36 تصویروں سے دو تین تصویریں زیادہ ریل چل جاتی تو یہ پرائز بانڈ نکلنے جیسی خوشی ہوتی۔ کئی شوخے خالی کیمرے کے فلیش مار مار کر لوگوں کو خوش کیے رکھا کرتے تھے۔ جب بھی پوچھا جاتا تصویریں کب آئیں گی، بتاتے دھلنے گئی ہوئی ہیں۔ جو کبھی نہ آتی۔
36 کلکس پوری ہوتیں تو ریل دھلوانے کیلئے شہر کی تصویر ڈویلپ کرنے والی دکان کو دی جاتی۔ وہ ریل نکال کر تصویریں دھلنے کیلئے لاہور بھجواتے اور ہفتہ دس دن کا ٹائم دیتے کہ اتنے دن میں آپ کی تصویریں دھل کر آ جائیں گی۔ یہ 10،8 دن بڑی مشکل سے گزرتے کہ جلدی تصویریں ملیں اور دیکھیں کہ کیسی آئی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ اندوہناک خبر بھی ملتی کہ آپ کی سب تصویریں کالی آئی ہیں۔ تصویریں خراب ہو گئی ہیں۔ ریل کو "ہوا" لگ گئی تھی۔ یہ خبر کسی جانکاہ صدمے سے کم نہ ہوتی۔ ایسے بڑے نقصان کے خطرہ کے پیش نظر کیمرہ میں ریل ڈالنے اور نکالنے کے عمل میں بہت احتیاط برتی جاتی کہ ریل کو "ہوا یا روشنی" نہ لگ جائے۔ کیمرہ میں کسی اناڑی سے ریل ڈلوانے کا خطرہ مول نہ لیا جاتا۔ "ہوا" سے بچانے کیلئے ریل کیمرے میں ایسے چھپا کر ڈالی جاتی جیسے پولیس نظر آنے پر چرسی چرس چھپاتا ہے۔ پاؤں کے انگوٹھوں کے بیچ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ تصویریں دھلوانے کیلئے ابھی پیسے نہیں تو نیگیٹو نکلوا کر رکھ لیے جاتے۔ ان نیگیٹوز سے ہی لوگ اپنے آپ کو دیکھ کر اور پہچان کر خوش ہوتے کہ اس تصویر میں وہ میں کھڑا ہوں۔ یہ ساتھ فلاں ہے اور وہ فلاں۔
کئی بار ایسے ہوتا کہ عید شبرات پر دوست یار پیسے ملا کر ریل ڈلواتے۔ تصویریں تقسیم ہوتیں کہ فلاں کی اتنی ہیں اور فلاں کی اتنی۔ 36 کی ریل کے حساب سے جس کے جتنے پیسے ہوتے اسے اتنی ہی تصویریں بنانے کی اجازت ہوتی۔ فرض کریں 4 دوستوں کے برابر کے پیسے ہیں تو 36 کی ریل کے حساب سے سب کی برابر 9،9 تصویریں۔ یہ لاٹری جیسا ہی کھیل ہوتا کہ کس کی کتنی تصویریں صاف آتی ہیں اور کتنی خراب۔ تصویر میں منہ سیدھا آیا ہے یا ٹیڑھا یہ سب اوپر والے کے ہاتھ میں ہوتا۔ رنگ کالا آیا ہے یا سفید، اس کا انحصار قدرت کی طرف سے عطا کیے گئے رنگ کے ساتھ ساتھ ڈویلپر کے رحم و کرم پر بھی ہوتا۔ آج فلٹر لگانے کی آزادی ہر کسی کو کسی بھی وقت حاصل ہے۔ تب یہ سارا اختیار فرد واحد کے ہاتھ میں ہوتا۔
یہ دکھ بھی بڑا دکھ ہوتا کہ آپ نے باقیوں کی تصویریں اچھی بنائی ہیں۔ تصویر بناتے وقت تمام آداب کا خیال رکھا۔ لیکن جس نے آپ کی تصویریں بنائی وہ اناڑی تھا آپ کی کوئی ایک تصویر بھی اچھی نہیں بنائی اس نے۔ حالانکہ تصویریں دھل کر آنے کے بعد دوسروں کا بھی آپ کے بارے یہی خیال ہوتا جو آپ ان کے بارے سوچ رہے ہوتے۔
ایک دوست کسی عید پر مجھ سے کیمرہ ادھار لے کر گیا۔ میں نے کہا جب تصویریں دھلواو تو مجھے بھی دکھانا کیسا رزلٹ آیا ہے۔ دیکھا تو 36 کی 36 تصویریں ایک ہی جگہ پر کھینچی ہوئی ہیں۔ پیچھے منجی (چارپائی) کھڑی کر کے اس پر پھولدار چادر اوڑھائی ہوئی ہے۔ ہر تصویر میں بندے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن پیچھے منجی اور رنگین چادر وہی۔ کیا سادہ اور مزے کے وقت ہوا کرتے تھے۔ بڑی کوک ہم بچے پیسے ملا کر لیا کرتے تھے۔ برابر تقسیم ہوتی۔ کوک کی بوتل ہم بچوں کی بڑی عیاشی اور لگژری آئٹم ہوا کرتی تھی۔ جس گھر میں مہمان کو کوک پیپسی منگوا کر پلائی جاتی عموما امیر گھر سمجھا جاتا تھا۔ جہاں شکنجبین بنتی یا جام شیریں بنا کر پلایا جاتا مہمان ذرا کم ویلیو والا ہوتا یا میزبان گھر کچھ کمزور مالی حیثیت والا۔ ہم دوستوں کی کچھ تصویریں ایسی بھی ہیں جن میں کوک کی ڈیڑھ لیٹر بوتل کو بطور خاص ساتھ رکھنے کا اہتمام کیا گیا کہ تصویر میں بوتل بھی آئے۔
موبائل کیمرے سے مفت میں 20 تصویریں بنا کر ان میں سے بمشکل ایک اچھی کا انتخاب کر کے اور اس پر بھی 10 فلٹر لگا کر فیس بک پر چڑھانے والے ناشکرے لوگو، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرو تم اس دور میں پیدا نہیں ہوئے۔ جتنے تم بیوٹی کانشیئس ہو، تب ہوتے تو شاید کسی کو "منہ" تک دکھانے کے قابل نہ ہوتے۔
