چھوٹی چھوٹی حرکتیں۔ سبط حسن گیلانی

بھوٹی چھوٹی حرکتیں ہی ہوتی ہیں جو آپ کی عزت کم کرتیں اور اسے بڑھاتی ہیں ۔ پچھلی بار یورپ کے ایک ملک کا قصہ لکھا تھا آج برطانیہ کا لکھتا ہوں ۔ پکھی واسوں کی زندگی میں ایسی بہت ساری چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں جمح کریں تو کتاب بن جاے ۔ چند سال قبل برطانیہ کے ایک شہر میں میرا ایک کلیرنس سٹور تھا ۔ وہاں ایک بزرگ انکل اکثر تشریف لاتے تھوڑی دیر رکتے گپ شپ کرتے اور چلے جاتے اکثر کوئی نہ کوئی کام ساتھ لاتے کہ فلاں محکمے میں فون کر دیجیے میرے کچن کا مسئلہ ہے کبھی باتھ روم کا کبھی کوئی چولہا اور کوئی مشین خراب ہو جاتی ۔ 77 سال کی عمر تھی اور ماشاءاللہ خوب چاک و چوبند تھے ۔ اکثر پیدل ہی گھوما کرتے شاید یہی ان کی صحت کا راز تھا ۔ مجھے اکثر اپنی زندگی کی کامیابی کی کہانیاں سناتے مثلا لاہور میں میں نے دس سال پہلے جو پلاٹ پچیس لاکھ کا خریدا تھا وہ آج دو کروڑ کا ہے ۔ دس لاکھ والا پلاٹ ڈیڑھ کروڑ کا ہو چکا ہے ۔ سپین میں میرے بیٹوں کے دو بڑے بڑے سٹور ہیں جہاں درجن بھر ملازم کام کرتے ہیں ۔ ایک دن مجھے اس علاقے کی مسجد میں جانا پڑا کہ ایک بزرگ دوست کی ہمشیرہ کے انتقال کا ختم تھا ۔ میں جب مسجد کے بڑے سے ہال میں پہنچا تو مجھے ایک خاص ٹیبل پر بٹھایا گیا جہاں خاندان والے کوئی درجن بھر لوگ بیٹھے تھے ۔ اتنے میں وہ انکل بھی تشریف لائے تو مجھ سمیت سب سے ہاتھ ملا کر ایک خالی کرسی پر تشریف رکھ لی ۔ میں سمجھا کہ وہ بھی اس خاندان کے تعلق دار ہیں اور مدعو کیے گئے ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سب لوگ انہیں میرے ساتھ کوئی بزرگ سمجھ رہے تھے۔ اتنے میں کھانا آ گیا ۔ کھانا بڑا پرتکلف تھا ۔ دو تین قسم کا سالن تھا نان کباب روسٹ اور میٹھا بھی پروسا گیا تھا ۔ انکل نے ہر ڈونگے کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ۔ میں انہیں کھاتا دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اس عمر میں بھی ماشاءاللہ جوانوں کی طرح کھا اور پچا سکتے ہیں۔ جب کھانا ختم ہوا تو سب نے اٹھنے کی تیاری کی تو سامنے موٹی موٹی بڑی مہنگی کھجوروں کی بڑی سی تھالی پڑی تھی، کوئی دو کلو تو ہوں گی ۔ دو چار لوگوں نے میرے سمیت ایک ایک کھجور اٹھائی ۔ تو انکل نے اپنے بڑے بڑے ہاتھوں کی پوری لپ بھر کر جیکٹ کی جیب میں ڈال لی ۔ یہ دیکھ کر میں تو ششدر رہ گیا لیکن ایک صاحب بول پڑے کہ اور بھی چائیں تو لیں لے جی اتنی ساری کھجوروں سے کیا ہو گا ۔ انہوں نے ایسا طنزیہ انداز میں کہا تھا لیکن انکل نے ان کا شکریہ ادا کیا اور سب کھجوریں ایک ڈسپوزایبل پلیٹ میں ڈال کر اٹھا لیں اور ساتھ مجھ سے مخاطب ہوے شاہ جی جاتے ہوے مجھے گھر ڈراپ کر دیجیے گا پلیز ۔ میں کچھ لمحے تو شرمندگی سے وہیں گڑا رہا پھر میزبانوں سے اجازت لے کر وہاں سے چل پڑا لیکن اندازہ ہو چکا تھا کہ کتنی مفت کی شرمندگی میرے حصے میں آ چکی ہے ۔ کچھ دن بعد جب میری میزبان بزرگ سے بات ہوئی تو انہوں نے بڑی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ شاہ صاحب وہ بزرگ آپ کے کوئی جاننے والے یا رشتہ دار تھے ؟ ان کی اس گھٹیا حرکت سے مجھے خاندان کے لوگوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا کہ وہ سمجھتے ہوں گے کہ میرے کوئی دوست ہیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے جاننے والے تو ہیں لیکن نہ میرے ساتھ آے تھے نہ رشتہ دار ہیں اور میں تو سمجھ رہا تھا کہ وہ آپ کے جاننے والے اور دعوتی ہیں ۔ اتنے میں ان بزرگ کے ایک عزیز وہاں تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ میں باقاعدگی سے نماز پڑھنے اس مسجد میں جاتا ہوں۔ ہر دوسرے دن کبھی دن میں دو دو بھی جنازے مسجد میں آتے ہیں اور قل ختم جمعرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ بزرگ ہر ایسے موقعے پر موجود ہوتے ہیں ۔ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں اٹھتے وقت فروٹ بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور مسجد میں اکثر نمازی انہیں جانتے ہیں اور کبھی کبھی نماز میں بھی شریک ہو جاتے ہیں لیکن ان کا مستقل دھندہ یہی ہے ۔ اس کے بعد انکل کے ساتھ میں نے اپنا رویہ سرد کر لیا اور کچھ عرصہ بعد وہاں سے سٹور بھی فروخت ہو گیا ۔ ایک دو مرتبہ ان کا فون بھی آیا لیکن پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔ ایسے افراد آپ کو ہر جگہ ہر معاشرے میں مل جاتے ہیں جو بھوک ننگ سے نہیں بس عادت سے مجبور ہوتے ہیں اور لتھی چڑھی کی پرواہ نہیں کرتے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !