واصف علی واصفؒ نے کیا ہی خوب
کہا ہے کہ جو شخص تمھارے پاس کسی ضرورت کے
لئے آ?ئے، جاتے وقت اس کا شکریہ ادا کرو کہ
اس کا آنا ایک بخیل کے سخی بننے کا سبب بنا۔ دراصل وہ لینے والا نہیں آپ
کو دینے والا بن کر گیا ہے۔ سوچنے کا انداز مختلف ہو تو تصویر ہی بدل جاتی ہے۔
مناظر بھی الگ، زاویہ نگاہ تبدیل ہو جاتا
ہے۔ نئے راستے سجھائی دینے لگتے ہیں۔ دینے
والا فخر و غرور کے بجا ?ئے احسان مندی محسوس کرتا ہے۔ والد صاحب پھیپھڑوں کی
تکلیف کے باعث بیڈ پر آ گئے۔ آخری تین ماہ
وہ چل بھی نہیں سکتے تھے۔ قریبی
عزیز ملنے آئے تو انھوں نے دیکھا کہ ہم سب گھر والے چوبیس گھنٹے متحرک ہیں۔ رات ہو یا دن لمحے بھر انھیں اکیلا
نہیں چھوڑتے کوشش کرتے ہیں ان کے اشاروں کو سمجھ لیں۔تب چچا جان نے ابو سے کہاکہ
آپ خوش نصیب ہیں سعادت والی اولاد ملی
ہے۔تم بیڈ پر ہو یہ تمھارے ہاتھ، پاؤں،
بازو بنی ہے۔ ابو کا لفظ لفظ یاد ہے۔ کہنے لگے خوش نصیب یہ ہیں کہ انھیں
خدمت کرنا نصیب ہوا ہے۔اللہ نے موقع دیا ہے کہ یہ جنت کما لیں۔خدمت لینا خوش نصیبی
کیسے ہو سکتی ہے۔ ان الفاظ نے خدمت کا رخ ہی بدل ڈالا تھا۔
میرے
چچا ایک دن باتوں کے درمیان اداسی سے بولے کہ میں نے اپنے کئی قریبی لوگوں کی موت
اور بستر مرگ کے دن بہت قریب سے دیکھے ہیں۔ اماں، ابا، بھائی، بھتیجا سب کے آخری لمحات میں میں ان کے ساتھ
تھا۔سوچتا ہوں یہ دل پھٹا کیوں نہیں۔ دوسرے بزرگ جو یہ بات سن رہے تھے بولے یہ
تمھاری خوش قسمتی ہے کہ موت کے مشکل ترین
مراحل میں تم ان پیاروں کے ساتھ تھے۔تمھیں ان کہی انمول دعائیں ملی ہونگی جن کے
لئے کوئی الفاظ دنیا کی کسی ڈکشنری میں موجود نہیں۔ سوچا جا?ئے تو ان مراحل نے
تمھیں دولت مند بنا دیا ہے۔ تمھاری دنیا سے بے رغبتی اور بے نیازی کی روش انھی
لمحات کی دین لگتی ہے۔ یہ زاہدانہ زندگی اسی کا اعجاز تو ہے۔
ہماری میٹرک کلاس کی ایک معلمہ
تعلیم کے ساتھ تربیت پر خاص توجہ دیتیں۔ ایک دن انھوں نے ایک واقعہ سنایا جس نے
سوچنے کے رخ پر پہلی ضرب لگائی۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک بزرگ کسی کام سے بیرون
شہر گئے۔ وہاں بھتیجے کے ہاں ٹھہرے۔اپنی بیگم کو بھتیجے کے معمولات بتا کر خوش ہو
رہے تھے کہ وہ دن رات خدمت دین میں منہمک رہتا ہے اور ان کا بھی خاص خیال رکھتا
ہے۔ بیگم بولیں آپ خوش نصیب ہیں کہ اتنے نیک بھتیجے کے ہاں ٹھہرے ہیں۔ بزرگ نے
جوابا بڑی قیمتی بات کہی۔بیگم صاحبہ خوش نصیب ہمیشہ میزبان ہوتا ہے کہ جس کا ہاتھ
اوپر ہوتا ہے۔ میری حیثیت تو یہاں وصول کرنے والے کی سی ہے۔
زندگی کے کئی مراحل میں اس تصور
کے پختہ ہونے کا سامان ہوتا رہا۔گزشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ
کچھ عرصے بعد جانا ہوا۔کافی تبدیلیاں آ چکی تھیں سب پیسے کا کمال تھا۔ایک سہیلی
سے تذکرہ ہو ا کہنے لگی۔یہ کام جن صاحب نے کروایا ہے وہ احسان مند تھے کہ ہم نے ان
کی خدمت قبول کی۔ان کے مال کو صدقہ جاریہ کے کام میں لگایا۔آخرت کے لئے راہ ہموار
کی۔مادیت پرست معاشرہ کے زیر اثر مفلسی کا
رویہ ہے کہ لینے کو اچھا سمجھا جانے لگا ہے اور دینے سے ہاتھ رکنے لگے ہیں۔دینے
والے ہاتھ بسا اوقات خود کو اس زعم میں اصل دینے والا سمجھ بیٹھتے ہیں۔در حقیقت
معاشرے کے کمزور لوگ ہی برکت کا سبب ہوتے ہیں ہمیں رزق ان کے سبب سے دیا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا لینے سے زیادہ برا
عمل کوئی نہیں سمجھا جاتا تھا۔لوگ دیتے ہوئے ڈرتے تھے کہ نہ جانے دوسرے انھیں قبول
کر یں گے بھی یا نہیں۔قاضی امام ابو یوسف کے دور کا واقعہ ہے کہ دینے والے لینے
والے کو تلاش کرتے اور کوئی لینے والا نہ ملتا نہ تھا۔اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ مال
کی انتہائی فراوانی تھی وجہ یہ تھی کہ دین مبین نے خودداری بڑھا دی تھی۔دینے والا
رویہ پیدا کر دیا تھا۔ہر شخص صرف دینا چاہتا تھا۔گھروں کا بھرم اور وقار تھا۔کچھ
لوگوں میں اثرات اب بھی باقی ہیں۔
ہماری
ایک سہیلی اپنا کام کر کے پڑوسن کے گھر کے کام نمٹا آتی۔جن کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ
گئی تھی۔کسی نے کہا کیوں مشقت اٹھاتی ہوں۔کیا ان کے رشتہ دار نہیں جو معاونت کریں۔
اس کا جواب حیران کر دینے والا تھا۔نہیں مشقت تو تب ہوتی جب میں کچھ کرنے کے قابل
نہ ہوتی اور کسی کی آگے بڑھ کر معاونت کرنے کی منتظر رہتی۔ رب سے دعا کرتی ہوں
دینے والوں میں ہی رکھے کہ جس دن ان میں نام نہ رہا لینے والوں میں لکھ لیا
جائیگا۔اس وقت خاندان دجالی نظام کے نشانے پر ہے۔
ایک طرف خاتون خانہ میں مال ودولت کی حرص وہوس بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف مردوں کے تقاضوں میں
اضافہ ہے کہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
ہر دو ہیں کہ پہلے دن سے ایک
دوسرے سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں نے زندگی بھر کی حسرتیں ایک دوسرے کے لئے جمع
کی ہوتی ہیں۔ جن میں ایٹم بم کی سی توانائی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ حسرتوں کے پورا
ہونے کی جب کوئی صورت نہیں نکلتی تو یہ بم پھٹ جاتا ہے اور سب کچھ تباہ و برباد ہو
کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے کہ فقط وصولنے کی تمنا ہے دینے کو کوئی تیار نہیں۔ ان گنت
تقاضوں نے زندگی کو عذاب بنا ڈالا ہے۔ طرہ یہ کہ معاشرے کا دباؤ اس پر مستزاد ہے۔
اس نے خود ساختہ پیمانہ بنایا ہے کہ اگر کوئی شاپنگ، ہوٹلنگ، مہنگے اسکولوں میں
تعلیم نہیں دلا پا رہا تو وہ گویا وہ اپنے خاندان سے محبت ہی نہیں کرتا۔ یسے میں
چھوٹی سی کمی ناک میں دم کر دیتی ہے۔
دوسری طرف بیگم گھر بھر کی ذمہ
داریوں اور خدمتوں کے بعد بھی آپکے بلند معیار کو نہیں چھوتی۔ اس سب کے ساتھ آپ اسے سجی سنوری ماڈل گرل کی
طرح مسکراہٹ سجائے اپنے گرد گھومتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ایسے میں مسئلہ کا ایک ہی حل
ہے۔ہر ایک صرف دینے کا سوچے۔یقین جانیں آپکا حق خود آپ کے پاس آئے گا۔ طمانیت
سے دامن بھر جائے گا۔ دینے والے لوگوں کو سات سو گنا واپس کرنے کا وعدہ خالق
کائنات کا ہے۔ ایک دانے سے سات بالیں اور ہر بال میں سو دانے،اور یہی نہیں اللہ اس
کی پرورش اور بڑھوتری بھی کرتا ہے۔
قدرت کی طرف سے اس پر نعمتوں کی
بارش برستی ہے۔کئی انعام اس کے حصے میں
آتے ہیں جو دوسروں کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔رب کریم ان کے کام خود کر دیتا ہے۔وہ
اللہ کے لئے کسی کو ذرا سی توجہ،محبت،تسلی،تھوڑا سا وقت دیتے ہیں وہ سب کئی گنا بڑھ کر ان کی طرف واپس لوٹتا
ہے۔اس لئے کہ یہ فطرت کے ساتھ کمیٹی ہے۔آپ کا دیا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں جاتا۔اسی
لئے اللہ نے خرچ کرنے اور دینے کی تاکید کی ہے۔ دینا دراصل قوانین قدرت میں لینے
کا انتظام ہے۔اللہ نے دینے کی اعلیٰ صفت اپنی ذات کے لئے رکھی ہے۔ رب کریم رات کی آخری گھڑیوں میں دینے کے لئے آواز
لگاتا ہے۔یہ نہیں کہتا کہ مجھے کچھ دو تب تمھیں دوں گا۔
انسان پر جو کچھ اللہ نے لازم کیا اللہ اس سے بے نیاز ہے۔سب بندگیاں انسان ہی کے فائدے کے لئے ہیں۔اللہ نے اپنے
فائدے کے لئے کچھ کر نے کو نہیں کہا۔پیغام یہ ہے کہ دینے کا رویہ اپنائیں، قدردانی
کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجا?ئے۔