شہری ، دیہاتی کی مصنوعی تقسیم۔ سائرہ رباب

Sarkar Publishers
شہری ، دیہاتی کی مصنوعی  تقسیم اور اسکا حل دانشوروں کی نظر میں 

انتہائی  اہم سوال ہے کہ جب سب گروہ ایک ہی استحصالی سسٹم کا شکار ہیں تو مختلف گروہ، جیسے دیہاتی  شہری، کسان  اور مزدور، کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مسئلہ منفرد اور مخصوص ہے، اور یہ "فرگمنٹیشن" کیسے پیدا کی جاتی ہے تاکہ ان میں یکجہتی نہ ہو اور وہ اپنے مشترکہ مسائل کو نہ سمجھیں۔ اس کی وضاحت کے لیے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ گروہ کس طرح مختلف طریقوں سے تقسیم کیے جاتے ہیں اور انہیں اپنے مسائل کی گہرائی تک نہیں پہنچنے دیا جاتا۔

 تقسیم کا سیاسی حربہ (Divide and Rule)

پاؤلو فرائری کا کہنا ہے کہ طاقتور نظام دانستہ طور پر حقیقت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ مجموعی تصویر (big picture) نہ سمجھ سکیں۔ مسائل کو علاقائی، نسلی، یا طبقاتی بنیادوں پر چھوٹے چھوٹے دائرے میں قید کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ ان مسائل کے پیچھے موجود بڑے نظامی استحصال کو نہ سمجھ سکیں۔ کارپوریٹ ادارے اور حکومتیں جان بوجھ کر ان مختلف گروپوں کو اس طرح تقسیم کرتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کو نہیں سمجھ پاتے۔ ان گروپوں میں فرق ڈالنے کے لیے سیاسی حکمت عملی کے طور پر "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔  
    
مثال کے طور پر، کسانوں کو صرف اپنی زمین یا فصلوں کی قیمتوں کے حوالے سے مسائل دکھائے جاتے ہیں  اور شہریوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے مسائل، جیسے مہنگائی، اجرت کی کمی یا معیشت کی صورتحال، ان کے ذاتی مسائل ہیں اور یہ ان کے شہر یا طبقے سے مخصوص ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے نہیں دیا جاتا کہ کسانوں اور دیگر مزدوروں یا صارفین  کا استحصال بھی اس نظام کا حصہ ہے اور وہ سب ایک ہی کارپوریٹ استحصال کے شکار ہیں۔

شہری اور پینڈو میں تفریق 
میڈیا اور سیاسی ڈسکورس مختلف سطحوں پر دیہی اور شہری علاقوں میں تفریق پیدا کرتے ہیں ۔جیسے سیاسی اور سماجی نظام مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے خاص طور پر "پینڈو" اور "شہری" کی تقسیم تشکیل دیتا ہے۔
اربنائزیشن، یعنی شہریت کی طرف منتقلی، ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے دیہاتوں کو جان بوجھ کر "پسماندہ" اور شہروں کو "ترقی یافتہ" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف شہروں اور دیہاتوں کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے بلکہ دیہاتی زندگی کو کمتر بنا کر گاؤں کو شہروں کے تابع بناتا ہے۔ معروف دانشوران جیسے ایڈورڈ سعید، ڈیوڈ ہاروی، اور ایمانوئل والرشتائن اس عمل کو نوآبادیاتی سوچ کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں دیہات کو کولونائز کرنے کا مقصد دیہات کے وسائل  زراعت، پانی، اور زمین  پر قبضہ کرنے کے لیے دیہات کو "پسماندہ" قرار دے کر انہیں شہری مراکز کا محتاج بنانا ہے ۔

ایڈورڈ سعید کے مطابق، نوآبادیاتی سوچ میں دیہات کو "دوسرا" (the Other) قرار دے کر انہیں شہروں کی ثقافتی، سیاسی اور معاشی برتری کے نیچے رکھا جاتا ہے۔ گاؤں کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی روایات اور معیشت پر فخر کرنے کے بجائے شہر کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں۔ اس سے دیہی باشندوں کی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے اور وہ شہروں پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔
شہری علاقوں کو ترقی، تہذیب، اور جدیدیت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ دیہات کو دقیانوسی، روایتی، اور پسماندہ دکھایا جاتا ہے۔ ایمانوئل والرشتائن کا کہنا ہے کہ یہ تفریق سرمایہ داری کے اس نظام کا حصہ ہے، جس میں دیہات کو سستے مزدور فراہم کرنے والے علاقوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے افراد کو معاشی دباؤ میں لا کر شہروں میں مزدوری کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، جس سے شہری معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے اور دیہاتی علاقوں کی ترقی رک جاتی ہے۔ میڈیا اور تعلیمی نظام کے ذریعے شہروں کو مواقع اور آسائش کی جگہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے دیہاتی افراد اپنی زمین اور ثقافت چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

شہری کا استحصال 
شہری ثقافت کو "ماڈرن" اور دیہی ثقافت کو  بیک ورڈ " کہہ کر ایک ایسی تفریق پیدا کی جاتی ہے جو دیہاتوں کو ہمیشہ کمتر رکھتی ہے۔لیکن یہ تصور کہ شہری زندگی مکمل طور پر آزاد اور ترقی یافتہ ہے، ایک فریب ہے۔ حقیقت میں، اربنائزیشن نہ صرف دیہاتی بلکہ شہری باشندوں کو بھی نوآبادیاتی طرز پر قابو میں رکھتی ہے۔ شہریوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ انہیں ترقی، مواقع، اور آسائشیں مل رہی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ بھی ایک سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کا شکار ہیں۔

ڈیوڈ ہاروی، ایڈورڈ سعید، اور ہنری لیفویبر جیسے دانشوروں نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ شہری زندگی خود بھی سرمایہ داری کے جبر کا مرکز ہے، جہاں فائدہ صرف ایک چھوٹے طبقے یعنی سرمایہ داروں کو پہنچتا ہے، جبکہ عام شہری صرف ایک نوآبادیاتی مزدور یا صارف کے طور پر کام کرتا ہے۔۔معاشی نوآبادیاتی نظام شہریوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ دیہاتی باشندوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی کی بنیاد بھی قرضوں، مہنگائی، اور غیر مستحکم ملازمتوں پر ٹکی ہوتی ہے ۔

ڈیوڈ ہاروی کے مطابق، سرمایہ دارانہ نظام شہری علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے معاشی دباؤ اور استحصال کی پالیسیاں نافذ کرتا ہے، جن میں بلند کرائے، رہائش کی قیمتیں، اور نجکاری شامل ہیں۔ شہری باشندے اپنے ہی علاقوں میں بظاہر آزاد ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ کارپوریٹ نظام کے مکمل ماتحت ہوتے ہیں۔ہنری لیفویبر نے کہا کہ شہر کی زندگی کو "آسائش" کے پردے میں "کنٹرول" کیا جاتا ہے۔ شہر کے بنیادی وسائل جیسے پانی، بجلی، اور زمین پر صرف اشرافیہ کا قبضہ ہوتا ہے، جبکہ عام شہری انہیں حاصل کرنے کے لیے اپنی ساری زندگی صرف کر دیتا ہے۔
مثال کے طور پر نیویارک یا لندن جیسے ترقی یافتہ شہروں میں بھی عام شہری افراد کرایہ دینے، ملازمت بچانے، اور قرض اتارنے کی جدوجہد میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان شہروں کاامیج ایسا بنایا جاتا ہے کہ جیسے وہاں زندگی سہل اور آرام دہ ہو۔ اور پھر وہاں کے اکثر لوگ اپنی آبائی جگہوں اور کلچر  سے ہجرت کر کے شہر میں بستے ہیں تو وجودی تنہائی اور شناختی بحران کا شکار بھی رہتے ہیں ۔ شہر کی زندگی مصنوعی ضروریات اور کنزمپشن کی ضرورت کو جنم دیتی ہے ۔

طبقاتی تضاد کا فروغ
شہری زندگی میں عام شہری اور اشرافیہ کے درمیان ایک گہری تفریق ہوتی ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام اس تضاد کو چھپانے کے لیے شہریوں کو دیہاتیوں کے مقابلے میں بہتر پیش کرتا ہے۔شہریوں کو جدید سہولیات جیسے شاپنگ مالز، بڑے دفاتر، یا برانڈز کے ذریعے یہ دکھایا جاتا ہے کہ وہ ترقی یافتہ ہیں، حالانکہ یہ تمام سہولیات انہیں مزید صارف بننے پر مجبور کرتی ہیں۔

شہری بھی مزدور ہیں
شہری مزدور، خواہ وہ سفید کالر ہوں یا نیلے کالر، دراصل وہی کردار ادا کرتے ہیں جو دیہاتی مزدور کھیتوں یا زمینوں پر ادا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ شہری مزدور کو ایک "عزت دار" تصویر دی جاتی ہے، لیکن ان کی محنت کا استحصال بھی سرمایہ دارانہ نظام ایسے ہی کرتا ہے جیسے ایک دیہی کسان کا  ۔۔
شہری اور دیہاتی دونوں نوآبادیاتی سوچ کے ماتحت ہیں، لیکن سرمایہ دارانہ نظام شہری زندگی کو ایک مثالی شکل میں پیش کرتا ہے تاکہ یہ حقیقت چھپائی جا سکے کہ شہری بھی اسی نظام کا شکار ہیں۔ دونوں طبقات کو ایک دوسرے سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی مشترکہ مشکلات کو نہ سمجھ سکیں۔ جیسا کہ پاؤلو فرائری نے کہا:

"لوگوں کو حقیقت کے ٹکڑے دکھا کر انہیں اس قابل نہیں رہنے دیا جاتا کہ وہ نظام کی مجموعی استحصالی تصویر دیکھ سکیں۔"

میڈیا کا کردار 

اروندھتی رائے نے اپنی تحریروں اور انٹرویوز میں بارہا ذکر کیا ہے کہ ریاست اور میڈیا عوام کو مختلف بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے بیانیے تشکیل دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں:
"جب حکومت ناکام ہو رہی ہو، تو وہ عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ہے تاکہ وہ اصل مسائل پر سوال نہ کریں۔"
پاکستان میں بھی یہ مسئلہ واضح ہے۔ مختلف صوبوں اور قومیتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے معاملات کو اکثر میڈیا اور سیاست دان اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ عوام کے درمیان فرقہ واریت اور بداعتمادی بڑھ جائے۔ مثلاً:

"شہری وسائل کھا گئے" یا "فلاں صوبہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے" جیسے بیانیے۔
مختلف لسانی گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں۔

دیہی اور شہری تقسیم:
میڈیا دیہی علاقوں کے مسائل کو شہریوں کے مسائل سے الگ اور بعض اوقات متصادم بنا کر پیش کرتا ہے، جیسے:

"دیہاتوں کے وسائل شہری علاقوں کو لے جا رہے ہیں۔"

"شہری ٹیکس دیتے ہیں اور دیہاتوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔"

یہ بیانیہ دونوں طبقات کو ایک دوسرے کے مسائل سے لاتعلق کر دیتا ہے۔سیاست دان اپنے مفادات کے لیے عوام کے مسائل کو علاقائی، نسلی، یا طبقاتی تقسیم میں بانٹتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کسانوں کی تحریک کو "صرف کسانوں کا مسئلہ" کہہ کر محدود کر دیا جاتا ہے، جبکہ یہ معاشی نظام کی ایک بڑی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے جو تمام طبقات پر اثر انداز ہوتا۔

وسائل کی تقسیم 
میڈیا اور سیاستدان بعض اوقات کسی ایک صوبے کو "وسائل ہڑپ کرنے والا" قرار دے کر دوسرے علاقوں کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ "پنجاب وسائل کھا گیا" یا "کراچی والے دیگر علاقوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔" یہ بیانیہ صوبائی اور لسانی منافرت کو ہوا دیتا ہے، جبکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم درحقیقت نظامی مسئلہ ہے۔

نوم چومسکی نے وسائل کی تقسیم میں  میڈیا کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:

میڈیا اور سیاسی قیادت اکثر "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے اصول کے تحت کام کرتی ہے۔وہ گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے ایک مشترکہ دشمن یا مسئلہ کی تعمیر کرتے ہیں۔
چومسکی کے مطابق، عوام کو حقیقی طاقتوروں (کارپوریٹ، اشرافیہ) سے بے خبر رکھنے کے لیے مصنوعی اختلافات پیدا کیے جاتے ہیں۔ مثلا 
وسائل کے استعمال پر مختلف علاقوں یا قومیتوں کے درمیان بحث کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم میں تمام سیاسی اشرافیہ شامل ہوتی ہے، نہ کہ ایک مخصوص طبقہ یا صوبہ۔اشرافیہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ثقافتی، لسانی، اور علاقائی بنیادوں پر عوام کو تقسیم کرتی ہے۔ سیاستدان اور میڈیا اس تقسیم کو تقویت دینے کے لیے ایسی کہانیاں تخلیق کرتے ہیں جن سے ایک گروہ دوسرے کو نقصان دہ یا ظالم سمجھنے لگے۔ مثلا 
پاکستان یا بھارت میں سیاستدان اکثر لسانی یا نسلی اختلافات کو بڑھا کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں، جیسے "بنگالیوں نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا" یا "مہاجر اور سندھی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ سکھ اور مسلمان دشمن ہیں وغیرہ ۔ 

معروف دانشور اقبال احمد نے کہا کہ 
"طاقتور لوگ ہمیشہ عوام کو تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ منظم نہ ہو سکیں اور استحصال کے خلاف کھڑے نہ ہوں۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ سیاسی اشرافیہ اور سامراجی طاقتیں "وسائل کے جھگڑوں" کو بڑھاوا دے کر عوام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ جیسے بلوچستان یا سندھ میں یہ احساس پیدا کرنا کہ وسائل کا استحصال دیگر علاقوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، حالانکہ استحصال پورے نظام کی ناکامی ہے۔ اسکی سٹرکچرل وجوہات ہیں ۔ وسائل کی تقسیم وہی گروہ کرتا ہے جو وسائل پر قابض ہے  اور لڑاتا بھی وہی ہے ۔

گرامچی  کی تھیوری کے مطابق
ثقافتی بالادستی" (Cultural Hegemony) کے تحت حکومت یا اشرافیہ میڈیا اور سیاست کے ذریعے عوام کو مختلف صوبوں یا گروپوں میں تقسیم کرتی ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں اور حقیقی مسئلے (جیسے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم) پر بات نہ کریں۔
جب کہا جاتا ہے کہ "پنجاب وسائل کھا گیا" یا "کراچی والے دیگر علاقوں کو نظرانداز کرتے ہیں"، تو یہ بیانیہ طاقتور طبقے کے مفاد میں ہوتا ہے، کیونکہ اس سے مختلف گروہ آپس میں لڑتے ہیں اور اصل مسئلہ (جو کہ غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم ہے) پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
منافع بخش تقسیم: اس تقسیم کا مقصد عوام کو مشترکہ مسائل پر نہیں، بلکہ صوبوں یا گروہوں کے درمیان لڑائی پر مرکوز کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح اشرافیہ اپنی حکمرانی کو مستحکم رکھتی ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو کمزور کر دیتی ہے۔
گرامچی  کا نظریہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ میڈیا اور سیاستدان طاقتور طبقات کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک خاص بیانیہ تخلیق کرتے ہیں، جس سے عوام ایک دوسرے کے خلاف لڑتے ہیں اور اصل مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں

بعض اوقات سماجی، ثقافتی یا نسلی فرق بھی اس تفریق کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مختلف گروپوں کو ان کی زبان، مذہب یا ثقافتی پس منظر کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنے مشترکہ مفادات کے بجائے اپنی انفرادیت پر زیادہ فوکس کریں۔  سامراجی قوتیں یا تو انفرادی شناخت کو مٹا کر خود میں ضم کر لیتی ہیں یا ایسی انفرادی ، گروہی یا قومی شناختوں کو ابھارتی ہیں جن کی بنیاد تعصب اور نفرت پر ہو۔جو بڑے مشترکہ مفادات ، اجتمائی مقاصد اور بڑے اتحاد کی جانب جانے سے يكسر قاصر ہو ۔ ٹکڑوں fragments کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے بنسبت ایک بڑی اجتماعیت کے ۔۔
     
 یہ فرق نہ صرف کسانوں اور شہریوں میں بلکہ مختلف نسلی یا ثقافتی گروپوں میں بھی پیدا کیا جا سکتا ہے، تاکہ ان کے درمیان یکجہتی کی بجائے رقابت یا اختلافات بڑھیں
اور جیسا کہ پاؤلو فرائرے  نے کہا، لوگوں کو ان کی اپنی چھوٹی حقیقت میں محدود کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر بڑے نظام کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں۔
 لوگوں کو اپنی حقیقت کو ٹکڑوں میں دیکھنے کے بجائے مکمل تصویر دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ وہ ان تمام نظامی عوامل کو سمجھ سکیں جو انہیں تقسیم اور استحصال کر رہے ہیں

فرائرے  کے مطابق، لوگوں کو انفرادی مسائل کے بجائے مشترکہ جدوجہد کے لیے شعور پیدا کرنا ہوگا۔ جب تک لوگ حقیقت کے ان ٹکڑوں کو جوڑ کر مکمل تصویر نہیں دیکھیں گے، وہ اپنے حقیقی استحصال کو نہیں سمجھ پائیں گے۔
سیاسی، ثقافتی، اور اقتصادی تقسیم کا یہ نظام اسی وقت ٹوٹے گا جب مختلف گروہ اپنے مسائل کی جڑ کو ایک دوسرے کے مسائل سے جوڑ کر دیکھیں گے۔ کسان، مزدور، شہری، اور دیہی طبقہ اس وقت تک حقیقی تبدیلی نہیں لا سکتا جب تک وہ سمجھ نہ لیں کہ ان کے مسائل مصنوعی طور پر الگ دکھائے جا رہے ہیں۔ ان کی حقیقتوں کو مشترکہ بنیادوں پر دیکھنا اور ان کے مسائل کوبڑے نظام کے تناظر میں سمجھنا ہی ان کے لیے آزادی کا راستہ ہے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !