برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کمیلا پارکر کو ایک دوسری عورت کے طور پہ جانا پہچانا جاتا ہے۔ ایک عورت ہونے کی حیثیت سے اسی دنیا بھر کے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی نفرت بھی وافر مقدار میں ملی اور یہ نفرت اب بھی لوگوں کے دلوں میں موجود ہے حالانکہ دنیا بھر کے ان مردوں کیا یک لمبی قطار ان مردوں کی ہے جو گھر میں بیوی کے ہوتے ہوئے بہت سے یا کم از کم ایک آدھ افیئر یا معاشقہ چلا رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت سے مرد ایسے ہیں جو دوسری عورتوں کو پٹانے کیلئے اپنی بیوی کے بارے میں سچی جھوٹی' سچی یا من گھڑت کہانیاں سناتے ہیں کبھی ان کا بہانہ تنہائی ہوتی ہے کبھی اس تنہائی کی ضرورت ایک دوسری عورت ہوتی ہے اور شادی شدہ مردوں سے معاشقہ چلانے والی یہ خواتین بھی اس لسٹ میں شامل ہیں جو کمیلا پارکر سے صرف اس لئے نفرت کرتی ہیں کہ اس نے ایک شادی شدہ بچوں والی ماں کا گھر اجاڑا اور اس کے شوہر سے معاشقہ لڑایا۔
ازل سے اب تک دنیا کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ مرد چاہے جو بھی کرے کسی دوسری عورت کو حاصل کرنے کیلئے چاہے جتنے بھی پاپڑ بیلے پر اس کے افیئر یا دوسری شادی کا نزلہ سارے کا سارا ہی دوسری عورت پر گرتا ہے وہ پہلی بیوی کی بددعائیں بھی وصول کرتی ہے اور اس کے خاندان کی دھمکیاں بھی اوراگر اس کا محبوب یا شوہر پرنس چارلس ہو تو اس کے حصے میں دنیا جہاں کی نفرت آتی ہے اور اس شہزادے کے اپنے ملک کا میڈیا اس نفرت کو پروان چڑھانے کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے جس میڈیا میں قریباً ہر دوسرا تیسرا مرد خود ایسے ہی تعلقات کی زد میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی بیوی اور بچے براہ راست متاثر ہوتے ہیں مگر اس آدمی کی نظریں دوسری عورت یا دوسری عورتوں کے تعاقب میں اپنی آنکھوں سے وہ پردہ گرا نہیں پاتا وہ عینک لگانے کے باوجود ایک دوسری عینک کی ضرورت محسوس کرتا ہے جس سے وہ اپنی آنکھوں اور آنکھوں کی عینک پہ لگی ہوئی جملی کو اترتا ہوا محسوس کرے جو کبھی جسمانی کو کبھی ذہنی آسودگی کیلئے اس کی آنکھوں پر چڑھا دی جاتی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ دوسری عورت اگر کمیلا ہو تو وہ تمام تر وسائل کے باوجود کسی ذہنی امراض کے ڈاکٹرز سے رابطہ نہیں کر سکتی جو اس کے حصے میں آئی ہوئی ساری نفرت کا مداوا کرنے کیلئے اس کی مدد کر سکے کہ ایسا کرنا بھی میڈیا کی زینت بنتے ہی اس کی تکلیف کو ہزار گنا بڑھا دیتا ہے کیونکہ وہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ایسا موقع جو کوئی بھی میڈیا پوری دنیا کو بیچ کے پیسے کما سکتا ہے چاہے اس میں ایک عورت کی ذہنی اور جذباتی موت ہی کیوں نہ ہو جائے اور کمیلا بھی کئی بار مری ہوئی کئی بار اپنی ہی نظروں میں گری ہوئی اور کئی بار مر کے دوبار جنم لیا ہوگا لیکن نہ اسے لب کشائی کی اجازت ملی ہوگی نہ اس کو سچائی کی اجازت ملی ہوگی کہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کی قوت گویائی چھینی جاتی ہے کہ وہ بولیں تو مریں چپ رہیں تو بھی مریں مگر بولیں تو پوری دنیا میں اس کیلئے مسخرے موجود ہیں جو اپنے بھیانک چہروں پہ میک اپ کر کے لوگوں کو ہنسانے کیلئے ایسی عورت کا انتخاب جگتیں مارنے کیلئے کرتے ہیں اس طرح پاکستان میں ہمارے مایہ ناز لکھاری اور فلم ساز سید نور کی دوسری بیوی بھی ایسے ہی دور سے گزری ہوگی ایسی ہی تکلیف سے گزری ہوگی جہاں اسے اپنے محبوب شوہر کی دوسری بیوی بننے پہ پیسے کی جوتی یا گھر اجاڑنے والی عورت یا کھاتا پیتا مرد تاڑنے والی عورت کے طعنے ملے ہوں گے مگر پھر بھی اس نے نہ کبھی کوئی شکوہ کیا نہ شکایت کیا اور نہ ہی میڈیا کو استعمال کر کے سید نور کی پہلی بیوی اور اس کی اولاد کے سرد رویے کی خبریں دیں ہونگی بلکہ اسے جب بھی دیکھا سید نور جواں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پیرنی ہے اللہ لوک ہے سائیں ہے تو یہ بات بالکل دل کو لگتی اور سچی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ کی ولی عورت ہی شادی شدہ مرد کے ساتھ اس کی پہلی دوسری یا تیسری بیوی کے ہوتے ہوئے شادی کر کے اس کو نبھا سکتی ہے لہٰذا اس لحاظ سے کمیلا پارکر بھی اللہ کی ولی ہے کہ وہ بھی پوری دنیا کی نفرت کو اپنے محبوب اور اب محبوب شوہر کی محبت کے سہارے پہ جھیل رہی ہے برداشت کر رہی ہے کہ کبھی کبھار زمانہ وہ سچ جاننا نہیں چاہتا جو تہہ در تہہ چھپا ہوتا ہے مگر کبھی اس سچ سے پردہ نہیں اٹھایا جاتا کہ ایسا کرنے سے ولن کیلئے محبت پیدا ہوتی ہے اور ساری شادیوں میں دوسری عورت کو ہمیشہ ولن کے روپ میں ہی دکھایا جاتا ہے اور کیونکہ ایسی فلم ہی بکتی ہے چاہے وہ فلم سینما پہ چلے چاہے پرنٹ میدیا پہ لکھی جائے مال اسی سے بنتا ہے بھائی کی بیماری کی وجہ سے جس فلم میں مجھے ولن بنایا گیا۔ اس فلم کے سکرپٹ سے لے کے اس کی پروڈکشن اور ڈائریکریشن میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن اس کی ولن میں ہی تھی جو فلم پاکستان واپس جانے کی ضد میں شروع کی گئی اس فلم میں مجھے اس عورت کا کردار دیا گیا جس نے اس ملک میں رہنے کیلئے ایک شادی شدہ آدمی سے نہ صرف شادی کی بلکہ اس سے اولاد بھی پیدا کی۔ اس شادی سے وابستہ تلخیاں اس سے وابستہ بری یادیں غلط باتیں ننگی گلیاں اس سے وابستہ طعنے آج بھی میری سماعت میں محفوظ ہیں اور کبھی میری چیخوں میں تو کبھی میری تحڑیروں میں وہ سب طعنے لفظوں کی شکل اختیار کر کے دنیا کے سامنے آتے رہتے ہیں جہاں ہر شادی شدہ مرد جو دوسری شادی کرتا ہے وہ میرے لیے ایک ڈریکولا کی شکل دھار لیتا ہے جو اپنی موج مستی اپنے انتقام اپنی سازش اپنے بدلے کو پورا کرنے کیلئے کسی عورت کا شوہر بن جاتا ہے۔ سید نور اور پرنس چارلس جو کہ اب بادشاہ ہے وہ بھی میرے لئے ایک طویل عرصے تک اس کھاتے میں آتی رہے جہاں ایک پر پہلی بیوی کو طلاق کے بعد مار دینے کا الزام لگا اور دوسری پر سید نور پہ پہلی بیوی کی موت کا ذمہ عائد کیا گیا کہ اس سے اس کا ننھا سا جہان چھین کے کسی اور کے حوالے کر دیا گیا مگر حقیقت ہمیشہ وہ نہیں ہوتی جو نظر آتی ہے حقیقت سو پردوں میں چھپی ہوتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی اور اسے دیکھنے کیلئے ہمیں دربین کی نہیں خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے اورا س خوردبین کے ذریعے جب انسان دیکھتا ہے تو اسے وہ بہت کچھ نظر آتا ہے جو وہ پہلے نہیں دیکھ پاتی۔ ایک اکیلی عورت چاہے جتنی بھی معزز ہو جتنی بھی خودمختار ہو جتنی بھی خوددار ہو اسے زمانے کے تھپیڑے بتاتے ہیں کہ ہمارے ہندوستان اور پاکستان میں بیٹیوں کو یہ نصیحت کیوں کی جاتی ہے کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی جا رہی ہے اس گھر سے اب تمہارا جنازہ ہی نکلے۔ ماڈرن طبقہ اسے جہالت کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بڑے بڑے گھروں میں بیٹھ کے نوکر چاکر اور شوہر پہ حاکمیت کے مزے لے رہی ہوتی ہیں ان کا واسطہ اس دنیا سے پڑتا ہی نہیں جہاں ایک عورت کو اس کے حسن اس کی دلکشی اس کے ہنر اس کے پاس موجود پاسپورٹ یا کسی اور مقصد کے لئے اپنے حسد بغض اور اپنے اندر کے بھیڑیے کے ہوس کی تکمیل کیلئے نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہی معاشرہ اس معاشرے کا اصل روپ ہے جسے دنیا دیکھ نہیں پاتی یا دنیا کو دکھایا نہیں جاتا مگر ہمارے ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے بزرگ اس معاشرے سے خوب واقف ہوتے ہیں لہٰذا وہ بیٹیوں کو رخصت وقت یہی بتاتے ہیں کہ دنیا بھیڑیوں سے بھری ہوئی ہے اور دنیا بھر کے بھیڑیوں میں اکیلی گھر نے سے بہتر ہے کہ اس گھر کی چار دیواری میں ہی زندگی گزار دو جہاں شوہر بھیڑیا نکل آئے یا کبھی کبھار بھیڑیا بن کے نوچ لے' مارے' قتل کر دے زندہ لاش بنا دے پھر بھی تم ان عورتوں سے ہزار گنا بہتر زندگی گزارو گی جہاں ہر شخص بھیڑیے کا روپ دھارے اپنی باری کا منتظر ہے اور انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب اس کی عزت تار تار کر کے اپنے کارنامے کو فخریہ واردات کے طور پر دنیا کو ہنس ہنس کے سنائے۔ بزرگ کبھی غلط نہیں ہوتے وہ جہاں دیدہ ہوتے ہیں بس اپنی بات صحیح طرح سے سمجھا نہیں پاتے اور یہاں ان کو اپنی بات سمجھانے کیلئے کسی لکھاری کی ضرورت ہوتی ہے وہ لکھاری جو ان تھپیڑوں سے نبٹ چکی ہو ان بھیڑیوں میں جی چکی ہو اور ان کے لمبے ہاتھوں کے ذریعے قانون کی بے بسی کا مظاہرہ دیکھ چکی ہو اور یہ بھی وہی تحریر ہے اسی لکھاری کی تحریر ہے کہ گھر کا بھیڑیا باہر کے ہزار بھیڑیوں سے افضل ہے اور اللہ نے دنیا کی ہر عورت کو یہ ہنر دیا ہے کہ وہ گھر کے بھیڑیے کو مرد بنا سکے۔ ایک درندے کو انسان بنا سکے' ایک شکاری کو شکار کر کے اسے شکار ہونے والی عورتوں کی اذیت سے واقف کر سکے اور عورت کا کام ہے کہ پہلے ماں باپ کو آگے رکھے اپنی پسند ناپسند کو ان کے آگے رکھے اور پھر ماں باپ اس کی پسند کو ناپسند کرنے کی ساری وجوہات اور دلائل اس کے آگے رکھے تاکہ کوئی بیٹی گھر سے بھاگنے کا فیصلہ نہ کرے جو کہ کسی خوشنما پھول کو پانے کیلئے کیا جاتا ہے مگر ہاتھ میں صرف کانٹوں بھری نوکیلیل ہٹنی آتی ہے اور وہ اس پھول کی خوشبو تو کیا اس پھول کی تصویر بھی نہیں دیکھ پاتی جو کبھی انٹرنیٹ پہ تو کبھی سکول کالج محلے میں اسے پھول بن کے ملتا ہے۔ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں اور ان بیٹیوں کو زحمت بنانے والے خود زحمت ہوتے ہیں چاہے وہ زحمت قوانین کی شکل میں ہو یا پھر اداروں کی شکل میں یا پھر ان درندوں کی شکل میں جنہوں نے اپنے منہ پہ نقاب ڈالے ہوتے ہیں اور کسی کو اپنی اصل شکل دیکھے۔ زندہ دفن کی گئی نہ ہی اس کے باپ نے جگ ہنسائی کے جرم میں اسے قتل کیا۔ ہمارے معاشرے کو ساری دنیا کو ویسے ہی باپ چاہئیں۔ فلم اس لڑکی اور اس کے شوہر کی نہیں بننی چاہئے بلکہ اس باپ پہ بننی چاہئے اور پوری دنیا میں دکھانی چاہئے کہ بیٹی کی غلطی ہمیشہ بیٹی کی غلطی نہیں ہوتی سازشوں کا ایک جال ہوتا ہے جس سے باپ بیٹی کو نکالنے کا فن جانتا ہے اور یہ فلم سید نور ہی کو بنانی چاہئے جنہیں آج بڑھاپے میں وہی صائمہ سنبھال رہی ہے جنہیں یقینا بہت کچھ سننا پڑا ہوگا اور رخسانہ نور کی موت کا جرم کرنے کا اعتراف کرنے کیلئے ذہنی اذیت دی گئی ہوگی کہ لوگوں کو پتہ چلے ہر مرد سید نور نہیں ہوتا جو ایک دوسری عورت کو اپنائے اور پھر اپنا کھیل کھیل کے اسے پہلی بیوی کے کہنے پہ بے عزت و بے آبرو کر کے چھوڑ دے۔ سید نور اور رخسانہ نور کی زندگیاں شاید میرے لیے اور میرے جیسے کسی اور بچے بچے کو سکول کالج اور ماں باپ کی نظروں میں لے آئے کہ اس بچے کی حفاظت کیسے کرتی ہے کیونکہ رخسانہ نور کا کیسز اور سید نور کی شادی بھی خدا کی طرف نہیں جاتا سمجھایا نہیں جاتا پڑھایا نہیں جاتا اور قدر میں نصاب میں اس موت اور اس سے وابستہ تلخی کو کوئی میرے جیسی لڑکی جان نہیں پاتی اور ڈیانا کی موت اس کے بچوں کے راتوں میں بہائے ہوئے آنسو اس کے سابقہ شوہر اور ساس پر لگنے والے الزام اور کمیلا پارکر کے حصے میں آئی۔ نفرت کو ہمارے اساتذہ ہمارے ڈاکٹر ہمارے ذہنی امراض کے ڈاکٹرز اور ہمارے سب مسیحا سمجھ سکیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں غلطیاں ان کی کس کس طرح کہاں کہاں کس کس کی موت کی کس کس کے آنسوئوں کی کس کس کی ذلت کا سبب بنتی ہیں کیونکہ میں بھی ایسی ہی ایک بچی ہوں جس کی خاموش بے بسی میں بدلتی گئی ہے۔ بس آنسوئوں میں آنسو چیخوں میں اور چیخیں بددعائوں میں بدلتی چلی گئیں۔ رخسانہ نور کی بیماری کینسر کی بیماری ڈپریشن کی وجہ سے ہوئی اور یہی ڈپریشن اس مرض کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کینسر کا تناور پیڑ بن کے اس فرد کو اگل نہ لے رخسانہ نور کا ڈیپریشن اور کینسر اس بات پہ خدا کا فیصلہ ہے کہ اگر مرد نے دوسری شادی کرنی بھی ہے تو اس کی ساری وجوہات اپنی پہلی بیوی کو بتا کے اس کی رضامندی سے کرے تاکہ کوئی رخسانہ نور قبر کی مٹی اوڑھ کے نہ سوئے اور ایسی ہی ایک لمبی فہرست ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا کو بھی اس عورت سے دکھ سمجھنے کی ضرورت ہے جو شادی شدہ مردوں سے شادیاں کرتی ہیں کہ معاشرہ بے حس معاشرہ ان کے لیے جگہ جگہ پہ گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے ان عورتوں کی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں ان کے کیا مسائل ہوتے ہیں یہ پورا ایک پی ایچ ڈی کا مضمون ہے جسے ہر ملک ہر خطے ہر کلچر کے قانون سازوں اور میڈیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو میڈیا آج تک لیڈی ڈیانا کی تصاویر اور اس کی زندگی سے وابستہ یادوں کو بیچ دیا ہے وہ ہمت کر کے کبھی کمیلا کے آنسو بھی چنے اس کا دور بھی سمجھے اس کے سینے کے گھائو بھی دیکھے اس کے دل کی کیفیت بھی سمجھے اس کے دل کی دھرکن سنے اس کی نبض دیکھے کہ وہ بھی اس اذیت سے دوچار رہی ہے جس اذیت نے مجھے جیتے جی درگور کیا۔ کچھ فیصلے خدا کے ہوتے ہیں پہلی نظر میں کسی کو دل دینا کسی کو پسند کرنا یہ بھی اس بصیرت کی آنکھ کی بدولت ہے جو اس کے دل سے جڑی ہوتی ہے چاہے وہ کوئی جانی پہچانی رگ ہو چاہے ان دیکھی ان جانی اور بصیرت کی آنکھ انسان کو تب کہاں کس سے ملا دے یہ کوئی نہیں جانتا آج کمیلا ہی ہے جوکنگ چارلس کی تنہائی کی ساتھی ہے اس کے دکھ سکھ کی شریک ہے اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چل رہی ہے اسے کبھی اکیلا نہیں ہونے دیتی اپنے محبوب شوہر کی عزت کیلئے ان زخموں کو کبھی کسی کو دکھا نہیں پاتی جو اس کی روح پہ لگے ہیں گرچہ اس کا شوہر بادشاہ ہے اور وہ اس کی ملکہ' مرد کی گئی غلطیوں یا اس کی گئی شادیوں کا ذمہ عورت کو مت ٹھہرایا کریں ورنہ ڈیپریشن کسی کو کینسر دے دے گی تو کسی کو پاگل خانے' باقی آپ سمجھدار ہیں۔وہ افیئر کیوں چلاتا ہے مرد دوسری شادی کیوں کرتا ہے اسے اپنی بیوی میں وہ کون سی خامیاں نظر آتی ہیں جن کا اظحار وہ اپنی بیوی سے کر کے ان خامیوں کو دور کرنے کے بجائے کسی ایسی عورت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے جس میں اسی صرف خوبیاں نظر آتی ہیں جس میں اسے اپنی ذات کی تکمیل نظر آتی ہے جس سے اسے عشق ہو جاتا ہے جو اس کیلئے پتھر کی مورتی ہوتے ہوئے بھی خدا کا روپ دھار لیتی ہے جو اس کے ہر رنج و الم کا علاج اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس موضوع پہ PHD پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ دنیا بھر میں وہ سارے والدین جو مذہب کے نام پہ مذہب تو جھٹلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شادی دو جسموں کا بندھن ہے تاکہ اولاد پیدا ہو نسل آگے چلے انہیں خدا کے حکم کا پابند بنایا اجئے کہ شادی دو روحوں کا ملن ہے اور ان روحوں کا ملن خدا کے ہاں ہو چکا ہوتا ہے اور دنیا میں انہیں کہاں کس جگہ ملانا ہے یہ اس نے طے کیا ہوتا ہے دنیا اس کے فیصلے میں تاخیر کر سکتی ہے اس فیصلے کو تبدیل کر سکتی ہے مگر روحوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتی کہ یہ روحیں ہی ہیں جو خدا جسم میں پھونکتا ہے اور وہ جسم ایک جان بنتا ہے اور یہ روح ہی ہے جس کے ختم ہوتے ہی ایک جان ایک لاش بنتی ہے اور ہم میں سے بہت سارے جسم کے ساتھی کے ساتھ ایک لاش بن کے جی رہے ہوتے ہیں لہٰذا جیسے ہی ہمیں روح کا ساتھی ملتا ہے تو ہمارے گھر ٹوٹتے ہیں' ہمارے بچے رلتے ہیں' ہمارے پاگل خانے آباد ہوتے ہیں کہ روح کے ساتھی کے بارے میں سوچنا بھی جرم بنا دیا جاتا ہے۔ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے پاکستان میں ایک ان پڑھ لڑکی غلط جگہ پہ شادی ہونے پہ اپنے محبوب سے زہر منگوا کے لسی میں ملا دیتی ہے جسے پی کے ایک ہی خاندان یعنی اس کے سسرال کے 26 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کے چراغ صرف اس لئے گل کر جاتے ہیں کہ گھر میں جو بہو وہ اپنی نسل پروان چڑھانے کیلئے لے کر آئے ہیں وہ لڑکی ان کے گھر کا چراغ نہیں ہے بلکہ کسی اور کی نظر کا چراغ ہے۔ پوری دنیا کی مائوں کو بابوں کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ دین کی تعلیم کی تاکہ وہ خواہ کسی مذہب یا عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں وہ شادی کا بنیادی مقصد سمجھ سکیں وہ شادی کا تقاضا سمجھ سکیں میں اگر دنیا کے امیر کبیر آدمی سے شادی بھی کر لیتی مگر وہ میری زبان میری سوچ میری شاعری میری تحریر نہ سمجھتا تو وہ رشتہ ختم ہو جاتا کہ اس میں روحوں کا ملنا نہیں ہوتا صرف پیسے کی کشش یا جسم کی لذت موجود ہوتی جس کا شادی کے تصور میں بہت بعد کا حصہ ہوتا ہے پھر چاہے وہ ملکہ برطانیہ ہو یا کسی اور ملک کی کوئی غریب ماں ان کے حصے میں پچھتاوے آتے ہیں وہ نفرت آتی ہے جو انہیں نہیں ملنی چاہئے تھی کہ ملکہ برطانیہ اپنے پسندیدہ ساتھی کے ساتھ رہتے ہوئے اس تکلیف سے واقف نہیں ہوتی جو دنیا کی انتہائی خوبصورت ڈیانا جیسی بہو کے بیٹے کے حصے میں آتی ہے کہ دنیا کی خوبصورت ترین عورت کو بھی وہ اپنی روح کے قریب نہیں آنے دیتا کہ اس کی جذباتی وابستگی کہیں اور ہوتی ہے اور وہ اس جذباتی وابستگی کے حصار سے نکل نہیں پاتا۔ دنیا کی خوبصورت عورت میٹھی زبان میٹھی گفتار والی عورت درد دل رکھنے والی دنیا بہہا سے روح کے ساتھی کی تلاش ہوتی ہے۔ جسم کا ساتھ صرف جنسی خواہش پوری کر سکتا ہے اولاد پیدا کر سکتا ہے اور اس کام کیلئے دنیا جہاں کے چرند پرند جانور موجود ہیں۔ انسان ان سب سے افضل ہے کیونکہ وہ گفتگو کرتا ہے۔ بات چیت کرتا ہے' سوچتا ہے' سمجھتا ہے۔ غوروفکر کرتا ہے' سوال کرتا ہے اور سوال کے جواب کی کھوج میں نکل جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم غاروں میں نہیں رہتے زندگی اس کائنات کو کہاں سے کہاں لے جا چکی ہے۔ انسان کی روح اس کو اس کائنات سے نکال کر دوسرے سیاروں پہ زندگی کی تلاش میں تحقیق کرنے پہ مجبور کر چکی ہے تو اپنے بچوں کی شادیوں کے وقت جسم کے ساتھ ساتھ روح کے تقاضے بھی سمجھ لیا کریں۔ پہلی بیوی بھی سمجھ لیا کرے کہ اسے ایسے آدمی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے جو کسی اور کا ہو چکا ہے یا ایسا کرنا اس کی اپنی ذات کیلئے صدمے کا باعث بن سکتا ہے اگر اس دنیا کی ابتدا ایک مرد سے ہوئی ہے تو وہ جرم بھی مردوں کے حصے میں ڈالا کریں جس میں کوئی نہ کوئی کمیلا سزا بھگت رہی ہوتی ہے۔