میرا نام ایمی ہے اور میں ہانگ کانگ سے ہوں۔ میری عمر تیس سال ہے۔ میں سنگل ہوں۔
کراس کلچر فرینڈشپ/ریلیشن شپ کی خواہاں ہوں۔ میں لیڈیز کپڑوں کی آن لائن سیلر ہوں۔ ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر میری ہزاروں میں کلائنٹیج ہے۔ میرے کام میں پرافٹ مارجن سو سے دو تین سو پرسنٹ ہے۔ مجھے پاکستان میں ایک قابل بھروسہ بندہ چاہئیے جسکے پاس میں اپنا اسٹاک رکھوا سکوں اور وہ میرے آرڈر ڈسپیچ کروا سکے۔
یہ خلاصہ تھا وٹس ایپ پر ایمی سے چند دن سے ہونے والی گپ شپ کا۔ صبح کا سیلفی شام کو سیلفی ملتی رہی، ہانگ کانگ کا کلچر، کھانا پینا، مذاہب، رہن سہن لوگوں کی ہابیز اور طرز معاش کے متعلق اچھی انفارمیشن ملی۔ ایمی کے گھر میں کتنے لوگ ہیں کیا کرتے ہیں وہ کب اٹھتی سوتی کہاں جاتی سب بتایا گیا اور مجھ سے بھی پوچھا ۔
دنیا بھر میں ہونے والی اس واردات کا آغاز کسی کال یا میسج سے ہی ہوتا ہے۔
شکاری سمجھ رہا تھا کہ شکار اب گردن کٹانے کو تیار ہو رہا ہے۔ اور شکار تو شکاری کے طریقہ واردات سے پہلے ہی واقف تھا۔ پہلے آفر ہوئی آپ ہانگ کانگ آجائیں اور معمولی سی ویزہ فیس بھیجیں میں ویزہ لگواتی ہوں۔ دوسری آپشن میں آپ کو ایک لاکھ ڈالر کا سامان بھجوا رہی ہوں آپ اس کا دس فیصد بھیج دیں وہ یہاں کے قانون کے مطابق یہاں آنا ضروری ہے۔ ورنہ یہاں سے سامان ایکسپورٹ نہیں ہوگا۔
یہی تصاویر، وڈیوز، وڈیو چیٹ یا کچھ بھی ایسا ہنی ٹریپ ہر روز نجانے کتنے لوگوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ دو دن قبل پاکستان سے بھی ملکی اور غیر ملکیوں کا ایسا ہی گروہ پکڑا گیا ہے۔ جو آن لائن سرگرمیوں میں فراڈ کرتے ہیں۔ نجانے کیسے کیسے پھندے ہیں لالچ ہیں جھوٹے خواب ہیں اور کوئی نہ کوئی ان چالوں میں پھنس ہی جاتا ہے۔
جس کو آپ کبھی ملے نہیں، جانتے نہیں، عقل سمجھ میں نہ آنے والے پرافٹ مارجن کا لالچ کیسے آپ کی عقل اور آنکھیں بند کر دیتا ہے۔اس کاروائی کی باقاعدہ ٹریننگ کے ساتھ شکار کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ شکار کی تمام تفصیلات ان کے پاس ہوتی ہیں۔ شاید وہ ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا جاتا ہے یا مختلف ایپس ہماری پرائیویسی ان گروہوں کو بیچتی ہیں۔ اور اس ڈیٹا کی بیس پر یہ پھندہ پلان کرکے جال پھینکتے ہیں۔
یہ پہلا کیس نہیں تھا۔ ایک دو بار ایسے ہی مجھے پہلے بھی اپروچ کیا گیا۔ میں نے فلی انوالو ہو کر سراغ لگانے کی کوشش کی کہ آخر یہ لوگ ایسی شاندار پلاننگ لاتے کہاں سے ہیں۔ مگر ایک حد تک جاکر سمجھ آنا ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارے فون میں انسٹال کوئی نہ کوئی ایپ ہماری پرائیویسی اور ڈیٹا کسی تھرڈ پارٹی کو بیچ دے، وہ تمام تصاویر ہوں، ہر وقت کی آڈیو کا سننا ہو یا اس سے بھی بڑھ کر ہمارے فون کا کیمرہ آن کرکے تصاویر اور وڈیوز بنانا ہو جس کا ہمیں کچھ علم نہیں ہے۔ عرض بس اتنی ہے کہ اس دور کے چیلنجز کو سمجھ پانا اور نپٹ پانا آسان نہیں ہے۔ خود بھی ایسے فراڈ سے بچیں اور دوسروں کو بھی انجان نمبر سے کال میسج آنے پر کوئی ڈیٹا شئیر کرنے سے منع کریں۔