زارا کے بیٹے کی عادات واطوار میں مڈل کلاس سوچ پائی جاتی ہے وہ طبقاتی تقسیم پر سوال اٹھاتا ہے وہ خدا کے حوالے سے بھی سوال اٹھاتا ہے کہ کیا غریبوں کا خدا اور امیروں کا خدا اور ہے۔ وہ جہادی لٹریچر سے متاثر ہو کر افغان جنگ میں جاتا ہی تو اس کا اصل باپ اس کو چھڑا لیتا ہے۔ حالانکہ روسیوں کے خلاف حکومتی سرپرستی میں وہ دوسروں کے بچوں کی کھیپ تیار کر کے انہیں افغانستان بھیج رہا ہوتا ہے تو جب امریکہ افغانستان میں آتا ہے تو یہ کام چھپ چھپا کر ہوتا ہے۔ اس میں کئی دفعہ مقتدرہ کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے تو کئی دفعہ ان کو جانے دیا جاتا ہے تاکہ اگلے وقتوں کے لیے دوسری جانب ہمارا احسان رہے۔
جب امریکہ افغانستان آتا ہے تو اس گاؤں سے لوگ بھی اس ایندھن میں جھونکے جاتے ہیں وہ سادہ لوح لوگ جنہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جنگ کا مقصد کیا ہے، یہ زمینوں پر کام کرنے والے لوگ جنہوں نے کبھی جمعے کی نماز بھی نہ پڑھی ہو اپنے گاؤں کے مولوی کی تقریروں سے متاثر ہو کر اس جنگ میں جھونک دئیے جاتے ہیں اور ان کے لواحقین کے لیے یہ باتیں کتنی تکلیف دہ ہوتی ہیں ان کو بھی ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے ذکر کیا ہے۔ اس پر ان کا یہ اقتباس پڑھنے کے لائق ہے
"گندم گنا اور کپاس اگانے والے اس جفا کش لیکن ست رو زرعی معاشرے میں حیات و ممات، جنت و دوزخ، جیسے اجنبی مسائل کبھی متعارف ہی نہ ہوئے تھے۔ ان کی جنت اناج کے موسم تھے اور دوزخ بھوک کے موسم ۔ان کی زندگی وہی تھی جو وہ جیتے تھے موت وہ جو اللہ کے اختیار میں تھی۔خود موت کا انتخاب کرنے اور بعد از موت زندگی کو یقینی بنانے جیسا فلسفہ یہاں پہلی بار متعارف ہوا تھا۔ یہ امریکہ میں کیسا انقلابی واقعہ ہوا تھا کہ انہیں بھی، زادگانِ فطرت کو بھی مذہب جیسے دور افتادہ آسمانی قضیے کا حصہ بنا گیا تھا۔ وہ مٹی میں مٹی بنے رہنے والے عرش کے سربستہ رازوں اور رفعتوں کے شریکِ کار بنا دیے گئے تھے"
لیاقتی اور فوقی جو اس جنگ کا ایندھن بنتے ہیں اور پھر جب وہ یہاں یا علی کا نعرہ لگاتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعرہ لگانا حرام ہے۔ یہاں وہ مذہب کا ایک نیا روپ دیکھتے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اگر اس نعرہ لگانے کی وجہ سے وہ اپنے کمانڈر کے ہاتھوں قتل کر دئیے گئے تو وہ جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں۔ مذہب کی پابندی اور پھر اس کا علم نہ ہونا لیاقتی اور فوقی کو عجیب الجھن اور کشمکش میں ڈال دیتی ہے
پیر اسرار احمد شاہ کا کردار بھی ایک رنگباز پیر کا ہے۔ پیر خانے میں مریدین سے کیا کیا خدمات لی جاتی ہیں اور ان کے مرد کیا عورتیں بھی اپنے پیر کے گھر والوں کی بلا معاوضہ خدمت کے لیے وقف کر دی جاتی ہیں۔ یہ بھی ہمیں یہاں نظر آتا ہے۔ اس کو مصنفہ نے الفاظ میں ذکر کیا ہے۔
"مزار کی گوٹا کناری جڑی چادروں کی طرح اپنی کنواری نو عمر لڑکیاں بھی پیر خانوں کو نذر کر جاتے تھے۔ یہ نوخیز اور حسین لڑکیاں ہر وہ کام کرتی جو ان کے گھر میں کمنیانیاں کیا کرتی تھیں لیکن یہ لاڈلیاں اچھی طرح جانتی تھیں کہ پیر خانے کا ذلیل ترین کام بھی قیامت کے روزنامہ اعمال میں سب سے اتم لکھا جائے گا بلکہ جتنا ذلیل ہوگا جنت کا حصول اتنا ہی سہل ہوتا چلا جائے گا وہ اپنے گنہگار والدین کے لیے جنت کے دروازے پر دربان بن کر کھڑی ہو جائیں گی"
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ پیر اسرار احمد شاہ کے پیر خانے میں کوئی سر پھری بھی خدمت گزاری کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ جو کہ بڑی بیگم کو ٹکر کی ملتی ہے۔ اس کا نام عذراں ہے۔ وہ بڑی بیگم کی حکم عدولی کرتی ہے اور سوال اٹھاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اگر مجھے یہاں آخرت سنوارنے کے لیے لایا گیا ہے تو یہاں کے بھانڈے مانجھنے کی بجائے فرض نمازیں اور تہجد پڑھوں گی۔ یہ بات بڑی بیگم اور ان کی عقل بند خادماوں کو کافی بڑی لگتی ہے۔ عذراں کو جہنم میں جلنے کے طعنے ملتے ہیں۔ اسی عذراں پر پیر اسرار احمد شاہ کا بھی دل آتا ہے اور وہ اپنی پیاس بجھاتا ہے بعد میں عذراں اپنی عصمت دری کے غم میں خود کشی کرتی ہے۔ تو اس کے والدین ہی پیر خانے پر معافیاں مانگتے ہیں اور اپنی ایک اور بیٹی خدمت کے لیے بطور کفارہ دیتے ہیں۔ گو کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جعلی پیر خانوں کی قباحت کو ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا لیکن عمومی طور پر جعلی پیروں کا مکروہ چہرہ اس ہی طرح کا ہے۔
پھر درگاہوں کی گدی نشینی پر صاحبزادگان کے درمیان رقابت اور کشمکش کو بھی اس ناول کا موضوع بنایا گیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب زارا کا بیٹا پیر اقرار احمد جواد شاہ جب افغانستان میں جنگ کا حصہ بننے جاتا ہے تو اس کا سوتیلا بھائی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس کو روکنے کا کوئی انتظام نہیں کرتا بعد میں غالباً گدی نشینی سے دوری کی شرط پر ہی زارا اس سے مدد کی بھی درخواست کرتی ہے۔
ہمارے چند مدارس میں ہوس زدہ قاریوں کے ہاتھوں بچوں کا استحصال اور ان پر ظلم بھی ایک تلخ اور تکلیف دہ بات ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے اس کو بھی اپنی کہانی میں شامل کیا ہے۔ جہاں مصری شاہ کا ایک کردار ہے جو بچوں پر بہت ظلم کرتا ہے۔ بالآخر اس کے ظلم سے تنگ آ کر گل خان اور صابر خان اس کو مار دیتے ہیں۔ یہ دونوں پھر محمد علی معاویہ کے پاس لے کر جائے جاتے ہیں پہلے تو لگتا ہے کہ ان کو کڑی سزا ملے گی مگر محمد علی معاویہ ان کی کم عمری میں صلاحیت کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے کہ یہ ہمارے اثاثے ثابت ہوں گے لہذا وہ ان کو داد دیتا ہے کہ انہوں نے مصری شاہ کو مار ڈالا پھر یہ اس کے دست راست بن جاتے ہیں حتیٰ کہ جب بعد محمد علی معاویہ ایک دھماکے میں ہلاک ہوتا ہے تو یہ اس کے قریبی جانشین ہوتے ہیں۔
علی جواد ، ملک عبدالرحمان ، پیر اسرار احمد شاہ یا پھر ملک فتح شیر جتنے اہم مردانہ کردار ناول کا حصہ ان میں منفیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہ ناول کا کمزور پہلو ہے کہ ساٹھ سال تک پھیلی اس کہانی میں ایک بھی قابل ذکر مرد کردار ایسا نہیں ملتا جس سے مثبت تاثر ابھرتے ہوں۔ یقیناً ہمارے سماج میں منفی کردار پائے جاتے ہیں تو ایک بڑی تعداد مثبت کرداروں کی بھی ہے۔ کہانی کو پڑھتے ہوئے ہمیں کئی جگہ مثبت کردار کے حامل مرد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ہم کوئی جادوئی صفات والے کردار کے متلاشی نہیں بلکہ ہمیں ایک سادہ شخص جو کہ مضبوط کردار کا حامل ہو بھلے اس کی کہانی میں اہمیت کا پیمانہ بھی کم ہو کی تلاش ہے۔ ایسے افراد کی ہمارے سماج میں کوئی کمی نہیں۔ میرے خیال سے ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ کو اتنے بڑے کینوس پر پھیلے ناول میں کچھ مثبت مرد کردار ضرور شامل کرنے چاہیے تھے۔
پاکیزہ کا کردار ایک اور مضبوط اور قابلِ ذکر کردار ہے۔ پاکیزہ بچپن سے لیکر جب وہ پینتیس سال تک ہوتی ہے کی کہانی اس ناول کا حصہ ہے۔ اس کا بچپن بڑا شاندار ہے۔ وہ جاگیر دار گھرانے کی ہے۔ وہ آزادانہ باہر جاتی ہے گلیوں میں کھیلتی ہے۔ جس دکان سے چیز چاہیے دکاندار کم قیمت پر بھی اس کو دیتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑے گھر کی بچی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوتی ہے اس کی زندگی یکسر بدل کر رہ جاتی ہے ۔ وہ حویلی کی سرحدوں تک محدود کر دی جاتی ہے۔ وہ نوکرانیوں سے بھی کھیل نہیں سکتی۔ اب وہ نوکرانیوں سے کہانیاں سنتی ہے اور یوں اس کا وقت گزرتا ہے۔ کہانیاں سنتے سنتے پاکیزہ خود کہانیاں لکھنے لگ جاتی ہے لیکن وہ حویلی سے باہر نہیں جا سکتی۔ اس کی تمام خواہشات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے پردے کا بھی خصوصی اہتمام کر دیا جاتا ہے تاکہ کوئی غیر مرد نہ اس کو دیکھ سکے اور نہ ہی اس کی نظر اس پر پڑے۔ پاکیزہ ہر سال کے اختتام پر ڈائری لکھتی ہے مگر وہ سال کا ذکر نہیں کر پاتی کیونکہ اسے معلوم ہی نہیں کہ یہ سن کون سا ہے۔ پاکیزہ کی نوکرانیاں سے سنی کہانیاں بھی بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ پاکیزہ بھی زارا کی طرح ایک جاگیر دار گھر کی لڑکی ہے مگر ان دونوں کی زندگیاں بالکل ہی مختلف ہیں۔ زارا کی اس تبدیلی میں بڑا کردار رقیہ بیگم یعنی کہ اس کی ماں کا ہے۔ لیکن پاکیزہ کو کوئی رقیہ بیگم دستیاب نہیں جو اس کو اس گھٹن سے نجات دلائے۔ ہمیں پاکیزہ کی ذات میں خاموش احتجاج بھی نظر آتا ہے اور پھر حویلی سے باہر کی دنیا کو دیکھنے کی خواہش بھی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکیزہ کا کردار ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا اپنا کردار ہے۔ لیکن ہم فقط اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا زمیندار گھرانے سے ہے اور پاکیزہ کے کردار کے ذریعے انہوں نے جاگیردارانہ سماج کے مظالم کو بہت بے رحمی سے بے نقاب کیا ہے۔ اس میں جہاں ہم کو پاکیزہ سے ہمدردی کا احساس ہوتا ہے تو ساتھ ہی ہمارے دل میں اس نظام کے خلاف بغاوت بھی جنم لیتی ہے۔ شاید پاکیزہ کے کردار کی وجہ سے ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ کو پنجاب کی قرۃ العین طاہرہ کہا گیا جنہوں نے اپنے سماجی ڈھانچے کو بہت بے دردی سے اور معصومیت سے بے نقاب کیا ہے.
اس ناول میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ سیاسی تاریخ اس ناول کی کہانی کی بنیادی موضوعات میں سے ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پنجاب سے مہاجرین کی آمد ، ایوب خان کا مارشل لاء، بی ڈی انتخابات ،فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کا الیکشن ، ایوب کے خلاف طلباء کا احتجاج ،مشرقی پاکستان کا الگ ہونا، مشرقی پاکستان میں شکست خوردہ فوجیوں کا قید ہونا اور پھر بھٹو صاحب کا ان کو رہائی دلوانا، بھٹو صاحب کا سوشلزم ،بھٹو کی پھانسی ان سب کا ذکر کہانی میں چلتا رہتا ہے مگر خصوصی طور پر جس دور کو سب سے زیادہ ڈسکس کیا گیا وہ جنرل ضیاء الحق کا دور ہے اور اس دور میں بھی افغان جنگ جس میں پاکستان نے اہم کھلاڑی کا کردار ادا کیا۔ اس کا ذکر سب سے زیادہ ہے ۔ پھر اس دور میں معاشرتی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کا ذکر ہے۔ کچھ طبقات جن کا حدوداربعہ بہت محدود تھا اچانک ملکی سطح پر اہم ہو گئے۔ وہ جو سائیکل پر سوار تھے وہ پجارو کے مالک بن گئے۔ ایک پورا باب عسکریت پسندی کی تربیت اور اس کی ترسیل پر ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثہ اور پھر بینظیر بھٹو کا حکمران بننا۔ جب بینظیر بھٹو نے حکومت قائم کی تو اس وقت عورت کی حکمرانی کے جواز و عدم جواز کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں کافی سرگرم مباحثے ہوئے ۔ ان کا ذکر ناول میں بھی ہے اور غالب بیانیہ جو کہ عدم جواز کا تھا اس کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے لیکن بینظیر بھٹو کی کامیابی میں ان کی مظلومیت اور والد کا قتل بہت اہم فیکٹر تھے لہذا ان کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ میاں نواز شریف کی سیاست میں آمد سے بھی ہمارے سیاسی ڈھانچے میں بھی ایک قابلِ ذکر تبدیلی آئی ، پہلے جاگیردار اور زمیندار طبقہ کے لوگ اسمبلیوں میں آتے تھے مگر جب میاں صاحب سیاسی منظر نامے پر ابھرے تو صنعت کاروں نے بھی اسمبلی کا رخ کرنا شروع کیا۔ اس بات کو بھی ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ اپنے ناول میں زیر بحث لائی ہیں۔ اس کے بعد مشرف کا مارشل لاء اور اس کے بعد نو گیارہ کا واقعہ جس نے عالمی منظر نامے کے ساتھ ہمارا ملکی منظر نامے کو بھی تبدیل کیا جو لوگ جنرل ضیاء کے دور میں محبوب بنائے گئے تھے اب وہ ریاستی سطح پر معتوب ہو گئے۔ جس سے ایک طرف ریاستی اداروں اور دوسرے طرف ان لوگوں کے لیے ایک نئے چیلنج کھڑے کر دئیے۔ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے ایک بات کی کمی محسوس کی کہ مشرقی پاکستان کا سانحہ جس قدر بڑا تھا اس طرح ناول کا موضوع نہیں۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے نیلی بار اور اس کی رہتل پر اتنا بڑا اثر نہیں ڈالا تھا تو اس لیے اس کا زیادہ ذکر نہیں کیا گیا۔ مشرف دور کی ایک اور چیز جو کہ ناول میں ذکر کی گئی وہ الیکٹرانک میڈیا کا آنا تھا۔ اس بارے میں ڈاکٹر صاحبہ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں
"اس آزاد میڈیا نے لفظوں کو کس قدر آزاد کر دیا تھا۔ بے لگام،بے مہار ،ہر حد ہر ادب سے باغی پہلی بار لفظوں کی ہئیت ترکیبی بدل گئی تھی اب وہ مافی الضمیر کا چہرہ نہ رہے تھا۔ہیجان، عصبیت، شوریدگی، دیوانگی، لایعنی، بے معنی، بے ہنگم شور رہ گیا تھا۔ لفظوں کے چہرے بگڑ رہے تھے، معنی مسخ ہو رہے تھے۔ تکلم مبارزت میں تبدیل ہو گیا تھا جس قدر بلند آہنگی، اعصاب شکنی، اور سنسنی خیزی کوئی پیدا کر سکتا تھا، وہ اُتنا ہی کامیاب اینکر پرسن تھا، اُتنا ہی کامیاب پروگرام، بڑھتی ہوئی ریٹنگ، اشتہاروں کی بھرمار اس آزاد میڈیا پر ہر صبح دندناتی چباتی ہوئی طلوع ہوتی حواس پڑ ہتھوڑے مارتی اسکرین سے برآمد ہوتی۔ اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کے ہتھوڑے جو انسانی حقوق، شخصی آزادیوں کے خوش رنگ غلافوں میں لپٹے ہوئے ہوتے"
ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ کے اس اقتباس سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا مکمل اور بھرپور چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور دن بدن حالات مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔ یہ آزاد الیکٹرانک میڈیا جس طرح سامراج اور مقتدر اشرافیہ کا محافظ بن کر ابھرا ہے اب اکثریت کو نظر آ رہا ہے۔ اس کی آزادی کے نام پر غیر ذمہ داری اور سنسنی پیدا کرنا کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اب تو پچھلے چند سالوں سے جس طرح سے یہ ظالموں کا دست و بازو بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سے اس کی وقعت مزید گر گئی ہے۔ ایسے سامراجی آلہ کار جو کہ ظالم کے اشاروں پر ناچے کی وقعت گرنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے انعام سے کم نہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے بھی ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ نے بہت اہم باتیں لکھی ہیں جن کا مخاطب براہ راست پاکستان کے اصل حاکم یعنی کہ اسٹبلشمنٹ ہے۔ کچھ اقتباسات اس حوالے سے دیکھیں
"محاذ اور بیرکوں سے نکل کر یہ خود کو Ordinary بنانے پر کیوں تل گئے ہیں؟ ان کا سحر تو فاصلوں نے قائم کر رکھا تھا جو چھاؤنیوں سے نکل کر شہر کی سڑکوں پر کھو دیا گیا۔ اپنے ہی شہروں کو فتح کرنے، اپنے ہی شہریوں کو مات دینے کے لیے انہیں دشمن کی نسبت کس قدر زیادہ تگ و دو کرنا پڑ رہی تھی ۔جن کے محافظ ہیں، انہی کوتاہ قد، نحیف و نزار عامیوں کے مقابل جھونک دیئے گئے ہیں جیسے ان بہادر مضبوط لشکریوں سے بے پر چونٹیوں کو مسلنے کا کام لیا جا رہا ہو۔ لیکن اب ان چونٹیوں کے برسات کے بعد والے پر نکل ائے تھے وہ بوٹوں کے تلووں تلے کچلے جانے کی بجائے بوٹوں کے اندر گھس رہے تھے جیسے ہاتھی کی سونڈ میں چونٹی، جو اسے کسی کل چین نہیں لینے دیتی "
یہ اقتباس لکھا تو ایوب خان کے دور کے بارے میں تھا لیکن لگتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرہ اقبال آج کی بات کر رہی ہے۔
ایک اور اقتباس
"عوام الناس کو راہ راست پر چلانے والے ازلی ہتھیار یعنی خوف اور لالچ دونوں ان کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ جب آسمانی خدا اپنی حاکمیت منوانے کو اسی خوف اور لالچ کے درمیان تمام ضوابط استوار کرتا ہے تو زمینی خداؤں کی راہنمائی کے لیے ہی تو یہ رہنما اصول مرتب ہوتے ہیں۔
جنت کے باغات، دودھ کی نہریں، حور و قصور، ملوں فیکٹریوں کے پرمٹ ،وزارتوں امارتوں کے ہنڈولے ،پیٹرول پمپ، ہاؤسنگ اسکیمیں ،سڑکوں، عمارتوں کے ٹھیکے آخر کار معاف کر دیے جانے والے بھاری قرضے بینکوں کو دیوالیہ کر دینے والے کیسی کیسی جنتی ترغیبات، کوئی دامن بچائے تو کیسے، رد انکار کی جرات کرنے والوں کے لیے شاہی قلعے ،اڈیالہ جیلیں، اٹک کے عقوبت خانے جبڑے کھولے تیار تعزیرات سے بھری فائلیں، عدالتیں جن میں بیٹھے قاضی انہی اکڑی کریزوں اور بھاری مقدس وردیوں میں ملبوس خدائی تعزیرات پر عمل درآمد کرانے والے گرز بردار فرشتے جہنم دہکائے ہوئے، روم روم داغنے والے لالچ اور خوف کے بیچ بولیاں جو لگیں تو بے انت لگیں مال جو پکنے کو آیا تو کساد بازاری پڑ گئی۔ ہر ایک ترازو کے پلڑے میں چڑھ بیٹھا منہ مانگے باٹوں پر تلا۔کبھی کوئی تاریخی سماوی حادثہ جہاں بہت سے نقصانات کا باعث بنتا ہے، کچھ افراد کی زندگی میں خوشحالی اور انقلاب بھی بن جاتا ہے۔ بردہ فروش، جسم فروش، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ہاس ٹریڈنگ جیسے کتنے منافع بخش کاروباروں کو پروان چڑھاتا ہے"
جس طرح سے ہماری مقتدرہ ہمارے سیاسی ڈھانچے کو کتر بیونت کرتی ہے اور اس کے کیا کیا ذرائع ہوتے ہیں ، یہ اقتباس اس ہی کی تصویر کشی کر رہا ہے۔بالخصوص خوف اور لالچ کے دونوں طریقے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
ایک اور اقتباس پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی آج کی بات ہے
"سرحدوں ، محاذوں کی حفاظت کرنے والے جو کبھی آسمانی مخلوق معلوم ہوتے تھے اور عوام کی نگاہوں سے دور کہیں آہین پوش رہا کرتے تھے جو عام نہیں خاص الخاص تھے نو عمر لڑکیوں کے خوابوں کے شہزادے اور لڑکوں کے آئیڈیل۔ ہر دفتر ،یونیورسٹی ، ادارے، سڑکوں، چوراہوں پر جیسے ان کی نمائش لگا دی گئی ہو۔ کتنی لڑکیوں کے معصوم جذبات کو ان کی اس عمومیت نے توڑ پھوڑ دیا ہوگا۔ کتنے لڑکوں نے اپنے آئیڈیل تبدیل کر لیے ہوں گے۔ وہ مخلوق جو خوابوں اور خیالوں میں بستی تھی اب ہر عوامی ادارے میں گھس بیٹھی تھی جنہیں ایک جھلک دیکھنے کے لیے کسی جنگ یا قدرتی آفات کا انتظار کرنا پڑتا تھا جو وطن کی حفاظت، طوفان سیلاب میں گھرے مجبور انسانوں کی مدد کے لیے فرشتوں کی طرح پتہ نہیں کہاں سے اترتے تھے تو بچے بوڑھے جوان تالیاں بجا کر ان کا استقبال کرتے تھے۔ عورتیں بلائیں اتارتی تھیں اور بزرگ ہاتھ چومتے تھے اور تفاخر سے دوسرے کو بتاتے تھے کہ ہم نے انہیں دیکھا جو ہر ایک کو دکھائی نہیں دیتے اس لیے وہ لمحہ زندگی میں بڑا قیمتی ہو جایا کرتا تھا۔ جس میں ان کی شبیہ نمودار ہوئی اور دیکھنے والوں کی بصارتوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی۔ وہی اب بنا کسی جنگ اور آفت کے شہروں اور قصبوں میں پھیل گئے تھے یہ نایاب اور خاص الخاص عام ہو کر اپنا طلسم کھو رہے تھے کیا اس لیے قوم اپنا پیٹ کاٹ کر ان میں آہین بھرتی ہے کہ یہ اپنی بندقوں اور بوٹوں سے انہی عوام کے گھروں اور سڑکوں کو محصور بنا لیں، جس کو چاہیں سنگین کی نوک پر دھڑ لیں؟ یہ سوال زیر زباں تھا.یہ اپنے منصب سے اس قدر نیچے کیوں اتر آئے ہیں؟ ان سے وہ سب کچھ کیوں کروایا گیا جس سے ان کی شخصیت کا طلسم ٹوٹ گیا؟
وہ اس سب پر کیوں فائز ہو گئے جو ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہی نہ تھا۔کتنی زیادتی تھی کہ کارنامے رقم کرنے والے شہادتیں پیش کرنے والے اور تمغے اور ایوارڈ حاصل کرنے والے وردیاں اور بلے سڑکوں اور دفتروں میں خوار ہونے لگے خدا اور دعا کی غیر مرئیت جیسا تصور رکھنے والے اب عوام کو انتہائی عام معلوم ہونے لگے تھے "
یہ اقتباس پڑھتے ہوئے مجھے پتہ نہیں کیوں آپریشن رجیم چینج اور اس کے بعد جو مقتدر اشرافیہ کا حال ہوا۔ اس کی جھلک نظر آ گئی۔ ہم میں سے کئی لوگوں کے لیے جو لوگ ہیرو کا درجہ رکھتے تھے جن کے اوپر کوئی منفی بات سننے کے ہم روادار نہ تھے۔ انہوں نے اپنا میدان چھوڑ کر جب کسی اصول و ضابطے کو نظر انداز کیا اور وہ ریاست کی بجائے چند لوگوں کے مفادات کے لیے چادر اور چار دیواری کو تقدس تک کو بھول گئے تو پھر آنکھوں پر بٹھائے ان لوگوں کو ہم نے راندہ درگاہ بنتے دیکھا۔
جب پرویز مشرف کا مارشل لاء لگا تو اس وقت کے تاثرات کو مصنفہ نے جن الفاظ میں ذکر کیا وہ لفظ لفظ حقیقت بیان کرتے ہیں
"پیغمبر بھیجنے کا سلسلہ چاہیے روک دیا گیا ہو لیکن اس مملکتِ خداداد پر خلیفہ منتظم بننے کا اختیار ہر کہہ و مہہ تو حاصل نہیں کر سکتا۔اس مقصد کے لیے کچھ خاص افراد بھیجے جاتے ہیں۔ خاص الخاص نائب مقرر ہوتے ہیں۔ یہ وحدہ لا شریک، کلمہ یکتائی یہ ازلی سچ عوام الناس کے دماغوں میں اس طور انڈیل دیا جاتا ہے کہ وہ ان دیکھے خدائے برتر پر یقین کی طرح اس امر پر بھی یقین کرتے ہیں کہ ہر فرد من و تو کے پردے چاک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔اسی طرح یہ امور جہاں بانی بھی کچھ فوق البشر مرد مومن کا کام ہے جو ہمارے سروں کے اوپر اوپر پرواز کرتے رہتے ہیں ضرورت کے وقت نیچے اترتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں جت جاتے ہیں"
یہ الفاظ ہماری مقتدرہ کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں اور جس طرح وہ حکومتی امور میں مداخلت کرتے ہیں اور عوامی حکومت کو گھر بھیجتے ہیں تو اس کے پیچھے ایسی ہی ذہنیت کار فرما ہوتی اور یہی ہمیں بھی بتایا جاتا ہے۔
جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ ناول کی کہانی ساٹھ سال تک پھیلی ہوئی ہے تو اس دوران سماجی ڈھانچے میں واقع ہونے والے تغیر کو بھی مصنفہ نے مدنظر رکھا ہے۔ مثلاً جب گاؤں جانے والی سڑک کچی سے پکی ہوتی ہے تو وہ مجموعی طور پر گاؤں کی معاشرت کو تو تبدیل کرتی ہے۔ اب یہاں کجاوے اور ڈاچیوں والے بے روزگار ہو جاتے ہیں طرزِ سواری تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہم نے خود چند سالوں میں اوبر ، کریم اور بائیکایا جیسی سروسز کو دیکھا جس سے ٹیکسی کرنے کا طریقہ بدل گیا۔ اس سے پہلے ٹانگوں کی جگہ رکشوں اور ٹیکسیوں نے لی تھی۔ مصنفہ نے یہ بھی بتایا کہ جدید سہولیات کے ساتھ گاؤں میں سہل پسندی آئی تو ساتھ کئی بیماریاں بھی لائی مثلاً گھٹنوں کا درد کیونکہ پیدل چلنے کا رواج ختم ہو گیا تھا۔ پھر پکی سڑک نے آس پاس کے دیہاتوں کو بھی جوڑ دیا تھا، دیہات بھی شہری معاشرت سے متاثر ہونے لگے ۔ مادہ پرستی نے دیہی کلچر کو متاثر کیا جو لوگ قناعت پسند تھے اب نا شکرے ہو گئے تھے۔ اس پر ڈاکٹر طاہرہ اقبال کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں جنہوں نے اس سماجی تغیر کو بہت عمدگی سے ذکر کیا ہے
"شہری ترغیبات نے صبر اور قناعت کے پاٹ کھسکا دئیے تھے۔اب روٹی پر کوٹی ہوئی مرچ دھر ،سی سی کھانا، نئی نسل کو مزہ نہ دیتا تھا۔ سالن کا ذائقہ منہ کو لگ گیا تھا۔ کتنی نسلوں نے اپنے ننگے پیر پینڈوں میں ہنڈائے۔ اگر جوتی میسر بھی ہوئی تو بس وانڈے گئے،شریکے برادری میں ہی پہنی،چلتے وقت عورتیں جوتی سر پر دھر چلتیں تو مرد بغل میں دبا کر، لیکن اب تو لوگ گاؤں کے اندر بھی جوتا پہن کر چلتے تھے کہ سستے نائلون کے جوتے متعارف ہو رہے تھے۔ کتنی نسلوں نے پیوند لگے کپڑوں میں گزار دی یہ پیوند یہاں ہرگز کسی خجالت کا احساس نہ بنتے تھے لیکن اب مرد چھوڑ عورتیں بھی پیوند نہ لگاتیں۔ نئی نسل کی لڑکیوں کو تو جیسے پیوند لگانے کی اٹکل ہی نہ رہی تھی کہ کبھی نہ پھٹنے والے نائیلوں کے کپڑے رواج پا گئے تھے۔
صرف ہنر مندیاں نہ منہدم ہوئی تھیں ان کی کاریگری بھی اس مٹی میں جا سوئی تھی۔ اب گاؤں پکے مکانوں سے بھر رہے تھے ٹینکیاں اور ٹونٹیاں لگ گئی تھیں۔ ہینڈ پمپ بھی یادگار بن رہے تھے۔ پوری دوپہر سنی کے رسے بٹنے اور اٹیرن پر انہیں چڑھانے والے بوڑھے بھی رخصت ہو رہے تھے۔ پرانے بڑ، شیشم اور پیپل کے جھنڈ خالی ہونے لگے تھے۔ اب کھاد کے پلاسٹک بیگوں سے رس سے بٹ لیے جاتے تھے۔ اب گرمیوں کی لمبی دوپہریں کس قدر سنسان ہو گئی تھیں۔ اب چرخے کی ہوک پر کوئی جوگی پہاڑ سے اتر کرنا نہ آتا تھا۔ اب تو چرواہوں اور کنواریوں کے ٹپوں اور ماہیوں کا مزاج بھی بدل گیا تھا ان میں بھی جدید ایجادات اور رویوں کا اظہار ہونے لگا تھا"
ان اقتباسات کو دیکھ کر ہم گاؤں پر قیاس کر سکتے ہیں ، میں خود گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور کئی تبدیلیاں ان میں سے میں نے اپنی آنکھوں دیکھی ہیں ۔ اب تو ہماری نئی نسل وہ کھانے بھی نہیں بنا سکتی جو ہمارے سے پہلے کی نسل کا روز کے کھانے تھے۔ ساگ اور مکئ روٹی اب کوئی خاص طور پر سیکھے تو الگ بات ہے ورنہ میری عمر اور ہمارے بعد کے لوگ اس کو بنا نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں موسیقی میں بھی کچھ الفاظ متروک ہو چکے ہیں اب چرغے کا ذکر نہیں ، شاید آگے خطوں کا ذکر بھی ختم ہو جائے کیونکہ عملی زندگی میں تو ان کا کردار بہت محدود ہو چکا ہے۔ ہمارے نئے گیتوں میں ان کا بھی ذکر معدوم ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بڑے کینوس پر پھیلے اس ناول میں اس اہم چیز کا خیال رکھا جو کہ زمانے کے بدلنے اور ترقی کی صورت میں سماج پر پڑتا ہے اور اس کو بہت خوبصورتی سے ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا یہ ناول بیشک اردو ناول نگاری کی تاریخ میں بڑی ناولوں میں شمار کیے جانے کے لائق ہے۔ ان کا اسلوب بہت شاندار ہے۔ کہانی کا دورانیہ کافی طویل ہے جو کہ اس کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہے لیکن اس طویل دورانیے کی وجہ سے کئی کمزور پہلو بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اس کی گنجائش ہم لکھاری کو دے سکتے ہیں۔ جس خوبصورتی سے مصنفہ نے پہلا باب لکھا ہے محسوس ہوتا ہے کہ اس کو اگلے نو ابواب میں اس طرح مصنفہ برقرار نہیں رکھ پائیں مگر اس کے باوجود کہانی پر ان کی گرفت قائم رہتی ہے گو کہ اس میں پہلی کی نسبت کچھ ڈھیل بھی محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ کے قلم میں بے باکی کو بھی بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور انہوں نے ہمارے سماج کے کئی نازک پہلوؤں اور شعبوں کو چھیڑا ہے۔ جس کی ہمت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں اور پھر جس طرح خاندانی پس منظر کے باوجود جاگیرداری نظام کو دریدہ دہنی سے بے نقاب کیا ہے وہ الگ بات ہے۔ مجموعی طور نیلی بار اردو ادب کے اثاثوں میں اضافے کا سبب ہے۔