پردیس کے مسائل ۔۔ منصور ندیم

پردیس میں کچھ ایسے واقعات دیکھے ہیں جو کبھی کبھی بڑا دکھ دیتے ہیں۔ میں اکثر پاکستانی سستے ہوٹلوں پر بھی جاتا ہوں جہاں پر زیادہ تر لیبر طبقہ کھانا کھاتا ہے، میں نے چند دن پہلے ایک ایسے ہی ہوٹل پر چار افراد کو دیکھا، جنہوں نے دو چائے کا ارڈر دیا اور دو کپ علیحدہ سے منگوائے اور پھر جب ان کو چائے سرو کی گئی، تو انہوں نے انتہائی بدتمیزی سے اس ویٹر کو کہا تم جان بوجھ کر ہمیں کم چائے دیتے ہو۔ ویٹر نے بھی جوابا کہا کہ تم چار آدمی ہو کیا اب تم چاہتے ہو کہ میں دو چائے کی قیمت میں تمہیں چار کپ بھر کر دوں؟ یہ معاملہ جھگڑا بن گیا۔ میں قریبی بیٹھا کھانا کھا رہا تھا جھگڑا اتنا بڑھ گیا تھا کہ اب لڑائی والا معاملہ بن گیا تھا۔ تو لوگ پنجابی اور سرائیکی لہجے میں لڑ رہے تھے، مجھے لگا کہ اب بات کر لینی چاہیے ورنہ یہ لوگ شاید لڑ ہی پڑیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی کیا ہو گیا کیوں اتنی سی بات پر لڑ رہے ہو، میں نے ویٹر سے کہا یار جاؤ دو چائے اور لا کر کے دو انہیں۔ 

ویٹر کو وہاں سے ہٹنا پڑا ظاہر ہے لڑائی کا ایک فریق تو چلا گیا لیکن اب یہ چاروں افراد مجھے کہنے لگے، یہ ہمارے ساتھ ایسا کرتا ہے، میں نے کہا، یار آپ بھی تو ایک بات سمجھیں کہ یہ بیچارہ بھی یہاں پر مزدوری کر رہا ہے، اس کے ساتھ محبت سے معاملہ کریں گے تو وہ خیال رکھیے گا۔ ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہم اس کے روزانہ کے کسٹمر ہیں۔ ادھر تھوڑے سے دور فاصلے سے ویٹر نے اس دفعہ جواب دے دیا کہ " اوہ ہمیں ایسے کسٹمر نہیں چاہیے، جنہیں دو چائے کے ساتھ دو علیحدہ کپ بھی چاہیے اور پھر وہ ہمیں باتیں بھی سنائیں". مجھے اندازہ تھا کہ یہ معاملہ بڑھ جائے گا اس لیے میں نے فورا سے پہلے ویٹر سے کہا اچھا ان کے لیے چار پانی کی بوتلیں بھی لا کر کے دو۔ یہ سارا واقعہ صرف اس لیے سنایا کہ یہ معاملہ حل ہو گیا تھا دونوں فریقین راضی ہو گئے تھے صرف مجھے یہ کرنا پڑا کہ پانی اور چائے کا بل میں نے ادا کر دیا۔ ضروری نہیں تھا کہ لڑائی بڑھ جاتی، مگر حالات ایسے ہی تھے کہ لڑائی بڑھ سکتی تھی۔ 

یہ ایک واقعہ ذرا تفصیل سے لکھ دیا ورنہ میں نے اس سے ملتے جلتے کئی ایک واقعات یہاں پر دیکھے ہیں، دو سے تین افراد ایک سالن منگا کر کے کھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ برابر جب روٹیاں منگواتے ہیں تو ہوٹل والے کہتے ہیں کہ اتنی روٹیاں ایک سالن کے ساتھ نہیں آتیں، اس بات پر بھی لڑائی ہو جاتی ہے، ہمارے گھر کے پاس ایک افغانی تندور ہے اس پر بھی اکثر مزدور طبقہ بھی روٹیاں لینے آتا ہے وہ اس سے اس بات پر بھی لڑتا ہے کہ تم روٹیاں اتنی چھوٹی لگانے لگے ہو کہ پہلے ہم ایک ریال کی ایک روٹی میں پیٹ بھر لیتے تھے لیکن اب دو روٹیاں کھانی پڑتی ہیں۔ یہ اور اس جیسی کئی لڑائیاں میں نے یہاں مزدور طبقے کو ایک یا دو ریال کے لئے لڑتے دیکھا ہے۔ کئی مزدور طبقے کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے، جس میں وہ اپنا بجٹ کنٹرول کر کے اپنے یہاں کے اخراجات مینج کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے اپنے گھر والوں کو بھیج سکیں۔ 

اب مجھے نہیں پتہ کہ یہ باتیں کتنے لوگ دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہوں گے، ورنہ کئی لوگوں کو یہاں پر صرف پردیس میں خصوصا سعودی عرب یا گلف ممالک میں اگر بہت زیادہ پیسے کماتے لوگ ہی نظر آتے ہیں، جو اچھی اؤٹنگ کرتے، اچھے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے، اچھے لائف سٹائل کے ساتھ زندگی گزارتے نظر اتے ہیں، تو ان کے مقابل ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو ایک ایک ریال بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کثرت سے موجود ہیں۔۔ ان کے حالات دیکھ کر دل رنجیدہ ضرور ہوتا ہے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !