قوم پرستی، اشرافیہ کاہتھیار یا آزادی کی چابی؟۔۔سائرہ رباب

 
قوم پرستی (Nationalism) کو آج کے فکری مباحث میں دو انتہائی متضاد زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف مغربی لبرل مفکرین اور نیو لبرل پالیسی ساز قوم پرستی کو پرانے جاگیردارانہ نظام یا "tribalism" کے احیاء کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، قوم پرستی فرد کی عالمگیر شناخت اور "transnational integration" کے خلاف ایک قدامت پسند مزاحمت ہے۔ ان کے خیال میں قوم پرستی محض نفرت کا ایک پرانا ہتھیار ہے۔

مگر دوسری طرف، فریرے (Paulo Freire)، نگوگی وا تھیونگو (Ngũgĩ wa Thiong’o)، فینن (Frantz Fanon)، اور ایڈورڈ سعید (Edward Said) جیسے ترقی پسند دانشور قوم پرستی کو استعماری غلامی اور ثقافتی جبر کے خلاف آزادی کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں۔

 ان دانشوران کا کہنا ہے کہ کہ جب مقامی ثقافت، فنون، زبان، تاریخ اور وسائل سب کچھ اشرافیہ یا غیر ملکی طاقتوں کے قبضے میں چلے جائیں، تو وہاں قوم پرستی ہی وہ واحد راستہ بچتی ہے جو انسان کو اس کی اصل پہچان، خودمختاری اور مزاحمت کا حق واپس دلاتی ہے۔

 نیو لبرل ازم کس طرح سرحدوں کو مٹا دیتا ہے؟

نیو لبرل ازم (neo-liberalism) صرف ایک معاشی نظام نہیں، بلکہ ایک عالمی امپیریلسٹ فورس ہے جو بارڈرز کا انکار کرتی ہے ، ہر اُس چیز کو مٹانا چاہتی ہے جو مقامی ہو، جو کسی سرزمین سے جڑی ہو، جو کسی قوم یا علاقے کی شناخت ہو۔ یہ نظام "بارڈر لیس" یا ترانس نیشنل ترقی کے نام پر آپ کی زمینوں، دریاؤں، فصلوں، پانی، اور یہاں تک کہ آپ کے ثقافتی ورثے پر قبضہ کرتا ہے۔ بڑے ڈیموں کے منصوبے آپ کے دریاؤں کا پانی کسی اور ریاست یا ملک کو دیتے ہیں۔ کارپوریٹ زمیندار آپ کی زمینیں خرید کر وہاں ایسی فصلیں اگاتے ہیں جو مقامی عوام کے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ مقامی کسان، مزدور اور دستکار بےدخل ہو جاتے ہیں۔ انکی مزدوری بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں چیپ کموڈٹی بن جاتی ہے ۔

یہی نظام آپ کی زبان کو فرسودہ اور غیر ضروری قرار دیتا ہے، آپ کے فن کو "unproductive" کہتا ہے، آپ کے تہواروں کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ اور انکو بھی مذہبیت کے خانے میں بانٹتا ہے ۔آپ کے بچے وہ تاریخ پڑھتے ہیں جس میں نہ آپ کے بزرگوں کا ذکر ہے، نہ آپ کی مزاحمت، نہ آپ کی کامیابیاں۔
آپکے قصے کہانیاں ، شاعری ، مشترکہ ورثہ سب اپکی یاد داشت سے محو کر دیا جاتا ہے۔ آپکے ہیرو بدل دیے جاتے ہیں ۔ اور پھر آپ سے پوچھا جاتا ہے: “کیا آپ آزاد ہیں؟”

 مقامی اشرافیہ نے ہمارا مقامی کلچر کیوں مٹایا؟

 ہماری مقامی اشرافیہ ۔۔۔ جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار، سیاسی خاندان۔۔۔۔ یہی لوگ وہ تھے جنہوں نے انگریز سے ساز باز کی، انہی نے ہمارے اصل لوک فن، موسیقی، تاریخ، اور زبانوں کو غیر مہذب، غیر اسلامی ، بدعت کہہ کر دبا دیا۔ تہوار ختم کیے، لوک گیتوں اور سسی پنوں ، ہیر رانجھا جیسی لوک داستانوں کو فحاشی کہا، لوک شاعری کو فضول قرار دیا، دیہاتی لباس اور لائف سٹائل کو کم تر کہا ، اور خود انگریزی، فارسی اور عربی لباس و زبان کو اختیار کیا تاکہ وہ اقتدار میں رہ کر اپنی برتری قائم رکھ سکیں اور divide and rule گیم چلتی رہے 

مذہب کے نام پر شناخت کا قتل: ہندو، مسلم، سکھ، سب کی لوٹ

جب برصغیر میں انگریز نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے سب سے پہلے "قوم" کی تعریف ہی بدل دی۔ پہلے قوم کا مطلب تھا: وہ لوگ جو ایک زمین، ایک تہذیب، ایک جغرافیے، اور ایک فن سے جُڑے ہوں۔ اسی لیے سکھ، ہندو، مسلمان، پنجابی، راجستھانی، جنوبی ہندوستانی سب مل کر انگریز کے خلاف لڑے۔ کیونکہ سب کی لوک ثقافت، کہانیاں، رسمیں، زمینیں اور دریا مشترک تھے۔

مگر انگریز نے مذہب کو "قوم" کا معیار بنا دیا، تاکہ زمین، پانی، زبان، لباس ۔۔۔۔ سب چھن جائے اور صرف جھگڑے بچیں۔ اصل مسائل اور سسٹم کی طرف سے توجہ ہٹ کر جعلی دشمنوں تک مرکوز رہے ۔انگریزوں نے صوفیوں، کسانوں، عورتوں اور فنکاروں کی روایت کو "غیر ضروری" اور "غیر مذہبی" بنا کر دبا دیا، اور صرف قانونی، سخت اور اقتداری مذہب کو فروغ دیا جو ان کی سلطنت کے لیے موزوں تھا۔ یہی رویہ آج بھی جاری ہے۔

اصل ثقافت جوڑتی ہے، اشرافیہ کی ثقافت بانٹتی ہے

یہ فرق سمجھنا بہت ضروری ہے:
لوک ثقافت لوگوں کو جوڑتی ہے، ان کے دکھ درد بانٹتی ہے، ان کی زبان میں بات کرتی ہے۔ جبکہ اشرافیہ کی ثقافت صرف نفرت، تقسیم اور غلامی سکھاتی ہے۔اگر ہم واقعی آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں اشرافیہ کی ثقافت کو نہیں، بلکہ اپنی لوک ثقافت کو زندہ کرنا ہوگا۔ 

قوم پرستی، دراصل ڈی کولونیزیشن کا عمل ہے اور لوک ثقافت کی واپسی۔ اور لوک ثقافت، عوام کی خودمختاری کی اصل زبان۔

مزاحمت کی روایات: ہماری اصل پہچان

 ہیر، سسی، سوہنی نے جاگیردارانہ فیصلوں کے خلاف بغاوت کی، اور بُلہے شاہ، شاہ حسین، کبیر جیسے شعرا نے صوفی روایت کو عوامی آزادی، انسانی مساوات کی بنیاد بنا کر سٹیٹس کو کی قوتوں کو کمزور کیا ۔۔ بُلہے شاہ کا رقص، شاہ حسین کا میلہ، کبیر کا کلام سب طاقتور طبقات کے خلاف آواز تھے۔
بُلہے شاہ کہتا ہے:
نہ میں مومن وچ مسیتاں
نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیداں
نہ میں موسیٰ نہ فرعون

ہماری لوک داستانیں جیسے ملنگی، جگا، دُلا بھٹی ۔۔۔ صرف قصے نہیں، بلکہ استعماری اور جاگیرداری نظام کے خلاف عوام کی بغاوت تھیں۔ جنہیں دانستہ طور پر ہماری یاد داشت سے مٹا دیا گیا (systematic cultural erasure)

رقص، گیت اور لوک فنون کی طاقت

مقامی کلچر ہی لوگوں کی آواز ہے۔ جب کوئی کسان تھک کر شام کو بانسری بجاتا یا گیت سنتا ہے، یا عورتیں ہار سنبھالتے ہوئے گیت گاتی ہیں یا رقص کرتی ہیں ، بچے گلیوں میں علاقائی کھیل کھیلتے ہیں ، شام کو دادا دادی کی زبانی قصے ، کہانیاں سنتے ہیں ۔۔تو یہ سب کلچر کے مظاہر ہیں۔ یہ صرف تفریح نہیں بلکہ ایک اظہار ہے خودی کا، اجتماعی یادداشت کا، مزاحمت کا۔

یہی وجہ ہے کہ جاگیردار اور کارپوریٹ قوتیں سب سے پہلے انہی چیزوں پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ عوام بے زبان ہو جائیں، تاکہ آسانی سے غلام بن سکیں۔

جنوبی بھارتی فلمیں اور ثقافتی دعوے

آج جنوبی بھارت کی فلمیں اپنے مقامی کلچر، دیوی دیوتاؤں، لوک کہانیوں اور مظلوم عوام کو مرکز میں لا رہی ہیں۔ اپنی روایات ، خاندانی نظام کو زندہ کر رہی ہیں ۔ وہ ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ جب آپ اپنی زبان، زمین اور ورثے پر فخر کرتے ہیں، تب ہی آپ اپنی سرزمین اور وسائل کے تحفظ کے قابل بنتے ہیں۔ یہی ثقافتی دعویٰ سیاسی آزادی کی بنیاد بنتا ہے۔

قوم پرستی کا مطلب: وسائل اور شناخت کی بازیابی

آج جب ہماری زمینوں پر کارپوریٹ کمپنیاں قبضہ کر رہی ہیں، جب ہمارے دریاؤں پر دوسرے ملک ڈیم بنا رہے ہیں، جب ہماری زبان کو کمتر اور ہمارا لباس دقیانوسی کہا جاتا ہے،
ہماری زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور وسائل کو بے دریغ لوٹا جا رہا ہے تو قوم پرستی ہی وہ شعور ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں اپنی زمین، زبان، فن، تاریخ اور ورثے پر دوبارہ حق جتانا ہے۔

ہمیں اپنی زمین کو صرف مذہب، ذات، یا زبان کے خانوں میں نہیں دیکھنا، بلکہ Paulo Freire کے مطابق مقامی زمین سے بلند ہو کر دیکھنا سیکھنا ہوگا تاکہ ہم پورے منظرنامے کو سمجھ سکیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمیں وہی دکھائی دے گا جو طاقتور ہمیں دکھانا چاہتے ہیں .. مذہب کی بنیاد پر نفرت، زبان کی بنیاد پر تقسیم، یا روایت کی بنیاد پر شرمندگی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی عوامی تہذیب، رنگوں، بولیوں، روایات اور بیانیوں کا ایک قوس قزح ہے، جو تبھی مکمل ہے جب سب رنگ ساتھ ہوں۔پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی ، بنگالی، مراٹھی، تامل، کشمیری ۔۔، ہر ایک کا اپنا رنگ ہوتا ہے، مگر سب مل کر قوسِ قزح بنتے ہیں۔

اس پس منظر میں ہمیں اپنی ثقافت ، قومیت کو صرف ورثہ نہیں بلکہ سیاسی ہتھیار سمجھنا ہوگا ۔ وہ ہتھیار جو عوام کو جوڑتا ہے، درد بانٹتا ہے، اور طاقت کے جھوٹے قلعوں کو چیلنج کرتا ہے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !