رِیل کیمرہ اور جین۔زی۔۔ طاہر چودھری

پرانے زمانے میں ریل والا کیمرہ ہوتا تھا۔ ایک ریل میں غالبا 36 تصویریں بنانے کی گنجائش ہوا کرتی تھی۔ ماموں پاکستان آئے تو پوچھا کیا لاؤں۔ میں نے کہا کیمرہ۔ یوں شاید دوست بچوں میں میں اکیلا تھا جس کے پاس کیمرہ ہو۔ یہ کونیکا تھا۔ کیمرہ عموما صرف شادی بیاہ پر ہی استعمال ہوتا۔ ریل ڈلوائی جاتی اور ایک ایک تصویر بڑی سوچ سمجھ کر کھینچی جاتی کہ ریل ضائع نہ ہو۔ ساتھ ساتھ حساب بھی رکھا جاتا کہ اب باقی 30 رہ گئی ہیں۔ اب باقی 24 رہ گئی ہیں۔ یہ ایک الگ ہی ٹینشن ہوتی کہ فنکشن کتنا باقی رہ گیا ہے اور تصویریں کتنی۔ کس کس موقع اور کس کس بندے کی کب کب تصویر بنانی ہے اس طرح کہ فنکشن بھی پورا ہو، بندے بھی سب پورے ہوں اور ریل بھی اسی حساب سے ختم ہو بڑی سائنس ہوتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک پلیٹ سالن سے تین روٹیاں کھانی ہیں تو ایسا تناسب رکھا جائے کہ روٹیاں اور سالن ایک ساتھ ہی ختم ہوں۔ یہ نہ ہو کہ بھر بھر کے کھاؤ اور ایک روٹی کے ساتھ ہی سالن ختم اور پھر منہ دیکھتے رہو۔ یہ بڑا مہارت والا کام ہے۔ اور شاید یہ وہ واحد کام ہے جس میں ہم تقریبا ساری قوم ماہر ہیں۔ تہوار کے موقع پر ریل کا حساب رکھنا بھی بڑا مہارت کا کام ہوتا۔ کیمرہ کسی جذباتی یا لاابالی بندے کا کام نہ سمجھا جاتا کہ ایویں پنجی منٹی ریل مکا کے پراں مارے۔ یہ کرکٹ ریویو لینے جیسا فیصلہ ہوتا۔ بڑا سوچ سمجھ کر کہ اب تصویر کھینچنی ہے یا نہیں۔ بنانے کا فیصلہ ہوتا تو سب پر ہو کا عالم طاری ہوتا۔ سانس روک کر کھڑے ہیں۔ کیمرہ مین کے بھی وکھرے ہی پوز ہوتے۔ ٹانگیں ٹیڑھی میڑھی کر کے، آدھا اٹھا آدھا بیٹھا، ککڑ سا بنا جیسے امریکا سے تصویر بنانے کا کورس کر کے آیا ہو۔
36 تصویروں سے دو تین تصویریں زیادہ ریل چل جاتی تو یہ پرائز بانڈ نکلنے جیسی خوشی ہوتی۔ کئی شوخے خالی کیمرے کے فلیش مار مار کر لوگوں کو خوش کیے رکھا کرتے تھے۔ جب بھی پوچھا جاتا تصویریں کب آئیں گی، بتاتے دھلنے گئی ہوئی ہیں۔ جو کبھی نہ آتی۔
36 کلکس پوری ہوتیں تو ریل دھلوانے کیلئے شہر کی تصویر ڈویلپ کرنے والی دکان کو دی جاتی۔ وہ ریل نکال کر تصویریں دھلنے کیلئے لاہور بھجواتے اور ہفتہ دس دن کا ٹائم دیتے کہ اتنے دن میں آپ کی تصویریں دھل کر آ جائیں گی۔ یہ 10،8 دن بڑی مشکل سے گزرتے کہ جلدی تصویریں ملیں اور دیکھیں کہ کیسی آئی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ اندوہناک خبر بھی ملتی کہ آپ کی سب تصویریں کالی آئی ہیں۔ تصویریں خراب ہو گئی ہیں۔ ریل کو "ہوا" لگ گئی تھی۔ یہ خبر کسی جانکاہ صدمے سے کم نہ ہوتی۔ ایسے بڑے نقصان کے خطرہ کے پیش نظر کیمرہ میں ریل ڈالنے اور نکالنے کے عمل میں بہت احتیاط برتی جاتی کہ ریل کو "ہوا یا روشنی" نہ لگ جائے۔ کیمرہ میں کسی اناڑی سے ریل ڈلوانے کا خطرہ مول نہ لیا جاتا۔ "ہوا" سے بچانے کیلئے ریل کیمرے میں ایسے چھپا کر ڈالی جاتی جیسے پولیس نظر آنے پر چرسی چرس چھپاتا ہے۔ پاؤں کے انگوٹھوں کے بیچ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ تصویریں دھلوانے کیلئے ابھی پیسے نہیں تو نیگیٹو نکلوا کر رکھ لیے جاتے۔ ان نیگیٹوز سے ہی لوگ اپنے آپ کو دیکھ کر اور پہچان کر خوش ہوتے کہ اس تصویر میں وہ میں کھڑا ہوں۔ یہ ساتھ فلاں ہے اور وہ فلاں۔
کئی بار ایسے ہوتا کہ عید شبرات پر دوست یار پیسے ملا کر ریل ڈلواتے۔ تصویریں تقسیم ہوتیں کہ فلاں کی اتنی ہیں اور فلاں کی اتنی۔ 36 کی ریل کے حساب سے جس کے جتنے پیسے ہوتے اسے اتنی ہی تصویریں بنانے کی اجازت ہوتی۔ فرض کریں 4 دوستوں کے برابر کے پیسے ہیں تو 36 کی ریل کے حساب سے سب کی برابر 9،9 تصویریں۔ یہ لاٹری جیسا ہی کھیل ہوتا کہ کس کی کتنی تصویریں صاف آتی ہیں اور کتنی خراب۔ تصویر میں منہ سیدھا آیا ہے یا ٹیڑھا یہ سب اوپر والے کے ہاتھ میں ہوتا۔ رنگ کالا آیا ہے یا سفید، اس کا انحصار قدرت کی طرف سے عطا کیے گئے رنگ کے ساتھ ساتھ ڈویلپر کے رحم و کرم پر بھی ہوتا۔ آج فلٹر لگانے کی آزادی ہر کسی کو کسی بھی وقت حاصل ہے۔ تب یہ سارا اختیار فرد واحد کے ہاتھ میں ہوتا۔
یہ دکھ بھی بڑا دکھ ہوتا کہ آپ نے باقیوں کی تصویریں اچھی بنائی ہیں۔ تصویر بناتے وقت تمام آداب کا خیال رکھا۔ لیکن جس نے آپ کی تصویریں بنائی وہ اناڑی تھا آپ کی کوئی ایک تصویر بھی اچھی نہیں بنائی اس نے۔ حالانکہ تصویریں دھل کر آنے کے بعد دوسروں کا بھی آپ کے بارے یہی خیال ہوتا جو آپ ان کے بارے سوچ رہے ہوتے۔
ایک دوست کسی عید پر مجھ سے کیمرہ ادھار لے کر گیا۔ میں نے کہا جب تصویریں دھلواو تو مجھے بھی دکھانا کیسا رزلٹ آیا ہے۔ دیکھا تو 36 کی 36 تصویریں ایک ہی جگہ پر کھینچی ہوئی ہیں۔ پیچھے منجی (چارپائی) کھڑی کر کے اس پر پھولدار چادر اوڑھائی ہوئی ہے۔ ہر تصویر میں بندے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن پیچھے منجی اور رنگین چادر وہی۔ کیا سادہ اور مزے کے وقت ہوا کرتے تھے۔ بڑی کوک ہم بچے پیسے ملا کر لیا کرتے تھے۔ برابر تقسیم ہوتی۔ کوک کی بوتل ہم بچوں کی بڑی عیاشی اور لگژری آئٹم ہوا کرتی تھی۔ جس گھر میں مہمان کو کوک پیپسی منگوا کر پلائی جاتی عموما امیر گھر سمجھا جاتا تھا۔ جہاں شکنجبین بنتی یا جام شیریں بنا کر پلایا جاتا مہمان ذرا کم ویلیو والا ہوتا یا میزبان گھر کچھ کمزور مالی حیثیت والا۔ ہم دوستوں کی کچھ تصویریں ایسی بھی ہیں جن میں کوک کی ڈیڑھ لیٹر بوتل کو بطور خاص ساتھ رکھنے کا اہتمام کیا گیا کہ تصویر میں بوتل بھی آئے۔
موبائل کیمرے سے مفت میں 20 تصویریں بنا کر ان میں سے بمشکل ایک اچھی کا انتخاب کر کے اور اس پر بھی 10 فلٹر لگا کر فیس بک پر چڑھانے والے ناشکرے لوگو، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرو تم اس دور میں پیدا نہیں ہوئے۔ جتنے تم بیوٹی کانشیئس ہو، تب ہوتے تو شاید کسی کو "منہ" تک دکھانے کے قابل نہ ہوتے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !