جادو کی تعریف شاید یہ ہونی چاہئے کہ ہر وہ چیز جو انسان کیلئے نئی ہے وہ جادو ہے، آخر نظروں کو کوئی نئی چیز ہی خیرہ کر سکتی ہے تو جادو اور نیاپن ایک دوسرے کے ہم معنی ہوئے ۔
فرد کی زندگی کسی نئے کی تلاش کے گرد گھومتی ہے، کچھ نیا نہ ہوتو فرد جمود کا شکار ہوتے ہوئے سٹھیا جائے اور ناہید ہو جائے، تجسس اسی نئے کو کھوجنے کا نام ہے، نئے نقوش، نئے تجربات، نیا علم ہی فرد کی فطرت کو سیراب کرتے ہوئے اسے زندہ رکھتے ہیں ۔ کسی محقق کا فرمان ہے کہ قدیم کو زندہ رکھنے کیلئے جدید کو کھوجنا ضروری ہے، دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم کچھ نیا تلاش نہیں کر رہے تو اپنے پرانے کو کھو رہے ہیں۔
امریکہ کی دریافت اسی نئے کی جستجو تھی، یورپی لوگ جنت کی تلاش میں سمندر کے اس پار جانے کی امنگ لے کر اٹھے اور کئی نئے خطوں کو دریافت کیا، سوال یہ ہے جدت کی جستجو انسان میں کیوں جاگتی ہے؟
اس کی واحد وجہ قدیم سے اکتاہٹ ہے، فرد جب اپنے قدیم سے اکتا جائے تو پھر کچھ نیا کرنے، نیا کھوجنے کو نکل پڑتا ہے، رشتوں کے ٹوٹنے کی وجہ یہی اکتاہٹ ہے، نئے رشتے بنانے کی خواہش یہی بتا رہی ہے کہ پرانا رشتہ اب اپنا تجسس کھو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنت کا جو تصور پیش کیا جاتا ہے اس میں قدیم سے اکتاہٹ موجود نہیں کیونکہ ہر قدیم ہر بار ایک نئے روپ میں سامنے ہے تو اکتاہٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زندگی کی کورے کاغذ سے شروعات کی خواہش ہر انسان میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ یہ اور بات کہ نئی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ہنی مون ہی کا وقت کچھ نیا لگتا ہے، اس کے بعد یہ نئی دنیا اسی پرانی دنیا کی جھلک دینا شروع کر دیتی ہے، ایسا اس لئے ہے کہ ہم نئی دنیا میں انہی پرانی عادتوں، پرانی فطرت اور پرانے ماحول کے ساتھ داخل ہوتے ہیں، امنگیں نئی ہیں مگر کوششیں پرانی تو نتیجہ ہر بار ایک ہی آئے گا ۔
انسان ہر روز کچھ نئے کی توقع میں ہے، یہی نہیں بلکہ کچ ایسے نئے کا منتظر ہے کہ جس کے بعد اور کچھ بھی نیا مطلوب نہ ہو، یوٹوپیا کا پورا تصور اسی خواہش پہ کھڑا ہے، ادب میں کلاسیکیت سے لے کر پوسٹ ماڈرنزم تک ہر دور میں یہی سمجھا جاتا رہا کہ بس یہی انتہا ہے اور اس سے آگے کچھ ممکن نہیں ، ہم فلسفی سے کچھ نئے کی امید رکھتے ہیں مگر اس شرط کہ ساتھ کہ وہ اپنی روایات سے بھی جڑا رہے۔ اگر وہ روایات سے جڑا رہے گا تو پھر اسی قدیم والی لکیر کو بار بار پیٹتا رہے گا جسے پہلے ہی اتنی بار پیٹا جا چکا کہ اب وہاں باقاعدہ ایک گڑھا بن چکا یے، جو چیز ہم سمجھ نہیں پا رہے وہ یہ کہ قدیم زندہ اسی صورت رہے گا جب کوئی جدت کا پانی اس میں شامل ہوتا رہے گا، جدت نہیں تو قدیم بھی اپنی بدبو میں دفن ہو جائے گا۔
وہ تمام دانشور جو بار بار قدیم کی طرف واپس لوٹنے کی تبلیغ کرتے ہیں انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جڑ کے ساتھ رشتہ تب ہی مضبوط رہے گا جب درخت پہ نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہوں گی، نئی کونپلیں نہیں تو درخت کو دیمک چاٹ جائے گی اور درخت کا حال پھر سلمان علیہ السلام کی لاٹھی والا ہوگا ۔
ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم برائی کا مقابلہ اچھائی سے نہیں بلکہ کم برائی سے کرتے ہیں ، بدصورتی کے متضاد ہم خوبصورتی کو نہیں بٹھاتے بلکہ کم بدصورت چیز کو اس کا متضاد سمجھتے ہیں ، کرپٹ کے مقابلے ایماندار کا نہیں بلکہ کم کرپٹ کا انتخاب کرتے ہیں، یوں کم برائی، کم بدصورتی اور کم کرپٹ افراد ایک مثبت روپ دھار لیتے ہیں، ہمارے ہاں ٹرینڈ یہی بن چکا ہے کہ جو قدامت میں ابھی گردن تک نہیں، فقط گھٹنوں تک دھنسا ہوا ہے اسے ہی نیا سمجھا جاتا ہے اور یہ بڑی غلط فہمی ہے اور ہم عرصے سے اسی غلط فہمی میں جی رہے ہیں۔
فرانسیسی زبان میں محبت کے اظہار کیلئے جملہ یوں استعمال کیا جاتا ہے
" میں محبت کے ساتھ تم سے محبت کرتا ہوں "
گویا کہ محبت کے بغیر بھی محبت کی جا سکتی ہے؟
جی ہاں، کسی شخص سے محبت اپنی کسی خواہش کی بنیاد پہ کی جا سکتی ہے، اپنے اندرونی خلا کو بھرنے کیلئے محبت کی جا سکتی ہے، بوریت یا مایوسی کی وجہ سے بھی محبت ہو سکتی ہے،،،، لیکن فرانسیسی اظہاریہ بتا رہا ہے کہ فقط محبت کی بنیاد پر محبت ہی اصل محبت ہے۔
ہم کسی بھی خیال کو اپنے ذہن میں کس لئے جنم دیتے ہیں؟ زیادہ تر فراغت کی وجہ سے سوچتے ہیں، کبھی مایوسی میں سوچتے ہیں، کبھی کسی پریشانی یا اضطراب میں سوچتے ہیں، ایسے میں ہم سوچتے تو ضرور ہیں لیکن دراصل یہ ہم نہیں سوچ رہے ہوتے بلکہ ہمارے اندر بیٹھی یہ فراعت، مایوسی یا اضطراب سوچ رہا ہوتا ہے، کوئی خوشی ہو سکتی ہے جسے پا کر آپ کی سوچ کو بظاہر پر لگ جائیں لیکن یہ سوچ اس خوشی کی ہے، ان میں سے کوئی بھی خیال آپ کا نہیں ۔ یعنی کہ کوئی جذباتی کیفیت آپ کے خیال کو اغواء کر کے اپنی کسی طے شدہ سمت لے جاتی ہے۔ ایسے میں کچھ نیا سامنے نہیں آ پاتا کہ ہر وہ جذباتی کیفیت جس سے آپ گزر رہے ہیں ہر بڑا آدمی اس سے گزر چکا ہے اور اپنے الفاظ میں اسے درج کر چکا ہے۔
لیکن یہاں پھر سوال یہ ہے کہ صرف تخیل کیلئے تخیل کو کیسے پیدا کیا جائے، کیا کسی کیفیت کے بغیر بھی تخیل کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنسی خواہش کے بغیر بھی محبت ہو سکتی ہے، اگر جنسی خواہش کا لفظ سخت ہو تو محبوب کا وصل کہہ لیجئے ، یا اگر وصل کا لالچ بھی نہیں تو محبوب کے چہرے کی خوشی تو کہیں نہیں گئی ، اس کی بھلائی اور خیر کا مطلوب تو ہر عاشق رہتا ہے، یا پھر کم از کم اپنا اندرونی سکون اور طمانت، یعنی کوئی تو لالچ ہے جو محبت کو جنم دے رہا ہے، اسی طرح کوئی تو کیفیت ہونی چاہئے جو تخیل کو پیدا کر سکے۔
یہی سب سے اہم اور سب سے مشکل سوال ہے ، تخیل کا جہاں تک معاملہ ہے تو اس کا جنم شعور سے ہو تو کچھ نیا تخلیق کیا جا سکتا ہے، جب تک تخیل نفسیات تک محدود رہتا ہے نئی تخلیق نہیں ہو سکتی، نفسیات انسانی شخصیت میں ایک درجہ نیچے کی چیز ہے، یہ کیفیات اور ماحول سے جڑی ہے، زمان اور مکان کی قید میں ہے، شعور مگر ان کیفیات سے بلند ہے، زمان و مکان سے آزاد ہے، یہی شعور ہی کسی نئے خیال کو جنم دے سکتا ہے۔