پنڈت بالک رام شاستری کی بیوی، مایا کو ایک ہار کی تمنا بہت عرصے سے تھی، اور وہ سینکڑوں بار پنڈت جی سے اس کا تقاضا کر چکی تھیں؛ مگر پنڈت جی ہمیشہ حیلے بہانے کرتے رہتے تھے۔ وہ صاف صاف یہ نہ کہتے کہ "میرے پاس روپے نہیں ہیں،" کیونکہ اس سے ان کی شوہری وقار پر حرف آتا۔ اس کے بجائے، وہ دلیلوں کی پناہ لیا کرتے تھے کہ زیور ایک روگ ہے۔ ایک تو دھات خالص نہیں ملتی، اس پر سنار روپے کے آٹھ آنے کر دیتا ہے، اور سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ گھر میں زیور رکھنا چوروں کو بیعانہ دینا ہے۔ ایک لمحے کی آرائش کے لیے اتنا درد سر خریدنا جاہلوں کا کام ہے۔ بیچاری مایا، جو منطق نہ پڑھی تھیں، ان اعتراضوں کے سامنے لاجواب ہو جاتیں۔ پڑوسنوں کے زیور دیکھ دیکھ کر ان کا جی للچایا کرتا تھا، مگر اپنا قصۂ غم کس سے کہتیں؟ اگر پنڈت جی ذرا جفاکش ہوتے تو یہ مشکل آسان ہو جاتی، پر وہ آلسی آدمی تھے۔ وقت کا بیشتر حصہ کھانے اور سونے میں صرف کرتے تھے۔ بیوی کے طعنے منظور تھے، اقرباء سے آنکھیں چرانی منظور تھیں، مگر نیند کی مقدار میں کمی غیر ممکن تھی۔
ایک دن پنڈت جی پاٹھ شالہ سے آئے تو دیکھا کہ مایا کے گلے میں سونے کا ایک ہار براج ہے۔ ہار کی چمک سے ان کے چہرے پر ایک عجیب رونق آ گئی تھی۔ پنڈت جی نے پوچھا، "یہ ہار کس کا ہے؟"
مایا: "پڑوسن میں جو بابو جی رہتے ہیں، انہی کی اہلیہ کا ہے۔ آج ان سے ملنے گئی تھی، یہ ہار دیکھا تو بہت پسند آیا۔ تمہیں دکھانے کے لیے پہن کر چلی آئی۔ بس ایسا ہی ایک ہار مجھے بنوا دو۔"
پنڈت جی نے کہا، "غیر کی چیز ناحق مانگ لائیں۔ کہیں گم ہو جائے تو تاوان تو دینا ہی پڑے گا، بدنامی اوپر سے ہوگی۔"
مایا نے کہا، "میں تو ایسا ہی ہار لوں گی۔ 20 تولے کا تو ہے۔"
پنڈت جی نے کہا، "پھر وہی ضد!"
مایا نے پوچھا، "جب سبھی پہنتی ہیں تو میں کیوں نہ پہنوں؟"
پنڈت جی بولے، "سب کنویں میں گر پڑیں تو تم بھی گر پڑو گی؟ اس ہار کے بنوانے میں 600 روپے لگیں گے۔ اگر ایک روپیہ سینکڑہ بھی سود رکھ لیا جائے تو پانچ سال میں 600 روپے کے ایک ہزار ہو جائیں گے، لیکن پانچ برس میں ہار مشکل سے 300 روپے کا رہ جائے گا۔ اتنا بڑا نقصان اٹھا کر ہار پہننے میں کیا مزہ ہے؟ یہ ہار واپس کر دو۔ کھانا کھاؤ اور آرام سے لیٹو۔"
یہ کہتے ہوئے پنڈت جی باہر چلے گئے۔
رات کو یکایک مایا نے شور مچا کر کہا، "چور! چور! گھر میں چور، مجھے گھسیٹے لیے جاتا ہے۔"
پنڈت جی ہکا بکا ہو کر اٹھے اور بولے، "کہاں؟ کہاں؟ دوڑو! دوڑو! چور! چور!"
مایا نے کہا، "میری کوٹھری میں گیا ہے۔ میں نے اس کی پرچھائیں دیکھی ہیں۔"
پنڈت جی: "لالٹین جلاؤ۔ ذرا میری لکڑی بھی اٹھاتی لانا۔"
مایا: "مجھے تو ڈر لگتا ہے۔"
کئی آدمی باہر سے بولے، "کہاں ہے پنڈت جی؟ کوئی سیندھ پڑی ہے، کیا ہے؟"
مایا: "نہیں، سیندھ نہیں پڑی۔ کھپریل پر سے اترے ہیں۔ میری نیند کھلی تو کوئی میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔ ہائے رام! یہ تو ہار ہی لے گیا۔ پہنے پہنے سو گئی تھی، موئے نے گردن سے نکال لیا۔ ہائے رام!"
پنڈت جی نے پوچھا، "تم نے ہار اتار کیوں نہ دیا تھا؟"
مایا: "میں کیا جانتی تھی کہ آج ہی یہ غضب پڑے گا؟ ہائے رام! اب کسے منہ دکھاؤں گی!"
پنڈت جی: "اب ہائے ہائے کرنے سے کیا ہو گا؟ اپنی تقدیر کو روؤ۔ اسی لیے کہا کرتا تھا کہ سب دن برابر نہیں جاتے۔ نہ جانے کب کیا ہو جائے۔ اب آئی سمجھ میں میری بات؟ یا اب بھی شبہ ہے؟ دیکھ لو اور کچھ تو نہیں لے گیا؟"
پڑوسی لالٹین لے کر آ پہنچے۔ گھر کا کونا کونا دیکھا، کڑیاں دیکھیں، اگواڑا پچھواڑا دیکھا، جائے ضرور میں جھانکا، کہیں چور کا پتا نہ تھا۔
ایک پڑوسی نے کہا، "کسی گھر کے بھیدیئے کا کام ہے!"
دوسرے نے کہا، "بنا گھر کے بھیدیئے کے کبھی چوری ہوتی ہی نہیں۔ اور کچھ تو نہیں لے گیا؟"
مایا: "اور کچھ تو نہیں لے گیا۔ برتن سب پڑے ہیں۔ صندوق بھی بند ہے۔ نگوڑے کو لے ہی جانا تھا تو میری چیز لے جاتا، پرائی چیز ٹھہری۔ اب کیسے کیا ہو گا بھگوان!"
پنڈت جی: "گہنے کا مزہ مل گیا نا؟"
مایا: "ہائے رام! یہ اتنا بڑا نقصان اور بدنامی اور تم چلے پر نمک چھڑکتے ہو۔ ابھاگے میرے گھر کا ایک ایک تنکا چن لیتے تو مجھے رنج نہ ہوتا۔ ابھی بیچاری نے نیا ہار بنوایا تھا۔"
پنڈت جی: "خوب! معلوم ہے 20 تولے کا تھا؟"
مایا نے کہا، "وہ 20 تولے ہی کا تو کہتی تھیں۔"
پنڈت جی: "بدھیا بیٹھ گئی اور کیا؟"
مایا: "کہہ دوں گی گھر میں چوری ہو گئی۔ کیا جان لیں گے؟ اب ان کے لیے کوئی چوری تھوڑے ہی کرنے جائے گا؟"
پنڈت جی: "تمہارے گھر سے چیز گئی، تمہیں دینی پڑے گی۔ انہیں اس سے کیا مطلب کہ چور اٹھا لے گئے یا تم نے رکھ لیا۔"
مایا: "تو اتنے روپے کہاں سے آئیں گے؟ ہانڈی بھر ہوتے ہوں گے۔"
پنڈت جی: "کہیں نہ کہیں سے تو آئیں گے ہی۔ نہیں تو لاج کیسے رہے گی، مگر تم نے کی بہت بڑی غلطی۔"
مایا: "میرے سر شیطان سوار تھا۔ نہیں تو گھڑی بھر گلے میں ڈال لینے سے ایسا کون سا سکھ مل گیا۔ میں ہوں ہی ابھاگنی۔"
پنڈت جی: "اب پچھتانے اور اپنے کو کوسنے سے کیا فائدہ؟ چپ ہو کے بیٹھو۔ پڑوسن سے کہہ دینا گھبراؤ نہیں۔ تمہاری چیز جب تک لوٹا نہ دیں گے، ہمیں چین نہ آئے گا۔"
پنڈت بالک رام کو اب شب و روز ہار کی فکر ستانے لگی۔ یوں اگر ٹاٹ الٹ دیتے تو کوئی بات نہ تھی۔ پڑوسن کو صبر کرنے کے سوا اور چارہ ہی کیا ہوتا۔ براہمن سے تاوان کون لیتا؛ لیکن پنڈت جی برہمنی کی شان کو اتنے سستے داموں نہ بیچنا چاہتے تھے۔ ان کی آرام طلبی غائب ہو گئی، فکر زر میں منہمک ہو گئے۔
چھ مہینے تک انہوں نے اپنے اوپر خواب و خور حرام کر لیا۔ پہلے پاٹھ شالہ سے آ کر آرام کرتے تھے۔ براہمنوں کے لیے آمدنی کے جو ایک سو ایک دروازے کھلے ہوئے ہیں، ان میں سے وہ کسی کی طرف رخ نہ کرتے تھے۔ پر اب پاٹھ شالہ سے آ کر ایک جگہ بھگوت کی کتھا کہنے جاتے، وہاں سے لوٹ کر گیارہ بجے رات تک بیٹھے زائچے، برس پھل وغیرہ بنایا کرتے۔ علی الصبح مندر میں درگا پاٹھ کرنے جاتے۔ مایا ان کی یہ مصروفیت دیکھ کر دل میں پچھتائیں کہ میں نے کہاں سے کہاں یہ چال چلی۔ کہیں بیمار پڑ جائیں تو لینے کے دینے پڑیں۔ ان کے جسم کو لاغر ہوتے دیکھ کر انہیں اب ان کی صحت کی فکر ہونے لگی۔ اسی طرح پانچ مہینے گزر گئے۔
ایک دن شام کو وہ چراغ بتی کرنے جا رہی تھیں کہ پنڈت جی آئے۔ جیب سے ایک کیس نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا اور بولے، "لو، آج تمہارے قرض سے سبکدوش ہو گیا۔"
مایا نے کیس کھولا تو اس میں سونے کا ہار تھا۔ اس کی چمک دمک، وضع قطع دیکھ کر ان کے دل میں گدگدی ہونے لگی۔ چہرے پر مسرت کی سرخی دوڑ گئی۔ خائف نظروں سے دیکھ کر بولیں، "خوش ہو کر دے رہے ہو یا ناراض ہو کر؟"
پنڈت جی نے کہا، "اس سے کیا مطلب؟ قرض تو چکانا ہی پڑے گا، خوشی سے ہو یا ناخوشی سے۔"
مایا: "یہ قرض نہیں ہے۔"
پنڈت جی: "اور کیا ہے؟ بدلہ سہی۔"
مایا: "بدلہ بھی نہیں ہے۔"
پنڈت جی نے پوچھا، "پھر کیا ہے؟"
مایا نے کہا، "تمہاری نشانی۔"
پنڈت جی نے پوچھا، "تو کیا قرض ادا کرنے کے لیے دوسرا ہار بنوانا پڑے گا؟"
مایا نے کہا، "نہیں جی۔ وہ ہار چوری نہیں ہو گیا تھا۔ میں نے جھوٹ موٹ شور مچایا تھا۔"
پنڈت جی نے حیرانی سے کہا، "سچ؟"
مایا نے کہا، "ہاں، سچ کہتی ہوں۔"
پنڈت جی نے پوچھا، "میری قسم؟"
مایا نے کہا، "تمہارے چرن چھو کر کہتی ہوں۔"
پنڈت جی نے کہا، "تو تم نے مجھے چکمہ دیا؟"
مایا نے اقرار کیا، "ہاں۔"
پنڈت جی نے مسکراتے ہوئے کہا، "خیر۔ کسی طرح تمہاری مراد تو بر آئی، مگر ایشور کے لیے پھر ایسا 'چکمہ' نہ دینا۔"