اے سمندر! کبھی کنارہ بن
اپنی مرضی کی شکل دے خود کو
خود کو سارا مٹا ، دوبارہ بن
اتنی خاموشیوں سے بہتر ہے
کوئی معنی بھرا اشارہ بن
بادلوں سے اتر، زمیں پر آ
آبِ استادہ ! تیز دھارا بن
صبح تک خوب جگمگا ناصر
رات کا آخری ستارہ بن
شاعر ( نصیر احمد ناصر)
" بشکریہ ایف جی منوالہ گرلز اسکول ( کراچی کینٹ)"
زندگی مسلسل سیکھتے رہنے کا نام ہے جو انسان یہ سمجھ لے کہ میں سیکھ چکا ہوں گویا وہاں اسکی Learning رک جاتی ہے ۔
7 اکتوبر( 2024) سے 11 اکتوبر( 2024) تک کراچی ریجن میں غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مختلف کھیلوں کے مقابلے بھی ترتیب پائے گئے ۔ یہ مقابلے ریجنل لیول پر تھے جن میں کراچی ' حیدرآباد اور پنو عاقل کینٹ سمیت تمام ایف جی کے ادارے شامل ہیں بشمول Air base اسکول کے۔ ریجنل ڈائریکٹر کرنل وسیم شکور صاحب کے حکم کے مطابق اور ساتھ میں G1 سید وقاص حسین شاہ صاحب کی نگرانی میں انتظام ہوئے ۔۔
ہماری رہائش کا انتظام قابلِ احترام پرنسپل میم عظمیٰ بتول کے اسکول یعنی منوالا ایف جی پبلک گرلز اسکول میں تھا جن میں سر ایوب میمن صاحب کا بھی تعاون رہا ۔۔
بہرحال ایف جی پبلک منوالہ گرلز اسکول (کراچی کینٹ) میں انتہائی پر تپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا گیا اور ساتھ میں رات کے کھانے کا بھی پر تکلف انتظام کیا گیا گو کہ ہمیں رات کے 9 بج گئے اتنی تاخیر سے پہنچے تھے۔ اس وقت بھی ریجنل ڈائریکٹر کرنل وسیم شکور صاحب اور G1 لیفٹننٹ کرنل وقاص حسین شاہ صاحب ہمارے منتظر تھے جنہوں یقیناً ہم سے پہلے حیدرآباد کینٹ والوں کو بھی خوش آمدید کیا ہوگا پھر پنو عاقل کینٹ کے تمام بچوں سے ملاقات کی اسٹاف سے حال احوال کیا جس سے یہ ظاہر تھا ایف جی آئز اپنے اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کو دل سے سراہتا ہے اور کراچی ریجن جیسے اقدامات قابلِ تحسین تھے ۔
پرنسپل میم عظمیٰ بتول سمیت تمام اسٹاف بہت تعاون کرنے والا تھا سبھی نے دل سے خوش آمدید کہا اور ایک ہفتہ کس طرح سے گزرا یہ پتا ہی نہیں چلا ۔ ہمیں آرام دہ رہائش گاہ مہیا کی گئی بے حد خیال رکھا گیا کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتی بلا جھجک ہم مدد لے رہے تھے ۔ کہا جاتا ہے خواتین بہت جلد اکتا جاتی ہیں ویسے بھی یہ سچ ہے کہ مہمان اور مچھلی تین دن سے زائد رہیں تو دل متلا جاتا ہے لیکن بھئی یہاں تو پورا ہفتہ رہنے کے باوجود آخری دن تک پہلے دن جیسا متاثرکن لہجہ رہا مجھے تو روحانی مسکن محسوس ہو رہا تھا جہاں شفاف دل بستے ہیں ۔
یہ سچ ہے کہ اداروں میں اختلاف ' تضاد ' ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوتی رہتی ہے اور جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں انسان نہیں بستے ہوں گے۔ یہی تو حسن ہے اختلاف انسان کو مزید تخلیقی بناتا ہے لیکن متحد ہوکر ادارے کو بہتر بنانا بطور میزبان چہرے پر مسکراہٹ سجا کر پیش پیش ہونا بڑے دل گردے کا کام ہے جو کہ سراہے جانے کے قابل ہے ۔
کراچی شہر اور روحانی تعلق دو متضاد الفاظ ہی ہوسکتے کیونکہ کراچی کی زندگی بہت منطقی اور تیز رفتار ہے لیکن آپ جیسے ہی منوالہ اسکول میں قدم رکھتے ہیں ایسا لگتا ہے گویا کسی اہم شخصیت بزرگ ہستی و مجذوب انسان کا سایہ ہے جو روح تک کو سرشار کرتا ہے حالانکہ اداروں میں ایسا مشکل ہوتا ہے ادارے کبھی بھی ولی بزرگ کا مزار نہیں بنتے تاہم کام کرنے والوں کا خلوص ادارے سے پیار ہی خاص مقام دیتا ہے جس سے روح سرشار ہوتی ہے گویا دل کسی دیرینہ تخیل میں سے آزاد ہو چکا ہو ۔
میں مس غلام صغریٰ مس ثمانہ صاحبہ کی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے ہر لمحہ ہمارا خیال رکھا اور کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی۔
انسان یادیں لے کر چلتا ہے اور یادیں چھوڑ کر جاتا ہے پھر وہ ساری عمر یادیں سینت سینت کر رکھتا بھی ہے اور جیتا بھی ہے اور مسکراتا بھی ہے ۔
میں بحیثیت مہمان اپنے میزبان اسکول کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہمیں پر آسائش رہائش کے ساتھ ساتھ مثبت طرزِ عمل سے ہماری سوچ کو وسعت بخشی کہ ان پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے مشکل کام کسی دوسرے ادارے کی تعریف کرنا ہے یا شاید ہمارا شعور ابھی ارتقائی مراحل میں ہے اور ہماری انا تعریف کرنے میں بڑی رُکاوٹ ہوتی ہے ۔ سچ پوچھیں تو کچھ امیج ہماری روایات میں شمار ہو گئے ہیں حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے نظریات مختلف ہوسکتے ہیں زندگی کا رخ بدل سکتا ہے ہم خواتین ( اوہ معزرت ہم ساری عمر لڑکیوں میں شمار ہوتی ہیں اور بیشک سال بدلیں مگر ہم بڑی نہیں ہوتی ہیں سدا بہار رہتی ہیں ۔۔ مسکراہٹ 🤩)
بے حد creative ہوتی ہیں رکھ رکھاؤ ہوتا ہے ادارے کو گھر کی طرح سجاتی ہیں اپنا سوفیصد دینے کی کوشش میں ہوتی ہیں باقی باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ۔۔!!
میں ہمیشہ جہاں جاؤں کچھ نئی چیزیں سیکھ کر آتی ہوں تاہم میں نے منوالہ اسکول سے چہرے پر مسکراہٹ سجا سجا کر خوش آمدید کہنا سیکھا اچھی مینجمنٹ سیکھی اور تو آور میں نے وہاں کی خوبصورت و جواں آیا سرتاج صاحبہ سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی care, کرنا دیکھ بھال کرنا سیکھا ۔ وہ ایسا کردار تھیں جن میں بیحد ترتیب تھی ادارے کے لیے خود کو وقف کیا ہؤا ہے ۔۔
کسی کا قول ہے
"بڑا انسان وہ نہیں ہوتا جس کی محفل میں ہم خود کو چھوٹا محسوس کریں بلکہ بڑا انسان وہ ہے جس کے ادارے میں ہر ایک خود کو بڑا ہی سمجھے" ہم بھی خود کو بڑا ہی سمجھتے رہے اور سفر میں قلم کی نوک سے شہد ٹپکا رہے ہیں ۔۔🤩
حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ "نگاہ بدل جائے سے منظر بدل جاتا ہے" ۔ اچھے ادارے میں چند دن رہنے سے بھی انسان اچھا رخ دیکھنے لگتا ہے ۔ اگر ہمارا رخ مثبت ہو جائے تو ہر انسان ہر لمحہ ہمارے لئے نئے دریچے کھولتا ہے جہاں سے انسان کی بے نیازی کا سفر شروع ہوتا ہے پھر انسان مٹی سے تخلیق ہو کر بھی کندن بنتا ہے اور کندن بننا کیا ہے ؟؟ یہ آپ سب نئے لوگوں کو منوالہ کی تاریخ پڑھ کر ہی محسوس ہو سکتا ہے یا پھر انکے اسکول میں داخل ہوکر احساس ہوگا لیکن یہ سب محسوس کرنے کے لیے دل کی آنکھ کا ہونا شرط ہے ۔
میں ایک بار پھر ریجنل ڈائریکٹر کرنل وسیم شکور صاحب G1 لیفٹیننٹ وقاص حسین شاہ صاحب' سینیر پرنسپل سر ایوب میمن صاحب ' پرنسپل میم عظمیٰ بتول صاحبہ وائس پرنسپل میم آصفہ و تمام ٹیچنگ و نان ٹیچنگ اسٹاف کی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے ہمیں وہاں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقعہ دیا ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں ہم نے ہر event میں کوئی نہ کوئی پوزیشن لی ہے اور کھیلوں میں بھی نمایاں کامیابی ملی ہے لیکن آخر میں انسان سب بھول جاتا ہے صرف رویے یاد رکھتا ہے اور اچھے رویے زندگی کو رنگین بناتے ہیں انسان انعام میں ملی ہوئی شیلڈ بھول سکتا ہے مگر دیا ہوا پر خلوص ردعمل کبھی نہیں بھولتا ۔ معاشرے میں ہمیں مفید لوگوں کی ضرورت ہے جو مفید ہے وہی اصل کامیاب ہے باقی کامیابیاں محض معاشرے کے لیے ہوتی ہیں جہاں ذاتی صفت میں انقلاب آئے وہیں سے علم شمع روشن ہوتی ہے اور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح کی خودی کا فلسفہ سمجھ آتا ہے جو خودی ہمیں خالق سے جوڑتی ہے ۔۔
میں شکر گزار ہوں کہ طلباء و طالبات کو پنو عاقل کینٹ کے مخصوص دائرے سے نکال کر روشنیوں کے شہر میں بہترین رہائش گاہ دے کر یہ ثابت کیا کہ اصل تعلیم ہی بہترین رویوں سے زندگی کا رخ بدلنا ہے ۔۔
آپ سب کے لیے بہت ساری دعائیں اور عقیدت
سلامت رہیں ۔۔