رنجیت گوہا اور پارٹھا چٹرجی اپنی کتاب The Nation and Its Fragments میں لکھتے ہیں کہ ہندوستانی تاریخ میں کمیونٹیز نے اپنی سیاسی شناخت محض عقیدے، ذات یا نسل پر نہیں بلکہ جذباتی اقدار پر بنائی تھی۔۔۔۔۔بھائی چارہ، وفاداری، مقامی رشتے اور لوک عقیدے۔ گاؤں کی برادری، میلوں، مذہبی تہواروں اور لوک رسومات میں ہندو، مسلمان، سکھ اور دیگر گروہ ایک ساتھ شریک ہوتے تھے۔ یہ اتحاد باہمی بھروسے، پڑوس داری اور مشترکہ یادداشت پر قائم تھا، اور یہی جذباتی و سماجی جڑت برطانوی نوآبادیاتی طاقت کے لیے بار بار مزاحمت کا باعث بنی۔
انگریزوں نے جلد سمجھ لیا کہ جب تک یہ قدرتی اتحاد اور جذباتی رشتے قائم ہیں، مکمل سیاسی کنٹرول ممکن نہیں۔ اس لیے انہوں نے "rationality" کا نوآبادیاتی ڈسکورس مسلط کیا۔۔۔۔۔۔ایک ٹھنڈا، جذبات سے خالی ترقی کا ماڈل، جس میں صرف اعداد و شمار، سسٹمز اور یورپی طریقہ کار کو اہمیت دی گئی۔ انسان کو ڈیٹا، رول نمبر یا productivity میں بدل کر ایک "manageable machine" بنا دیا گیا۔
یہ عقل پرستی محض زبان یا کلچر تک محدود نہیں تھی، بلکہ ذہنی تربیت تھی کہ "ترقی یافتہ" ہونے کا مطلب ہے اپنی جڑوں، لوک یادداشت اور جذبات سے دور ہونا۔ لوگوں کو قائل کر دیا گیا کہ مغربی پیمانوں پر چلنا ہی عقل ہے اور جذبات محض کمزوری ہیں۔ جب کسی قوم کو اس کی زبان، رسومات اور محبت بھرے تعلقات سے کاٹ دیا جاتا ہے تو وہ dehumanize ہو جاتی ہے۔اپنی شناخت اور تاریخ سے جڑنے والے جذباتی حصے سے محروم ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ فینن اور نگُوگی وَا تھیونگو نے واضح کیا، یہ صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی غلامی تھی۔ زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ جذباتی و فکری خودمختاری کا ستون ہے، اور جب یہ ستون گرتا ہے تو مزاحمت کی جڑ بھی ہل جاتی ہے۔ یہ ذہنی و نفسیاتی نوآبادیات کا عمل تھا۔انسان کو جذباتی شناخت سے کاٹ کر قابلِ نظم یونٹ میں بدل دینا۔
پارٹھا چٹرجی کے مطابق برصغیر کی تاریخ محض واقعات کا ریکارڈ نہیں تھی بلکہ درست اور غلط کے اخلاقی پیمانوں پر لکھی جاتی تھی۔ یہ پیمانے بھی انہی جذبات اور برادری کے رشتوں سے جنم لیتے تھے۔ برطانوی نوآبادیاتی منطق نے اس اخلاقی بنیاد کو productivity، usefulness اور materialism میں ڈھال کر بدل دیا، اور بعد کی تاریخ نویسی بھی اسی پیمانے پر چل نکلی۔
گرامچی کے مطابق، ثقافتی بالادستی تب قائم ہوتی ہے جب لوگوں کو یقین دلا دیا جائے کہ عقل ہمیشہ جذبات پر برتر ہے اور ترقی کا مطلب اپنی جڑوں سے کٹ جانا ہے۔ یوں وہ اپنی محبت اور زبان ترک کرنے لگتے ہیں اور یہ ترک کرنا استعمار کی سب سے بڑی فتح ہے۔
ہر برٹ مارکوز (Eros and Civilization) کے مطابق، جابرانہ نظام محبت، جذبات اور خوشی کو اس لیے دباتے ہیں کہ یہ لوگوں کو آزادانہ رشتوں اور یکجہتی کی طرف لے جاتے ہیں، جو مزاحمت میں بدل سکتی ہے۔ ایرک فرام (The Art of Loving) کہتے ہیں کہ محبت ایک باشعور، آزادانہ عمل ہے جو فرد کو کسی حاکم کی اجازت کا محتاج نہیں رہنے دیتا۔یہ خودمختاری ہر آمرانہ یا نوآبادیاتی طاقت کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ سلاؤی ژیژیک محبت کو طاقت کے سخت ڈھانچے میں ایک "دراڑ" قرار دیتے ہیں۔۔۔ایک غیر متوقع لمحہ جہاں نظام کا کنٹرول ٹوٹ سکتا ہے۔ انکے مطابق
محبت ذاتی عمل نہیں بلکہ سیاسی بغاوت ہے۔
جارج آرویل کے ناول 1984 میں "Big Brother" چاہتا ہے کہ محبت اور وفاداری صرف ریاست کے لیے ہو۔ اس کا نظام زبان محدود کرتا ہے، خیالات پر پہرہ بٹھاتا ہے اور ہر تعلق کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ دو افراد کا محبت میں جڑنا اس کے لیے خطرناک ہے کیونکہ یہ ریاست سے باہر ایک متوازی وفاداری پیدا کرتا ہے۔ آرویل کے مطابق، ہر جابرانہ نظام محبت اور جذباتی وابستگی سے ڈرتا ہے کیونکہ یہ رشتوں، اعتماد اور وفاداری کا آزاد دائرہ پیدا کرتی ہے۔
محبت اور دیواریں گرانے کی سیاست
نوآبادیاتی طاقت کا انحصار صرف فوجی یا انتظامی کنٹرول پر نہیں بلکہ سیاسی تقسیم پر ہوتا ہے۔۔۔لوگوں کو نسل، مذہب، زبان اور طبقے کی بنیاد پر الگ کرنا اور "purity myths" تراشنا تاکہ یہ لگے کہ گروہ فطری طور پر جدا ہیں۔ اور نا قابل تغیر حقیقت ہیں ۔
لیکن cross-cultural محبت (مختلف نسل یا ثقافت کے لوگوں کا رشتہ) اور anti-hierarchical محبت (مختلف طبقاتی رتبے کے لوگوں کا تعلق) ان افسانوں کو توڑ دیتی ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ محبت دیواریں عبور کر سکتی ہے تو باقی دیواریں بھی گرنے لگتی ہیں۔
(یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ ہمیشہ نسل پرستی اور puritan thought پر مبنی قوم پرستی کو فروغ دیتی ہے )
ایک برہمن لڑکی اور شودر لڑکے کا رشتہ، یا زمیندار کی بیٹی کا کسان سے تعلق، اس بات کا عملی اعلان ہے کہ انسانوں کو الگ کرنے والی حدیں مصنوعی ہیں۔ یہ جذباتی رشتے نہ صرف سماجی تقسیم توڑتے ہیں بلکہ سیاسی مزاحمت کا بیج بھی بوتے ہیں۔ مثلا
پنجاب، 1940 کی دہائی: مختلف مذاہب کے نوجوانوں کے تعلقات نے فرقہ وارانہ تقسیم کو چیلنج کیا اور خاندانوں کو برطانوی بیانیے کے خلاف متحد کیا۔
جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور میں ایک گورے اور سیاہ فام کی شادی رنگ کی دیوار کے ٹوٹنے کا اعلان تھی۔یہ ذاتی محبت کے ساتھ سیاسی چیلنج بھی تھی۔
یوں، محبت اور جذبات صرف نجی تجربہ نہیں رہتے بلکہ انسدادِ نوآبادیات کا عملی ہتھیار بن جاتے ہیں۔ جہاں محبت پنپتی ہے، وہاں خوف اور محکومی کا نظام دیرپا نہیں رہ سکتا۔
اکثر دانشوران اور محققین کے مطابق انسان اپنی فطرت میں جذباتی ہستی ہے۔خواہ دانشور ہو یا عام فرد، وہ ہمیشہ اپنے تجربات، ماحول اور تعلقات کے رنگ میں دیکھتا اور سوچتا ہے۔ ہمارا علم اسی جذباتی و سماجی سانچے سے گزر کر بنتا ہے، جس پر زبان، نسل، طبقہ اور قومیت کا سایہ ہوتا ہے۔ انتونیو گرامچی کے مطابق، ہر شخص ایک "organic intellectual" ہے جس کی سوچ اس کے طبقاتی، تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے جڑی ہے۔ پیئر بوردیو کے "habitus" کے تصور کے مطابق، انسان کی عادتیں اور فیصلے اس کے ماحول و تجربات سے تشکیل پاتے ہیں، اور مکمل objectivity ممکن نہیں۔
جذبات انسان کو مکمل بناتے ہیں۔ عقل ہمیں آگے بڑھاتی ہے مگر جذبات ہمیں جوڑ کر رکھتے ہیں۔ کسی قوم یا تحریک کے جذباتی رخ کو ختم کر دینا اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہی نوآبادیاتی عقل پرستی کا مقصد تھا کہ ایسا انسان بنانا جو جذبات سے کٹا ہو اور مزاحمت کے قابل نہ رہے، جس کے لیے قانون، فائل اور سسٹم ہی دنیا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جذبات کمزوری نہیں بلکہ سب سے بڑی طاقت ہیں۔ یہ ہمیں جڑوں سے جوڑتے ہیں، مزاحمت کی توانائی دیتے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ ہم صرف مشین کے پرزے نہیں بلکہ مکمل اور آزاد انسان ہیں۔ جب محبت نوآبادکار کی بنائی مصنوعی حدوں اور دیواروں کو گراتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سب سے مضبوط نظام بھی لرزنے لگتا ہے۔