اگر اقتدار کی کوئی ایسی شکل موجود ہے تو وہ کسی صورت مادی نہیں ہو سکتی، بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ وہ خالصتاً مادی نہیں ہو سکتی، دوسرا اہم نکتہ جو ذہن نشین رہنا چاہئے یہ کہ اگر واقعتاً عالمی اقتدار نامی کوئی شے موجود ہے تو پھر وہ زمان و مکان کی حدود میں قید نہیں رہ سکتی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ گزشتہ دو یا چار صدیوں سے تو عالمی اقتدار رائج ہے اور اس سے پہلے موجود نہ تھا،، اگر ایسی کوئی بلا اپنا وجود رکھتی ہے تو پھر ماننا ہوگا کہ سماج کی داغ بیل کے ساتھ ہی وہ ظہور پزیر ہوئی اور سماج کی موجودگی تک جاری رہے گی کیونکہ سماج اپنی اصل میں غیر مرئی ہے۔
اس سے قبل ہم اقتدار کی تگ و دو کو لے کر تین بڑے گروہوں یعنی ٹریڈیشنل کلب ، لبرل کلب اور ریڈیکل کلب کو ڈسکس کر چکے ہیں، مگر یہ تینوں کلبس فقط مادی اقتدار کیلئے کوشاں ہے، ان سب سے آگے بھی کچھ موجود ہے تو وہ کیا ہے اور کون ہے ؟
ایک سطحی سی رائے یہ ہے کہ کیپیٹلزم کے آنے سے ایک عالمی نظام وجود میں آیا، کیپیٹلزم کی کوئی حدود نہیں اور وہ پوری دنیا کے معاشی نظام کو جوڑتا ہے اور ہر ملک کا انحصار عالمی معیشت پر ہے، مگر مختلف ممالک میں چونکہ قومی اشرافیہ ہی مقامی اقتدار کی مالک ہیں اس لئے ضروری تھا کہ کیپیٹلزم کو ٹرانس نیشنل شکل دی جائے، نتیجے میں ایک عالمی اشرافیہ کا ظہور ہوا جو حقیقی عالمی اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔
اس رائے پر اگر ایمان لایا جائے تو پھر مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ گویا عالمی اقتدار زمان و مکان کی قید میں ہے کہ یہ کیپٹلزم کے آنے سے نمودار ہوا جو کہ ہمارے نزدیک درست نہیں۔۔۔ عالمی اقتدار سماج کی شروعات سے موجود رہا اور موجود رہے گا، کسی معاشی یا تجارتی نظام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، کیونکہ انسان اپنے پورے ارتقائی سفر کے دوران ایک ہی وجود کی حیثیت رکھتا ہے، حتی کہ اس وقت بھی جب انسان کی پوری کائنات کا حدود اربعہ پانچ دس کلومیٹر ہی تھا، اس سے آگے کا اسے کچھ معلوم نہ تھا، تب بھی دنیا میں بکھرے ہوئے چند انسانوں کا وجود ایک ہی وجود تھا، یہ اور بات کہ عام آدمی کو اس کی سمجھ نہ تھی۔
عام آدمی زیادہ سے زیادہ اس ہمسائے کو جانتا تھا جس کے ساتھ جنگ یا اختلاف کے امکانات رہتے، مثلآ رومی حکومت کے کرتا دھرتا تو دنیا کے دوسرے کونے تک پھیلی تہزیبوں بارے جانکاری رکھتے تھے مگر عام آدمی زمینی جغرافیے سے ناواقف تھا۔ سکندر مقدونی نے مصر، بین الانہار ، بالکان، کوہ قاف، وسطی ایشیاء ، فارس اور ہندوستان کے شمالی علاقوں پر اپنی سلطنت کو وسعت دی، بظاہر یہ ایک آدمی کا کام تھا جو چند ہی سالوں میں وقوع پزیر ہوا ، مگر عام یونانی کو معلوم نہ تھا کہ سمندر کے اس پار کیا ہے؟
یہ سب کیپیٹلزم سے پہلے کے معاملات ہیں، مگر یہ بھی عالمی اقتدار کی حتمی شکل نہیں ہیں ، اس سے آگے بھی کچھ اور ہے۔
محقق یاسپیرس نے axial age کا ذکر کیا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں تمام اہم فکری تبدیلیاں ایک ہی وقت میں رونما ہوتی رہیں، حتی کہ اس وقت بھی جب کسی قسم کا زمینی رابطہ ان خطوں کے درمیان ممکن نہ تھا، گویا کہ کوئی آسمانی طاقت دنیا کے دور دراز خطوں میں بکھرے بڑے دماغوں کو ایک ہی پیغام دے رہی ہے، یہ تخیل یاسپیرس کا اپنا نہیں ہے، انہوں نے یہ فرانسیسی فلسفی رینے گینوں سے مستعار لیا ہے۔
اس axial age کی سب سے بڑی مثال چار چھ صدیاں قبلِ مسیح کی ہے، جب لگ بھگ ایک ہی وقت میں دنیا کے مختلف خطوں سے سقراط ، مہاتما بدھ ، زرتشت ، کنفیوشس وغیرہ سامنے آئے، ان خطوں کا آپس میں کوئی زمینی رابطہ نہ تھا مگر یہ سب اپنی اپنی تہذیب کیلئے ایک ہی فکر لے کر ابھرے، یہ فکر شعور کو مقدس اساطیر سے نکال کر منطقی اور فلسفیانہ طرز پہ لانا تھا جس میں انفرادیت کا عنصر واضح تھا، شعوری سمت کی یہ تبدیلی ایک ہی وقت میں یونان، فارس، چین اور ہندوستان میں بیک وقت کیونکر ممکن ہوئی ؟
گویا کہ کہیں کوئی ایسا ایک سٹیشن موجود ہے جہاں سے ایک ہی سگنل مختلف خطوں کو بھیجا جا سکتا ہے، اگر امریکہ میں رہنے والا ریڈ انڈین اس وقت چنگیز خان کے متعلق نہیں جانتا تھا تو اس سے عالمی اقتدار کی نفی نہیں ہوتی، ویسے بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ چنگیز خان ان ریڈ انڈینز بارے کچھ نہیں جانتا تھا۔
انسانیت کی پوری ارتقائی تاریخ کو اگر ایک بہتے ہوئے دریا سے تشبیہہ دی جائے تو ایک انسان کو زیادہ سے زیادہ ایک اچھا تیراک کہا جا سکتا ہے جو چند میٹر تک دریا میں تیراکی کر سکتا ہے، لہروں کی اونچ نیچ یا دریا کے دو چار موڑوں سے واقف ہے، یہ شخص مگر پورے دریا کو دیکھنے یا سمجھنے سے قاصر ہے، ایسا شخص عالمی اقتدار میں حصہ دار نہیں۔ ایسے شخص کیلئے دریا بہہ رہا ہے ، وہ پانی کے بہاؤ کو اپنے جسم سے محسوس کر رہا ہے۔
عالمی اقتدار اس کے ہاتھ ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا انسانیت کے اس ارتقائی دریا کو شروع سے آخر تک دیکھ رہا ہے، دریا کی پوری لمبائی اس کی آنکھوں کے سامنے بچھی ہے اور دریا ایک ساکن سانپ کی طرح سر تا پا اس شخص کے مشاہدے میں ہے۔ ایسے افراد ہمیشہ سے اس حقیقی اقتدار کا مالک تھے اور ہمیشہ رہیں گے ۔
کون ہیں یہ لوگ ؟ کہاں سے آتے ہیں ایسے لوگ ؟
( درج بالا سوالوں کو ہندوستانی اداکار ارشد وارثی کے اسلوب میں پڑھا جائے )
حقیقی عالمی اقتدار کا مالک کاہن ہے، پروہت ہے۔ وہ کاہن، وہ پروہت جس کے ہاتھ مقصدیت کی کنجی ہے۔ کوئی پروفیسر ، عالم، اشرافیہ، جنرل، سیاستدان یا بزنس مین ایسا نہیں جس کے پاس مقصدیت کی کنجی ہو۔ مقصد، مقصد کی تشریح اور ان تالوں کی متعلقہ کنجیاں ان کے پاس ہیں جن کا پیشہ ، جن کا شوق، جن کا جنون اس مرئیت سے بلند ہیں، وہ جو غیر مرئی دنیا کے مسافر ہیں، وہ جو مادی دنیا کو غیر مادی دنیا سے جوڑتے ہیں۔
یہاں سوال پوچھا جانا چاہئے کہ ایسے کاہنوں کی بدولت عالمی اقتدار کیسے ممکن یے، کیونکہ ہر کاہن اپنے مذہب، اپنے جغرافیے ، اپنی تہذیب اور اپنی زبان سے جڑا ہے، تبت میں بیٹھے کاہن کا مذہب ، عقیدہ ، جغرافیہ اس سے مختلف ہے جو ہندوستان میں بیٹھا ہے، اور ہندوستان والا کاہن اپنے عقیدے میں روم والے کاہن سے مختلف ہے۔ قدیم مصر اور فارس کے کاہن ان سب سے جدا تھے۔ ان سب اختلافات کے باوجود پھر یہ متحدہ عالمی اقتدار میں کیسے شراکت دار ہیں ؟
واقعہ یہ ہے کہ عام آدمی کا ایک ہی چہرہ ہے، وہ یک رخا ہے، وہ اپنے علم، تجربے اور قابلیت کی بدولت جتنا بھی خاص بن جائے وہ رہے گا یک رخا ہی، یعنی ایک چہرے والا جو صرف ایک سمت کو دیکھ یا سمجھ سکتا ہے۔ عام آدمی کے برعکس کاہن یا پروہت دو رخا ہے، اس کے دو چہرے ہیں، ایک چہرہ وہ جو اس نے اپنے عقیدے، اپنے خطے اور اپنی تہذیب پہ مرکوز کر رکھا ہے، کسی بھی کاہن کا یہ چہرہ دوسرے کاہن سے مختلف ہے، یعنی اس چہرے پر اس کا عقیدہ نقش ہے ، لیکن کاہن کا دوسرا چہرہ بھی ہے جو کسی پراسرار وجود کی طرف مرکوز ہے، اس وجود کو " وجودِ اعظم " کہا جا سکتا ہے، اب یہ دوسرا چہرہ ہر ایک کاہن کا ایک جیسا ہے، سادہ مثال سے سمجھ لیجئے کہ جیسے امریکی فلموں میں ہوا میں معلق اڑن طشتریاں دیکھنے کو ملتی ہیں، ہر اڑن طشتری کے نیچے والے چہرے کی لائیث کسی ایک زمینی ٹکڑے پر مرکوز ہے، لیکن اسی اڑن طشتری کا اوپر والا چہرہ آسمان کی طرف کسی دوسری روشنی سے بھی جڑا ہے۔ کاہن یہی اڑن طشتری ہے جو زمینی اور آسمانی دنیاؤں میں کمیونیکیشن کے تبادلے پر تعینات ہے اور ان کے اوپر والے چہرے ایک ہی " وجودِ اعظم " سے جڑے ہیں۔ اور یہی " وجودِ اعظم" ان کاہنوں کے عالمی اقتدار کا ضامن ہے۔
اس سے آگے اب یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ مرئی اور غیر مرئی دنیاؤں کے درمیان یہ کاہن کس چیز کا تبادلہ کر رہا ہے، کونسا مال ہے جو ادھر بھیجا جا رہا ہے اور پھر وہاں سے کیا موصول کیا جا رہا ہے؟
وہاں سے تو اقتدار وصول کیا جا رہا ہے، حقیقی عالمی اقتدار، البتہ یہاں زمین سے وہ مال بھیجا جا رہا ہے جو کسی بھی فرد کی حقیقی ملکیت ہے، اور ہر فرد کی حقیقی ملکیت صرف اس کا وقت اور توانائی ہے، فرد کسی بھی شعبے، پیشے یا مصروفیت میں ملوث ہو، وہ اس شعبے، پیشے یا مصروفیت میں اپنا وقت اور توانائی صرف کرتا ہے، انسانوں کی یہی توانائیاں اور یہی وقت پھر سماج اور سماجی اداروں کی مدد سے تھوک کے حساب سے کاہن تک پہنچتے ہیں اور اس مال کو پھر خوبصورت پیکنگ میں یہ کاہن ادب کے ساتھ اس " وجودِ اعظم " کے سامنے پیش کر دیتا ہے جو اس کے اقتدار کا ضامن ہے ، گویا کہ یہ اس عالمی اقتدار کی قیمت ہے۔ اگر سماج میں موجود افراد یا لوگوں کے گروہ اپنی اپنی توانائی اور وقت دینے کے قابل نہ رہیں ، یعنی کہ خشک ہو جائیں تو پھر ان گروہوں کو ہٹا کر نئے گروہوں کو سامنے لایا جاتا ہے جو تر ہیں اور جن کی چھاتیاں دودھ سے بھری ہیں، اس عمل کو عرف عام میں انقلاب کہا جاتا ہے۔
اب جو سوال ہر قاری کے ذہن میں ہے کہ یہ " وجودِ اعظم" کون ہے اور کیا ہے، یہاں آکر ایک تو راقم الحروف کی سوچ اور قلم کے پر جلتے ہیں ، دوسرا یہ کہ مرشد کے بقول تحریر کو پراسرار اور پرکشش رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ سوالوں کا فقط سوال تک ہی محدود رکھا جائے۔
کبھی نوٹ کیا کہ ہر کاہن کے چہرے پر مونالیزا والی ایک دلچسپ سی مسکراہٹ طاری رہتی ہے، جیسے وہ کہہ رہے
ہوں کہ میں تمہارے بارے سب کچھ جانتا ہوں۔