یہی اصول مذہبی سچ پر بھی لاگو ہوتا ہے، مذہبی سچائی کے حوالے سے لوگوں کی بڑی تعداد اب اس تلخ حقیقت کو پا چکی ہے کہ آپ کا عقیدہ حرفِ آخر نہیں، گنجائش موجود ہے کہ دوسرے عقیدے پہ کھڑا شخص بھی سچا ہو، لیکن سچائی کی اس حقیقت کو لے کر سائنسی، سیاسی اور سماجی علوم کے علمبردار آج بھی اپنے نظریات کو ٹھوس اور کامل مانتے ہیں، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ سائنس اور سیاست کو لے کر یہ دعویٰ مسلسل دیکھنے میں آتا ہے کہ انہی علوم کی بدولت ہی انسان کی سوچ میں لچک پیدا ہوئی اور فرد اپنی رائے سے رجوع کرتا رہا ہے، اس موقع پر دوست برٹرینڈ رسل کا یہ قول بھی نقل کرنے سے نہیں چوکتے کہ، میں اپنے نظریات کیلئے کبھی اپنی جان قربان نہیں کروں گا، کیونکہ ممکن ہے کہ میںرے نظریات غلط ہوں، لیکن یہ سب فقط دعوے اور باتیں ہیں، حقیقت میں ڈھٹائی موجود ہے، لیکن یہ ڈھٹائی وقتی ہے، وقت کے ساتھ یہ پگھل سکتی ہے اگر کوئی بیرونی قوت اس کے قائم رکھنے پر مصر نہ ہوتو ، دراصل کسی بھی انسان کیلئے اپنے نظریات کی قربانی دینا نہایت کٹھن کام ہے کہ نظریات پر تن من دھن صرف کیا ہوتا ہے، اور ہر وہ چیز انسان کیلئے نہایت عزیز ہے جس پہ وقت، انرجی اور پیسہ خرچ کیا گیا ہو ۔
حتی کہ ریاضی جیسا مضمون جس کی بنیاد ، ادراک یا احساس نہیں، بلکہ خالص اعداد و شماریات پر ہے، وہاں بھی کامل سچائی پر بحث کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے، معروف ریاضی دان کرٹ گوڈیل کا نظریۂ نامکملیت اس پہ واضح دلیل ہے جو ریاضی کی کاملیت کو جھٹلاتا ہے، ان کے مطابق ہر کامل نظام اپنے اندر تضاد رکھتا ہے، تضاد کی غیر موجودگی کا مطلب ہے کہ نظام کامل نہیں، اگر ریاضیات میں تضاد کا عنصر لازم ہے تو مزاہب، سیاسیات، عمرانیات اور دیگر سائنسی علوم کی بابت کیا کہیئے گا۔
مزہب اور سیاست کے انتخاب میں تو بالخصوص ذاتی پسند ناپسند کا عمل دخل ہے، جہاں دلیل کی بجائے جذبات سے کام لیا جاتا ہے، اور جہاں جذبات غالب ہوں وہاں منطقی بحث مشکل تر ہوجاتی ہے۔
کسی بھی مذہب یا سیاسی جماعت کے نعروں اور دعووں کو ہر شخص اپنے ذہن و سمجھ کے مطابق قبول کرتا ہے، اور ذہن و سمجھ ہر شخص کی جدا ہے، یہیں سے مختلف آراء سامنے آتی ہیں، اختلاف رائے بنتا ہے، کچھ دل سے ایمان لاتے ہیں، کئی فقط سمجھوتہ کرتے ہیں اور تیسرے اختلاف کرتے ہیں، اب اس مختلف آراء کے افراد کو ایک جگہ جمع رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس پہ سب متفق ہوں، مزاہب کو لے کر، مندر ، مسجد ، حرم وغیرہ ایسے مراکز کا کام کرتے ہیں، سیاسی جماعتوں میں یہ مرکز جماعت کا لیڈر یا پھر منشور ہو سکتا ہے، ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاسی لیڈر ہی یہ مرکز ہے۔
نظام میں تضاد کی گنجائش کا انحصار ، سوچ کی آزادی پر ہے، سوچ آزاد ہے تو تضاد رہے گا اور نظام چلتا رہے گا، سوچ پر پابندی کا مطلب تضاد کو ختم کرنا ہے، تضاد کا ختم ہونا دراصل نظام کا ختم ہونا ہے، اسی طرح سوچ کی آزادی پر اگر کسی قسم کی کوئی حدود نہیں، وہ بے لگام ہے تو نظام بکھرتے ہوئے درہم برہم ہو جائے گا،، نظام کیلئے جیسے سوچ پر پابندی نقصان دہ ہے، سوچ کے بے لگامی بھی ایسے ہی تباہ کن ہے۔ ایسے ہی جیسے آسمان پہ چمکتا کوئی ستارہ، اس کا وجود دو طاقتوں کے درمیان قائم ہے، gravitational force, جو اسے بکھرنے نہیں دیتی اور دوسرا thermonuclear reactions جو اسے خود میں ضم نہیں ہونے دیتے۔ ان دو طاقتوں کا اعتدال ہی ستارے کے وجود کا ضامن ہے, اسی طرح نظام یا نظریئے کی زندگی ، سوچ پر پابندی یا آزادی کے اعتدال میں ہے ۔
مذہب ہو، سیاسی و عمرانی علوم ہوں یا سائنس، حق کی تلاش کیلئے ان سب کے اپنے اپنے اصول ہیں اور انہی اصول پر قائم رہتے ہوئے ہی کوئی شخص حقیقی عالم، ماہر یا سائنسدان کہلایا جا سکتا ہے، ایسے میں اپنے نظام کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کرنا علمی خودکشی کے مترادف ہے، یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور چلتا رہنا چاہئے ، حق کی تلاش میں انحراف تب پیدا ہوتا ہے جب مقتدر قوتیں بیچ میں کود پڑتی ہیں، یہاں مقتدر قوتوں سے مراد سیاسی جماعتیں ہرگز نہیں، اقتدار کو طول دینے کے لالچ میں یہ قوتیں اپنا ایک حق قائم کرتی ہیں، علماء اور دوسرے علوم کے ماہرین کے پاس اب دو راستے بچتے ہیں، یا تو وہ اسی کو حق مانیں اور اس کی تبلیغ کریں جو " سچ " اقتدار کے تخت سے ان تک پہنچایا جا رہا ہے، یا پھر خطرناک انجام کیلئے تیار رہیں، اب سچ وہی ہے جو مقتدر قوتیں بتائیں گی، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسی قوتیں کبھی بھی سچ کی تلاش میں گرداں نہیں ہوتیں، ان کا واحد مقصد اقتدار پر قابض رہنا ہوتا ہے۔
تمام علوم کے ماہرین اب سچ کو تلاش کرنے کی بجائے، اسی بیانئے کو سچ ثابت کرنا شروع کر دیتے ہیں جو انہیں ڈکٹیٹ کروایا گیا ہو، ایسا سچ اب مردہ گائے کا دودھ ہے، جو دودھ تو ہے لیکن مضر صحت ہے۔
ہمارے ہاں آج مذہب کی آڑ میں جو چیز الہامی حق ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،، اور سائنسی، سیاسی و سماجی علوم کو لے کر، سچ کے نام پر جو مواد ذہنوں میں ڈالا جا رہا ہے، یہ بالعموم وہ سچ ہے جسے کان سے پکڑ کر طاقتور بیانیے کی چھاؤں میں لا بٹھایا گیا ہے۔