شہرت کے سوداگر ۔۔ یاسر رضا آصف

یہ پروردگار کا خاص فضل اور کرم ہے کہ ہمارا ملک علم کی دولت سے مالا مال ہے اور یہاں بہت ہی قابل لوگ موجود ہیں۔ اس بات کا ادراک مجھے حالیہ سیلابی صورتِ حال میں ہوا۔ کیسے کیسے نگینے ہیں جن کی علمی چمک سے آنکھیں خیرہ ہوئی جا رہی ہیں۔ یہاں ایسے ایسے ماہرین اور صاحبِ علم موجود ہیں جن کے آگے ارسطو اور آئن سٹائن بھی گنگ دکھائی دیتے ہیں اور افسردہ بھی ، چوں کہ انھوں نے تمام عمر ایک ہی شعبہ میں صرف کر دی۔یہاں تو ماحول ہی اور ہے۔ سیاسی معاملہ ہو ، سماجی مسئلہ ہو ، قدرتی آفت ہو ، موسمی بدلاؤ ہو ، فلسفیانہ بحث ہو، نفسیاتی موضوع ہو یا تاریخی پہلو ہو ، ہر ایک موضوع پر مسلسل اور بنا رکے بولتے چلے جانا ہی عالم و فاضل ہونے کی نشانی ہے۔ یہ لوگ ویڈیو اس دھڑلے سے بناتے ہیں کہ آپ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے ، شاید کتابوں میں غلط لکھا تھا ، یا میرا علم ناقص ہے۔
 جب تیز رفتاری سے بات کی جائے تو تلفظ اور حقائق کا گڑ بڑا جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ کون توجہ دیتا ہے انھیں تو بس دیکھنے والے ، انگوٹھے کا نشان دبانے والے اور ویڈیو کو دوسروں سے بانٹنے والے چاہئیے۔ سادہ سا فارمولا ہے جتنا نظر آؤ گے اتنا روپیہ بناؤ گے۔آج کل یہ لوگ نہری نظام کے ماہر ، ڈیموں کے راز دار اور سیلابی علاقوں کے جانکار بنے ہوئے ہیں۔ ایک سیلاب پنجاب میں آیا ہے تو دوسرا سیلاب سوشل میڈیا پر وارد ہے۔ پنجاب اس صورتِ حال سے شاید بچ جائے مگر سوشل میڈیا کے وار سے بچنا ممکن نہیں۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ اگر دو چار روز کے لیے سوشل میڈیا بند کر دیں تو سیلابی ریلا عین ممکن ہے واپس پلٹ جائے۔ یہ ماہرین گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں ابھی جنگ پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں تو کچھ دنوں بعد امن کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ابھی کھیلوں پر تبصرے داغ رہے ہیں تو کچھ روز بعد سیاست پر ویڈیو بنا رہے ہیں۔سیلاب کے متاثرین سے ہمدردی یا ان کی مدد کرنے کی بجائے یہ طبقہ صرف واویلا کرنے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ یہ سیلابی سلسلہ بھی ایک دو ماہ تک چلے گا پھر سموگ کے موضوع پر چھری کانٹے لے کر طبع آزمائی شروع کر دیں گے۔ ہماری قوم کی یادداشت ویسے بھی چند ہفتوں تک محدود ہو گئی ہے بھول جائیں گے کہ کوئی سیلاب بھی آیا تھا۔ اجتماعی یادداشت کو مٹانے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ ذہنوں کو لگاتار کسی نہ کسی الجھن میں گرفتار رکھا جائے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !