دنیا کے کئی معاشروں میں زینوفوبیا صرف ایک فرد کی رائے نہیں رہتی بلکہ قانون سازی، معاشرتی فیصلے اور حتیٰ کہ جنگ و جدل کی بنیاد بن جاتی ہے۔ اس کا شکار ہونے والے افراد اکثر وہ ہوتے ہیں جو کسی نئے ملک، نئی بستی یا نئی تہذیب کا حصہ بنتے ہیں۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب یا ثقافتی فرق محض ایک بہانہ بن جاتا ہے، اصل میں معاملہ عدم برداشت کا ہوتا ہے۔
یہ کیفیت صرف مغربی دنیا تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے ترقی پذیر معاشرے بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ جب کسی ملک میں معاشی حالات خراب ہوں، روزگار کم ہو جائے، یا سکیورٹی کے مسائل بڑھ جائیں تو وہاں کے مقامی لوگ بیرونی افراد کو اس بگاڑ کا ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ زینوفوبیا کی جڑیں اسی خوف سے پھوٹتی ہیں کہ "یہ اجنبی لوگ ہمارے وسائل چھین لیں گے، ہماری تہذیب کو بدل دیں گے، یا ہمیں اقلیت میں بدل دیں گے"۔ یہی سوچ پھر نفرت کو جنم دیتی ہے، جس کا اظہار کبھی الفاظ میں ہوتا ہے، کبھی سوشل میڈیا پر، اور کبھی پرتشدد رویوں کی شکل میں۔
زینوفوبیا کے نتیجے میں صرف مہاجرین یا اقلیتیں متاثر نہیں ہوتیں بلکہ خود وہ معاشرہ بھی تقسیم کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب لوگ رنگ، نسل یا قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہو جائیں، تو قومی یکجہتی کمزور ہو جاتی ہے۔ ایسی فضا میں امن، برداشت اور ترقی کی بات کرنا بے معنی محسوس ہونے لگتا ہے۔ سیاست دان بعض اوقات عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے زینوفوبیا کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ جذباتی نعروں کے ذریعے ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بناتے ہیں، اور اپنی ناکامیوں کو دوسروں پر ڈال کر خود کو مظلوم یا محافظ ظاہر کرتے ہیں۔
زینوفوبیا کے خلاف جدوجہد صرف حکومتی اقدامات یا قانون سازی سے ممکن نہیں۔ یہ ایک ذہنی تبدیلی کا سفر ہے جو تعلیمی اداروں سے شروع ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو صرف تاریخ، ریاضی یا سائنس ہی نہیں پڑھانی بلکہ انھیں برداشت، رواداری اور انسانیت کا درس بھی دینا ہوگا۔ میڈیا، ادب اور فنون لطیفہ کو بھی اس مہم کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ معاشرہ رنگ، نسل یا زبان کی دیواروں کو توڑ کر انسانیت کے مشترکہ رشتے کو پہچان سکے۔
یہ سچ ہے کہ ہر اجنبی خطرہ نہیں ہوتا، اور ہر غیر ملکی دشمن نہیں ہوتا۔ اصل دشمن وہ سوچ ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے کاٹ کر الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ ہمیں زینوفوبیا کے خلاف ایک ایسا سماجی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا جو نفرت کی بجائے محبت، خوف کی بجائے فہم، اور تعصب کی جگہ انصاف کو جگہ دے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا، تو شاید ہم ایک ایسے اندھیرے میں داخل ہو
جائیں گے جہاں انسانیت کی کوئی پہچان باقی نہ رہے گی۔