لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔ نمرہ چودھری

 یہ تحریر ہر اُس نوجوان، ہر اُس عورت، اور ہر اُس فرد کے لیے ہے جو سماجی دباؤ کے بوجھ تلے اپنی حقیقت بھول چکا ہے۔ آئیں، ہم سب مل کر ایک ایسا معاشرہ بنائیں جہاں انسان کو انسان سمجھا جائے — آزاد، باعزت، اور بااختیار۔

  *ہم کب تک "لوگ کیا کہیں گے" سے بندھے رہیں گے؟* 

یہ چھوٹا سا فقرہ، جو روزمرہ کی گفتگو میں ہم سنتے اور بولتے ہیں، دراصل انسانی خوشیوں کا قاتل ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک ایسی ذہنی قید میں جکڑا ہوا ہے جس کا نام ہے: "لوگ کیا کہیں گے؟"
یہ ایک ایسا فقرہ ہے جو نہ صرف ہمارے فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ ہماری اصل شناخت اور خوشیوں کو بھی دھندلا دیتا ہے۔
بچپن سے لے کر جوانی تک، ہر قدم پر یہ جملہ ہمیں روک دیتا ہے:
کپڑے ایسے نہ پہنو، لوگ کیا کہیں گے...
اس سے شادی نہ کرو، خاندان کیا کہے گا...
یہ کام نہ کرو، معاشرہ کیا سوچے گا...

ایسا لگتا ہے جیسے ہماری زندگی ہماری نہیں، بلکہ لوگوں کی ہے۔
ہم خود سے سوال کرنے لگتے ہیں کہ کیا ہماری اپنی کوئی شناخت نہیں؟
کیا ہم صرف دوسروں کی خوشنودی کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟
کیا ہماری خوشی، ہمارا سکون، ہماری مرضی کی کوئی قیمت ہی نہیں؟

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کو اتنا پیچھے دھکیل دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی خواہشات، خواب، اور مقصد بھی یاد نہیں رہتے۔
ہماری سوچ، ہمارا انداز، حتیٰ کہ ہمارے جذبات بھی معاشرے کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں۔

یہ کہنا کہ "ہماری عزت کا سوال ہے" صرف تب درست ہے جب ہم اپنی عزت کو خود پہچانیں۔
کیا عزت واقعی اتنی چھوٹی سی چیز ہے جو کسی کے کہہ دینے سے چھن جائے؟
کیا خود پر یقین کرنا بے ادبی ہے؟
کیا اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کی خواہش گناہ ہے؟
اگر ہم اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنی خوشیوں کو دبا دیں صرف لوگوں کی رائے کے خوف سے،
تو پھر ہم جیتے ہوئے لوگ نہیں، صرف سانس لینے والی مجبوریاں ہیں۔
آخر کب تک ہم دوسروں کے معیار پر خود کو تولتے رہیں گے؟
کیا ہماری اپنی کوئی زندگی نہیں؟
کیا ہم صرف دوسروں کو خوش کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟
 *اشفاق احمد* لکھتے ہیں:
 *"ہم اتنی زندگی دوسروں کے لیے جیتے ہیں کہ جب اپنا وقت آتا ہے تو ہمیں اپنی مرضی کا جینا ہی نہیں آتا۔"*
ہماری خوشی، ہمارا سکون، اور ہمارا جینا — یہ سب ہماری ذمہ داری ہے۔
ہمیں خود کو Own کرنا سیکھنا ہوگا۔
اپنی پہچان، اپنی آواز، اور اپنی مرضی سے جینے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔
 ہمیں لوگوں کی باتوں سے فرق نہیں پڑنا چاہیے ، کیونکہ لوگ تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔ لوگ آپ سے کبھی خوش نہیں ہوتے 
اگر تم دوسروں کی نظروں میں اچھے بننے کے چکر میں خود کو کھو دو گے، تو آخر میں نہ تم اپنے رہو گے نہ دوسروں کے۔"
بقول اشفاق احمد 
"لوگوں کی سوچ تمہارے بارے میں تمہیں اتنا پریشان نہیں کرتی جتنا تمہارا اس پر یقین کرنا کرتا ہے۔"

اپنی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہمیں خود ہونا چاہیے ۔
کیونکہ زندگی ایک بار ملتی ہے، اور یہ اتنی قیمتی ہے کہ اسے صرف "لوگوں کی باتوں" پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔
لوگ کیا کہیں گے یہ انکا مسئلہ ہے ہمارا نہیں ۔۔۔۔۔
ایک واقعہ یاد آتا ہے جب مشہور *ادیب* *خلیل جبران* سے کسی نے پوچھا:
 *"لوگ کیا کہیں گے؟"* 
تو انہوں نے جواب دیا:
"جب تم مرتے ہو تو لوگ ایک دن افسوس کرتے ہیں، اور اگلے دن تمہیں بھول جاتے ہیں۔ تو پھر اپنی زندگی دوسروں کے لیے کیوں ضائع کرتے ہو؟"

ہم دوسروں کی مرضی سے زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں، اور اسی کو عزت کہتے ہیں۔
یہ عزت نہیں، غلامی ہے — جو مجھے منظور نہیں۔
مجھے کٹے ہوئے پر نہیں چاہییں!
مجھے وہ پر چاہییں جو مجھے آسمان چھونے دیں، اپنی مرضی سے اڑنے دیں۔

میں کسی ایسی زندگی کی قائل نہیں جو صرف دوسروں کے طے کردہ اصولوں پر چلے۔
جہاں ہر سانس سے پہلے یہ سوچنا پڑے کہ "اجازت ہے یا نہیں؟"
ایسی زندگی نہ خواب دیکھنے دیتی ہے، نہ ان خوابوں کو جینے کا موقع۔

میری خودداری کسی کی منظوری کی محتاج نہیں۔
جو زندگی دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی ذات کو قربان کر دے، وہ زندگی نہیں، بس زنجیروں میں لپٹا ہوا وقت ہے۔

کب تک ہم "دوسروں کے خیال" سے ڈرتے رہیں گے؟
کب تک ہم اپنی آواز کو خاموش رکھیں گے؟

میں اپنی بیٹیوں، بہنوں اور آنے والی نسل کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں:
تمہاری مرضی سب سے بڑی طاقت ہے۔
تمہاری خودی سب سے بڑی عزت ہے۔
اور تمہارا انکار سب سے بڑی آزادی ہے۔

 *You were not born to follow their rules.*
 *You were born to write your own.*


#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !