جزیرۂ بے نام۔۔ مریم ثمر

طاہر کمال اطاعت کی قیمت ادا کر رہا تھا ۔ 
اس کے کمرے میں ہر چیز خاموش تھی۔ کھڑکی کے باہر سمندر چیخ رہا تھا، مگر اندر ہر شے جیسے سانس لینا بھول گئی ہو۔ کمرے کی دیوار پر نمی کا ایک دھبہ پھیلتے پھیلتے اب انسانی چہرے جیسا دکھائی دیتا تھا۔ وہ چہرہ اس کی اپنی روح کا عکس معلوم ہوتا بھیگا، بکھرا اور بےنام۔کمرہ تاریک تھا۔ کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی لیکن طاہر کے اندر جو سناٹا تھا، وہ اس ہوا سے بھی زیادہ بےرحم تھا۔ کمرے کے کونے میں ایک خالی پلیٹ رکھی تھی۔ طاہر نے اس کی طرف دیکھا اور دل میں سوچا
"آج وہ پلیٹ مجھ سے زیادہ بھوکی ہے۔" 
وہ پلیٹ کئی دن سے چپ چاپ اسے گھورتی تھی۔ اب لگتا تھا جیسے وہ بھی شکایت کر رہی ہو "کیا زندگی کا رزق فقط سچ بولنے والوں سے چھین لیا جاتا ہے؟"ہم جنہیں خاموشی سکھائی گئی تھی، جب بولے تو لاوارث قرار دے دیے گئے۔ 
وہ مذہبی نظام کا فدائی سپاہی تھا جس نے اپنا وقت، اپنا جذبہ، اور اپنی امیدیں وقف کیں ۔ جس کا دعویٰ تھا کہ "خدمتِ دین" اس کی روح ہے۔ وہ جلسوں کا انتظام کرتا، چندہ اکٹھا کرتا، نعرے لگواتا، سکیورٹی پر کھڑا رہتا۔ مگر اب اسے یوں لگ رہا تھا کہ خدمت دین کے نام پر انسانیت کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ 
اس وقت جب کبھی پوچھا جاتا "تمہیں کیا ملتا ہے؟" تو وہ مسکرا کر کہتا
"آخرت… اور روحانی سکون۔"
لیکن پھر ملک میں حالات بگڑنے لگے۔ طاہر کے خلاف دھمکیاں بڑھنے لگیں۔ وہ ایک "مشکوک آواز" بن چکا تھا شاید اس لیے کہ اُس نے کچھ سوالات کیے تھے۔ سوال جیسے "ہم جن کے لیے سب کچھ قربان کرتے ہیں، وہ کب ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے؟"
 طاہر نے تنظیم سے رابطہ کیا۔ اسے کہا گیا "اگر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ خاموشی میں عافیت ہے۔ ہم سب کچھ سنبھال لیں گے۔"
اور وہ نکل آیا۔ لوگوں کو تسلی دیتا "خدا تمہاری فریاد ضرور سنے گا۔" مگر جب ایک دن خود اس کی فریاد بلند ہوئی، تو سب دروازے بند ہو گئے۔
طاہر کئی ہفتوں سے اس جزیرے پر تھا ''مڈگاسکر''
 جو کبھی بچوں کے جغرافیہ کے نقشوں میں ایک عجیب سی دُم والا جزیرہ لگتا تھا، اب اس کی واحد پناہ گاہ بن چکا تھا۔ نہ زبان اپنی، نہ زمین، نہ مانوس چہرے۔ بس ایک اکیلا پن، ایک غیر یقینی سایہ، اور زندگی کی جدوجہد۔
ہم جنہوں نے اطاعت کو عبادت سمجھا، بس بھروسہ کر بیٹھے اور سزا میں تنہا رہ گئے۔ وہ شام کچھ زیادہ سرد تھی۔ مگر طاہر کے دل میں جو سنّاٹا تھا، وہ سردی سے زیادہ کاٹ دار تھا۔ اس کی جیب میں ایک خالی کاغذ تھا ایک اور جگہ سے انکار، ایک اور جاب جو نہ مل سکی۔
کئی دنوں سے وہ ایک معمولی سی نوکری کی تلاش میں پھر رہا تھا کوئی مزدوری، کوئی دفتر ، کچھ بھی۔ مگر جزیرے پر وہ ایک “پناہ گزین” تھا اور پناہ گزین کے لیے صرف ترس ہوتا ہے، روزگار نہیں۔
 اسے لگتا تھا جیسے وہ اب ایک بین الاقوامی بھکاری بن چکا ہے۔ اسے کبھی سچ بولنے پر سزا نہیں ملی کیونکہ وہ سچ بول ہی نہ سکا۔ نہ بغاوت کی، نہ اطاعت سے انکار کیا۔ بس ایک بار اعتماد کیا ان لوگوں پر جنہوں نے ہمیشہ "اطاعت فرض ہے" کہا تھا۔
ہجرت شوق نہیں مجبوری تھی دوسری طرف منزل کا وعدہ تھا"ایک پرامن ملک" لیکن وہ لایا گیا مڈگاسکر ایک اجنبی، غیر واضح، اور نیم ترک شدہ جزیرہ۔ 
 اور تنظیم؟ جس کا وہ اب بھی رکن تھا وہ صرف جلسے منعقد کر رہی تھی خدمت کی کامیابیوں کے چرچے، چندہ مہمات، اور روحانی دعوے۔
ایک شام، کمرے میں چند مہاجرین کے ساتھ بیٹھا وہ تنظیم کا ایک ویڈیو خطاب دیکھ رہا تھا۔ ایک عالی شان اسٹیج، چمکتی روشنیوں میں جانے پہچانے چہرے ، نعرے، اور مہنگے کیمروں کے بیچ روحانی پیشوا کا خطاب
"خدا کے فضل سے ہم نے ملین ڈالرز کا چندہ اکٹھا کیا ہے۔ نئی مساجد، عظیم الشان اجتماعات، اور عالمی سطح کی خدمت کے نئے باب رقم کیے ہیں۔" پھر تالیاں بجیں۔ نعروں کی گونج "زندہ باد… عظیم رہنما… رہبرِ وقت!"
اسٹیج پر کھڑا وہ شخص جسے طاہر نے برسوں "پیشوا" مانا تھا آج بلٹ پروف گاڑی سے اُترا، سکیورٹی کے حصار میں، قیمتی گھڑی، شاہانہ لباس، اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ۔
 طاہر کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ "میں بھی کبھی انہی نعروں میں شامل ہوتا تھا…" اُس نے سوچا، جیسے اپنی پرانی زندگی کا جنازہ یاد آ گیا ہو۔ کمرے میں موجود مہاجرین کے چہروں پر ایک عجیب حسرت ابھری گویا انہوں نے اپنی پرچھائیاں دیکھ لی ہوں۔
ایک نوجوان بولا "کیا یہی ہے دین کی خدمت؟ جب ہم کھانے کو ترس رہے ہیں… جب دوائیاں ختم ہو رہی ہیں… جب ہم خود سے سوال کرنا بھی جرم سمجھنے لگے ہیں؟" دوسرا شخص آہستگی سے بولا: "اگر دین صرف جلسوں اور عمارتوں کا نام ہے، تو ہم کیا ہیں؟ ہم بھی اسی راہ کے مسافر تھے… آج کیوں بےنام ہو گئے؟"
طاہر خاموش رہا۔بے بسی سے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ جزیرے پر اندھیرا بڑھ چکا تھا اور ساتھ ہی اس کی امید بھی۔ "وہ جلسوں میں اقتدار پر فخر کرتے ہیں، اور ہم یہاں بھوک، بیماری اور خوف سے لرز رہے ہیں۔ کیا یہی روحانیت ہے؟ کیا یہی انصاف ہے؟" اُس نے خود سے کہا۔ اُس رات وہ چھت کو تکے جا رہا تھا۔ نیند کوسوں دور تھی۔ پلیٹ آج بھی خالی تھی۔ مگر طاہر کی آنکھیں اب اُمید سے نہیں، مایوسی سے لبریز تھیں۔
کچھ دن بعد، وہی تنظیم کے کچھ پیروکار جزیرے میں اسے ملنے آئے۔ ان میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں کہا: "تمہیں تنظیم نے منع کیا تھا، تم خودآئے ہو، اب کیا چاہتے ہو؟"
 طاہر کا رنگ اڑ گیا۔ وہ لمحہ جیسے سینے میں خنجر بن کر اتر گیا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے پرانا موبائل نکالا، وائس نوٹس کھولے، پرانی ای میلز، پیغامات، ثبوت سامنے رکھ دیے۔
"یہ دیکھو۔ مجھے جس نے جانے کا کہا، وہ خود تنظیم کا نمائندہ تھا۔ باقائدہ فارم بھرا تھا میں نے یہ سب ان کے علم میں تھا۔ مجھے وعدہ دیا گیا تھا کہ مجھے ایک پرامن جگہ بھیجا جائے گا۔ مگر مجھے اس ویران جزیرے پر چھوڑ دیا گیا۔ میرے جذبات سے کیوں کھیلا گیا؟ میں نے جرم نہیں کیا میں نے صرف بھروسہ کیا تھا۔ کیا بھروسہ کرنا گناہ ہے؟ کیا سچ بولنا بغاوت ہے؟"
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ کسی نے کچھ نہ کہا، بس نظریں چرائیں۔ طاہر کی آواز اب لرزنے لگی تھی "ہم نے صبر کیا، دعا کی، خاموشی اختیار کی… مگر اب جب فاقہ آنکھوں کے سامنے ناچتا ہے، تو صبر ایک مذاق لگتا ہے۔ ہم سے کہا جاتا ہے ‘اپنی بھوک کا خود بندوبست کرو۔’ ہم سے کہا جاتا ہے: ‘چپ رہو، تم تنظیم کو بدنام کر رہے ہو۔’ ارے! ہم نے تو تمہیں اپنی زندگی دے دی تھی تم نے ہمیں جلا وطن کر دیا۔"
اس رات طاہر نے اپنی ڈائری کا آخری صفحہ کھولا۔ آج کئی دنوں بعد قلم ہاتھ میں لیا، اور لکھا "کیا میری زندگی کا انجام اسی بےنام جزیرے پر ہوگا؟ کیا میں کبھی اپنے نام سے پکارا جاؤں گا؟ یا صرف ایک عدد، ایک فائل، ایک شرمندگی کی رپورٹ بن کر مٹ جاؤں گا؟ مجھے وعدہ دیا گیا تھا، مگر وعدہ نبھایا نہ گیا۔ میرے احساسات سے کھیلا گیا۔ مجھے پرامن ملک پہنچانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر دھوکہ ملا۔
 میرے جذبات، میری امیدیں سازش کی نذر ہو گئیں۔میں زندہ لاش بن گیا ہوں ۔ سوچیں اسے اپنے حصار میں لے رہی تھیں وہ خود سے ہمکلام ہوا
جزیرہ بےنام…شاید دنیا کے لیے کچھ نہیں،مگر میرے لئے وہ جگہ ہے
جہاں سے میں دیکھتا ہوں کہ سچ خاموش ہے، جزبہ خدمت ِ دین زندہ ہے مگر انسانیت مر چکی ہے ۔ 

Tags

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !