جب نصیر صاحب کی شاعری پڑھی تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے رازوں اور احساسات کا کوئی شریکِ حال ہے۔ ان کے اشعار میری ذات کی حقیقتوں، پوشیدہ رازوں اور اندرونی گہرائیوں کا عکس معلوم ہوئے۔ ایسا لگا جیسے میں اپنی ذات کا سفر کر رہی ہوں، خود کو دریافت کر رہی ہوں، اور ان کی شاعری میری رہنمائی کر رہی ہے۔
ان کی نظموں میں خوابوں کی نرمی، تنہائی کی گہری بازگشت، اداسی کی خاموش چاپ، اور انتظار کی نہ ختم ہونے والی تڑپ بار بار جھلکتی ہے۔ سفر کی تھکن، شکستہ روح، اور تھکے وجود کے باوجود ان کے لفظوں میں عزم کی روشنی، خوابوں پر اٹوٹ یقین، اور وقت کو شکست دینے کی لگن ایک گہری تاثیر چھوڑ جاتی ہے۔
اگر کوئی اچانک روشنی کر دے
تو کیا تم دیکھ پاؤ گے
ابد کی دھند میں لپٹی
ازل سے منتظر
آنکھیں کسی کی ؟؟
میری آنکھوں کے رستوں میں
نہ جانے کون سے لمبے سفر کی دھول اڑتی ہے
مجھے کس دیس کی مٹی بلاتی ہے ؟؟
درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی
جاگتی آنکھوں میں خوابوں کی تھکن باقی رہی
جدائی راستوں اور موسموں کے ساتھ چلتی ہے
اداسی آسمانوں کی طرح ہر سمت ہوتی ہے
ان کی شاعری وجودی تنہائی، محبت کی پیچیدگیوں، اور خوابوں کی لافانیت پر مبنی ہے۔ وہ وقت، فاصلوں، اور محدودیت کے تصورات کو شکست دیتے ہوئے انسانی روح کی عظمت کا گیت گاتے ہیں۔ مایوسی اور بے بسی کے باوجود، ان کے کلام میں امید کا چراغ روشن رہتا ہے، جو قاری کو حوصلہ اور روشنی عطا کرتا ہے۔
سو جاؤ ، سو جاؤ!
اے گلِ شب سو جاؤ!!
رات طویل ہے
ہمارے انتظار سے بھی طویل
جب ہم طلوع ہوں گے،
کائنات کے کسی دور دراز حصے میں
خدا تنہائی کی آخری حد سے گزر رہا ہو گا
اور میں تمہیں
خواب کے دروازے پر
اسی طرح جاگتا ہوا ملوں گا!
میں خوابوں کے اشجار بناؤں گا
تیرے بدن کی مٹی سے
پھول اگانے آؤں گا
نصیر احمد ناصر کی شاعری میں نوآبادیاتی جبر، جنگوں کے اثرات، اور تیسری دنیا کے انسان کی نفسیاتی و سماجی اذیتوں کا ذکر نمایاں ہے۔ وہ نوآبادیاتی نظام کے تحت پسے ہوئے انسانوں کی حالتِ زار کو نہایت حساسیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جہاں طاقتور عالمی قوتوں کی استحصالی پالیسیاں انسانوں کی روحانی، نفسیاتی، اور جسمانی زندگی کو متاثر کرتی ہیں.
ان کی شاعری عالمی اور مقامی سطح پر موجود انسانی جدوجہد کو یکجا کرتی ہے، جہاں گلوبل (عالمی) اور یونیورسل (کائناتی) مسائل آپس میں جڑتے ہیں۔ وہ نہ صرف دیہی اور شہری زندگی کے تصادم کو محسوس کرتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانی تہذیب کی ترقی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو بھی موضوع بناتے ہیں۔ ان کے کلام میں استعاروں کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی ہتھیاروں کی دوڑ، اور انسانیت کی گرتی ہوئی اقدار کی تصویر کشی کی گئی ہے، جو قاری کو اپنے عہد کی پیچیدگیوں اور ذمہ داریوں سے روشناس کراتی ہے۔
نصیر احمد ناصر کی شاعری میں مادیت کے غلبے اور مشینی زندگی کے مضر اثرات کا گہرا نوحہ ملتا ہے۔ وہ عصری دور کے انسان کی جذباتی بے حسی اور تنہائی کو نہایت دلگیر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں موجود شخصیت ایکایسے وجود کی عکاسی کرتی ہے جو جدوجہد اور شکست کے باوجود خوابوں اور امید کا دامن نہیں چھوڑتا۔ خواب ان کے ہاں دائمی اور ناقابل شکست ہیں، جو زندگی کے تمام دکھوں پر غالب آتے ہیں۔
زمین ماں ہے ، زمیں کا خواب تھا لیکن
زمیں زادوں کی آنکھوں میں
فلک بوسی کا سپنا ہے جسے تعبیر ہونا ہے
یہاں اب پارک کے بدلے پلازا اک نیا تعمیر ہونا ہے
زمیں مجبور ہے
دکھ سے مجھے کٹتے ہوئے چپ چاپ تکتی ہے
انسان صدیوں کے تصادم سے گزر کر
اجنبی خطوں میں خوش حالی کے پیچھے بھاگتے ہیں
تیسرے درجے کے شہری ہیں
مگر خوش ہیں
جسم زندہ ہیں مگر روح مر چکی ہے
چاہتیں مشروط ہیں زر سے
زوال زیست کے اثار پختہ ہیں
محبت اب بڑا کمزور رشتہ ہے
وہ فطرت کے زوال، دیہی زندگی کے مٹتے ہوئے آثار، اور شہری تہذیب کے حملے کو انتہائی کرب اور حساسیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں انسانی جذبات، فطرت، اور ترقی کے مابین تصادم کا المیہ واضح نظر آتا ہے۔ دیہی زندگی کے حوالے سے ان کے کلام میں گاؤں کا nostalgia موجود ہے، جو قاری کو ایک گہری حسرت سے روشناس کراتا ہے۔
بہت دور گاؤں ہے میرا
جہاں میرے بچپن کے جگنو
ابھی تک گھنے پیپلوں پر چمکتے ہیں
جہاں میری پہلی محبت کی پرچھائیاں ہیں
اداسی میں ڈوبے ہوئے راستے
کھیت ، اسکول ، جوہڑ ، درختوں کے جھرمٹ،
پراسرار تنہائیاں ہیں
یقین کرو
مفلسی کے دنوں میں
محبت زیادہ آسودہ ہوتی ہے
اور سیاحوں سے بھرے ہوئے شہر
اندر سے اتنے بے آباد ہوتے ہیں
کہ تم اپنی ویرانیاں بھول جاؤ
نصیر احمد ناصر کی شاعری میں Metaphysical Poets کی گہری جھلک محسوس ہوتی ہے، جہاں مختلف زبانیں ، علوم، فلسفے، سائنس، انجینئرنگ، اور ٹیکنالوجی کے تصورات شاعری کے تخلیقی اظہار میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ اور نیے اور انوکھے استعارے سامنے آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں پیچیدہ سائنسی و فلسفیانہ خیالات، انسانی احساسات اور روحانی کیفیات کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک نئی معنویت پیدا کرتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت ان کی شاعری کو گہرائی اور وسعت عطا کرتی ہے، جہاں جذبات اور عقل، مادی اور روحانی، اور جدید و قدیم عناصر ایک خوبصورت ہم آہنگی میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ امتزاج ان کے کلام کو نہ صرف فکری سطح پر متحرک بناتا ہے بلکہ قاری کو احساس کی گہرائیوں تک لے جاتا ہے۔
اگر میں تمہارے ساتھ چل سکتا
تو راستہ کبھی ختم نہ ہوتا
یہاں تک کہ
وقت اپنے پھٹے پرانے جوگرز پہنے
کسی زنگ آلودہ فولادی بینچ پر
تھک کر بیٹھ جاتا!
تم گھونٹ گھونٹ کافی پینا
میں دھواں دھواں مہکتے لفظ لکھوں گا
جب ہم اٹھیں گے
ریستوران نظموں سے بھر چکا ہو گا!!
نصیر احمد ناصر کی شاعری صرف احساسات کا اظہار نہیں بلکہ ایک تخلیقی تجربہ ہے جو قاری کے ذہن اور دل پر دیرپا اثر چھوڑتا ہے۔ ان کا کلام ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنے وقت، اپنی دنیا، اور اپنی ذات کے کئی پہلو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی شاعری، اپنے تمام تر فلسفیانہ گہرائی، جمالیاتی نزاکت، اور انسانی جذبات کی شدت کے ساتھ، اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
کچھ دن قبل جب میرے پسندیدہ شاعرکی دو کتب " پانی میں گم خواب "اور "عرابچی سو گیا ہے"، ان کے آٹوگراف کے ساتھ موصول ہوئیں تو یہ لمحہ میرے لیے بے حد خاص تھا، اور میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میں تہہ دل سے ناصر صاحب کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی محبت سے مجھے نوازا۔ ان کی تخلیقات میرے دل کے قریب ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔♥️♥️♥️