خاتون کا کہنا ہے کہ شادی کے شروع شروع میں میرا شوہر میری تعریف کرنے کی بجائے غیر عورتوں کی تعریف کیا کرتا تھا اور میں اس بات پر کڑھتی تھی مگر اس بات کا میرے شوہر پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے اسے کسی عورت سے فون پر بات کرتے ہوئے دیکھ لیا جس کے بعد ہم دونوں کی بہت لڑائی ہوئی اور ناراضگی دو ہفتوں تک چلی پھر آخر کار سب نارمل ہو ہی گیا، چند ماہ بعد دوبارہ ایسا ہی ہوا کہ وہ چھت پر چڑھ کر کسی عورت سے بات کر رہا تھا اور میں نے دیکھ لیا اور ایک دفعہ پھر سے بہت لڑائی ہوئی اور بات کافی بگڑ گئی ، میں نے شوہر کو کہہ دیا کہ اگر تم اپنی عادات نہیں بدلو گے تو میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی، آخر شوہر نے مجھ سے آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا اور معافی تلافی ہو کر سب نارمل ہو گیا مگر اس واقعے کے 5 برس بعد بھی میرا ذہن مجھے یہی کہتا ہے کہ میرا شوہر سدھرا نہیں بلکہ بہت محتاط ہو گیا ہے ، وہ میرے سامنے بات نہیں کرتا ہو گا باہر ہی کال کرکے گھر آتا ہو گا، جس دن عموم سے ذرا زیادہ تیار ہو کے جائے باہر تو میری جان پر بن جاتی ہے کہ اب تو کسی عورت سے ملاقات کے لیے گیا ہے ، دفتر سے لیٹ ہو جائے تو مجھے سکون نہیں ملتا اور وساوس آنے لگتے ہیں ، میں جب ان باتوں کا اظہار شوہر سے کرتی ہوں تو وہ چڑتا ہے اور ہمارا اکثر ہی جھگڑا ہو جاتا ہے، مجھے بتائیں مجھے کیا ہو گیا ہے اور اس کا کیا حل ہے کیونکہ مجھے اس بات کا یقین بھی نہیں کہ اب وہ کسی سے رابطے میں ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔۔
دراصل خاتون بہت حساس ہونے کی وجہ سے واقعے کو اپنے اوپر اس قدر طاری کر چکی تھی کہ یہ معاملہ اس کے لیے باقاعدہ ایک ڈس آرڈر بن گیا تھا ، جسے سائیکالوجی کی زبان میں relationships ocd کہا جاتا ہے، جس میں مبتلا فرد کو اپنے شریک حیات سے متعلق صرف منفی خیالات ہی آتے ہیں اور خیالات بھی ایسے کہ ایک کا جواب دو تو ذہن مزید 100 سوالات گھڑ لاتا ہے اور مریض کبھی بھی مطمئن نہیں ہو پاتا۔
میں نے خاتون سے کہا کہ دیکھو تمہیں جو ذہنی عارضہ لاحق ہو گیا ہے اس میں تمہارے لیے لازم ہے کہ اپنی ہر آنے والی سوچ کے الٹ عمل کرو اور سوچ کو خاموش کروانے کے لیے کچھ ایسے پر اثر جملے دہراؤ کہ ذہن ایک مرتبہ خاموش ہو جائے جیساکہ اگر ذہن کہے کہ تمہارا شوہر کسی عورت کو ملنے گیا ہے تو کہو ہاں گیا ہے تو پھر۔۔۔؟؟
ایسا کہنے سے ایک مرتبہ تو شدید بے چینی ہو گی مگر ایسا بار بار کرنے سے معاملہ اپنی شدت کھو دے گا۔۔۔۔
اس کے علاوہ یہ بات ذہن میں رکھو کہ ہم کسی کو بھی اپنے ساتھ باندھ کر نہیں رکھ سکتے اگر وہ تمہارے حقوق ادا کر رہا ہے تو اس کے ظاہر پر اکتفا کرو اور اسے کریدو نہیں، کچھ معاملات اللہ اور بندے کے درمیان ہی رہنے چاہئیں ، کیونکہ تم جتنا کریدو گی کچھ نا کچھ تمہیں تمہارے مزاج کے خلاف ہی ملے گا اور تمہارا ذہن اسے بڑھا چڑھا کر تمہیں دکھائے گا کیونکہ ذہن نارمل حالت میں ہے ہی نہیں، اس لیے شوہر کو اپنی سوچوں کی قید سے آزاد کرو اور خود بھی آزاد رہو، ہم تنہا آئے تھے اور تنہا ہی جانا ہے یہ سب تو راستے کے ساتھی ہیں انہیں ان کے حصے کے بقدر محبت دے کر آزاد کر دو، ان شاء اللہ تمہارے ہی رہیں گے ورنہ جتنا باندھنا چاہو گی ۔۔۔خود کو تو اذیت دو گی ہی اور آس پاس والوں کے لئے تم خود اذیت بن جاؤ گی اور بہت ممکن ہے کہ تمہاری یہ عادات تمہاری بیٹیوں میں بھی لاشعوری طور پر منتقل ہو جائیں۔۔۔۔۔
یہ سب تو میں نے خاتون سے کہا لیکن شوہر حضرات کو بھی اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی مشکوک حرکات ان کی شریک حیات کو کسی نا کسی ذہنی عارضے میں مبتلا کر سکتی ہیں جس کا اثر گھر اور اولاد پر گہرا ہو گا۔۔۔اس لیے اپنی تمام تر محبتیں اور خلوص اپنے حلال رشتوں کو دیجیے ، کیونکہ یہی اصل حق دار ہیں!!