اک زمانہ تھا جب کتابیں ہماری زندگیوں کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ دیوار پر کیل گاڑ کر بنائی گئی چھوٹی سی الماری میں رکھی کتابیں، دھیرے دھیرے نسلوں کی سانجھ بن جایا کرتی تھیں۔ ننھی انگلیوں سے پکڑی گئی پہلی کتاب ہو یا جھریوں بھرے ہاتھوں سے تھامی آخری ڈائری، لکھے ہوئے لفظ کا رشتہ وقت سے نہیں بلکہ دل سے ہوتا ہے۔ آج بھی، جب ہر چیز اسکرین پر آ گئی ہے، کتاب کی خوشبو، اس کے صفحے پلٹنے کی آواز اور لفظوں کی خاموش گفتگو، سب کچھ باقی ہے۔ پڑھنا اور لکھنا صرف سیکھنے کے ذرائع نہیں، یہ ایک کیفیت ہے، ایک اندرونی تجربہ ہے جو ہمیں خود سے جوڑتا ہے۔
کتاب ہو یا رسالہ، ہر صفحہ ایک دروازہ کھولتا ہے۔ کہیں علم کی روشنی جھلکتی ہے، کہیں جذبات کا طوفان چھپا ہوتا ہے، کہیں خوابوں کے منظرنامے بُنے جاتے ہیں، کہیں ماضی کے آئینے میں حال کا عکس دکھایا جاتا ہے۔ کتابیں محض معلومات کا خزانہ نہیں، یہ دلوں کا سہارا، روحوں کا ساتھی اور تنہائیوں کا ہمراز بھی ہیں۔ کچھ لفظ ایسے ہوتے ہیں جو برسوں ساتھ رہتے ہیں، جیسے کوئی سادہ جملہ جو زندگی کی سب سے پیچیدہ الجھن سلجھا دے۔
کبھی کوئی سوانح عمری ہاتھ لگتی ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے کسی عظیم انسان کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے دکھ، فیصلے اور خواب سنے جا رہے ہوں۔ اور کبھی کوئی ناول ہاتھ لگے تو لگتا ہے جیسے ہم خود اس کے کردار بن گئے ہوں—کبھی ہنستے، کبھی روتے، کبھی کسی اجنبی شہر کی گلیوں میں خواب ڈھونڈتے۔ ادب کی یہی تو خوبی ہے، یہ ہمیں اپنا بنا لیتا ہے، ہمیں وہ بنا دیتا ہے جو ہم شاید خود کبھی نہ بن پاتے۔
رسالے بھی کم جادوگر نہیں ہوتے۔ یہ وقت کے آئینے کی طرح ہوتے ہیں—عکاسی کرتے ہیں ہماری دنیا کی، ہماری دلچسپیوں کی، ہمارے رجحانات کی۔ کسی فیشن میگزین میں صرف کپڑوں کی بات نہیں ہوتی، وہاں زمانے کے رنگ، ثقافت کے انداز، اور انسانی فطرت کی پرتیں چھپی ہوتی ہیں۔ سیاست، سائنس، کھیل، فن، ادب—یہ سب کچھ صفحوں میں بند ایک ایسا جہان ہے جو پڑھنے والے کو وقت سے آگے لے جاتا ہے۔
پڑھنا انسان کو خاموشی میں گہرائی دینا سکھاتا ہے۔ یہ عادت نہ ہو تو انسان دنیا دیکھتا ہے، مگر سمجھتا نہیں۔ الفاظ صرف معنی نہیں رکھتے، وہ احساس رکھتے ہیں، آہنگ رکھتے ہیں، اور ایک خاص جادو رکھتے ہیں جو ذہن کو جگا دیتا ہے۔ جو شخص پڑھتا ہے، وہ سیکھتا ہے، بڑھتا ہے، نیا سوچتا ہے، اور کبھی کبھی تو خود کو نیا دریافت بھی کرتا ہے۔
لکھنا بھی اسی طرح کا سفر ہے۔ خود سے خود کی طرف۔ دل میں جو کچھ بولتا ہے، قلم کے ذریعے وہ صفحے پر آتا ہے۔ کبھی نظم بنتا ہے، کبھی ڈائری کا ایک ورق، کبھی خط، اور کبھی ایک مکمل کتاب۔ لکھنا خود کلامی کا سب سے خوبصورت روپ ہے—ایسا عمل جو انسان کو اپنے وجود کی گہرائیوں سے روشناس کرواتا ہے۔
کہنے کو تو ہم ڈیجیٹل دور میں زندہ ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ لفظوں کا جادو ابھی باقی ہے۔ سکرین پر ٹپکتی روشنی لمحاتی ہو سکتی ہے، مگر ایک کتاب کی سیاہی صدیوں تک زندہ رہتی ہے۔ یہ تحریری لفظ ہی ہے جو تہذیبوں کو جوڑتا ہے، دلوں کو چُھوتا ہے، اور انسان کو انسان سے قریب لاتا ہے۔
پڑھنا اور لکھنا، گویا زندگی کی سانسیں ہیں—خاموش، مگر ضروری۔ جس طرح ہوا کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں، اسی طرح لفظوں کے بغیر سوچنا، سمجھنا اور جینا بھی ممکن نہیں۔ جو لکھا گیا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ہے۔ اور جو پڑھا جا رہا ہے، وہ کسی نہ کسی دل میں ایک نیا چراغ جلا رہا ہے۔