مصنف پروفیسر عمران میر
پر وفیسر حماد خان مررانی
ہمہ جہت ادیب اور رجحان ساز شاعر ہیں۔ دبستان ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے یہ
عظیم اور کثیر الجہات تخلیق کار لمحہ موجود میں امریکہ (نیو یارک) رہتے ہیں اور
وہاں یہ پاکستانی شعر وادب اور ثقافت کے سفیر کے روپ میں جانے مانے جاتے ہیں اور
وہ بجاطور پر سفیر ادب کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ان کی تخلیق ایچ تعمیری اور
خردمندانہ ہے۔ وہ سماجی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے اپنے قلم کو مسلسل متحرک رکھتے ہیں۔
بطور اُردو شاعران کی قادرالکلامی اور جدت فکر کو عہد ساز شعراء وادباء، مثلاً گلزار، ندا فاضلی، راحت اندوری، جاوید اختر،مامون ایمن،صلاح الدین ناصر، عرفان خالد و دیگر مشاہیر خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔ پر وفیسر حماد خان کی شاعری، بلند نصب العین کی حامل ہے جس میں عصری آشوب، فردی اکلا پے اور انسانی کشائش کے مظاہر تجسیم ہوتے دکھائی دیتے ہیں وہ بڑے سے بڑے موضوع کو لطیف پیرائے میں بیان کرنے پر قادر ہیں۔ ان کی اُردو شاعری ابدی صداقتوں عصری حقائق و معارف اور رومان و مزاحمت کاری کا عمدہ استعارہ ہے۔ ان کی شاعری معنوی حسن اور تلازمہ کاری کی حسیت کے تناظر میں شگفتگی اور کائناتی سچائیوں کی حامل ہے۔
ان کی سرائیکی شاعری اپنی
لوک دانش اور وسوں کا جیتا جاگتا نمونہ پیش کرتی ہے۔ جس میں ان کا نفرادی لہجہ اور
کومل لفظیات و تراکیب پڑھنے والے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ حماد خان مررانی
کالم نگار،سفرنامہ نگار ،خاکہ نگار،نغمہ نگار مناقب و مدحت نگار ، غزل گو کے ساتھ
ساتھ رثائی شاعری کا بھی معتبر حوالہ ہیں۔ ان کی شخصیت ایقان، اعتماد کا باوقار
شہکار ہے۔ شخصی سچائی و سادگی ان کا وصف خاص ہے وہ سات سمندر پار رہتے ہوئے بھی
وطن کی ہواؤں میں سانس لیتے ہیں۔ اور اپنے اشعار میں اپنے لوگوں کے دکھ، اذیت جبر
اور رومان کو تجسیم کرتے ہیں۔
دوستوں پر جان چھڑکتے یہ
سچے اور مخلص شاعر و ادیب صلہ و نمود سے کوسوں دور حرمت حرف سے جڑے ہوئے باوقار،
باہمت قلمکار ہیں۔ بزم حماد انٹرنیشنل کے سرپرست اعلیٰ ہیں بین العلومی مطالعے اور
عالمانہ انداز فکر نے ان کے فکر و فن کو جلابخشی ہے۔
پروفیسر حماد خان چار دہائیوں سے اُردو شعر و ادب کے
ساتھ ساتھ سرائیکی شاعری اور نثر کو ثروت مند کر رہے ہیں۔ ان کی اُردو شاعری جدید
طرز احساس اور ندرت خیال کا مرقع ہے سادگی اور پرکاری اُن کے کلام کا اختصاص ہے ان
کی غزلیہ شاعری اسرارِ ذات و حیات کے ساتھ ساتھ عرفانِ کائنات کے مظاہر دل پذیر کا
نقش ملیح ہے۔ ان کے کلام میں معروضیت کے عناصر اُنہیں آفاقی شاعر کے طور پر مستحکم
کرتے چلے جاتے ہیں ان کی اُردو مزاحیہ نثر اپنے اندر شائستگی تازگی اور بشاشت کے
عناصر سمیٹے ھوئے ہے جن میں طنز صبیح بھی ہے اور عصری شعور بھی۔۔۔ اُن کی سرائیکی
شاعری ارضی عرفان کا مجموعہ ہے جس میں اُنہوں نے غزل کو معنوی وسعتیں عطا کی ہیں
اور چھوٹی بحر کے تجربے سے اُنہوں نے سرائیکی غزل کو اعتبار آشنا کیا ہے۔ ان کی
سرائیکی شاعری اپنی وسوں کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے
ان کی سرائیکی نثر الگ انداز کی ہے جس میں طنز و مزاح اور وسیبی شعور یکجا نظر آتا
ہے۔ ان کی خاکہ نگاری پر مبنی کتاب "پتھر بازار" ان کے صاحب اسلوب نثر
نگار ہونے کی گواھی ہے۔
پروفیسر حماد خان اپنے انداز نگارش کے خود ہی موجد اور
خود ہی خاتم ہیں۔
اس رُجحان ساز شاعر ادیب
کے فکر و فن پہ دنیا بھر کے مشاہیر نے مضامین لکھے۔ مختلف اخبارات جرائد و وسائل
میں بکھرے ان فکری موتیوں کی یکجائی، ازحد ناگزیر تھی اس سے مستقبل کے
محققین اور حماد شناس استفادہ کرسکیں گے۔ اور ہمارے ادبی ہیروز کا
تعین بھی۔۔۔ سو
خاکسار نے علاقے کا حقِ نمک ادا کرنے کے لیے
حماد شناسی کی بنیاد کہتی ہے تجھ کو
خلقِ خدا مرتب
کر کے رکھ دی ہے۔
بقول پروفیسر حماد خان