صدا بہ صحرا ۔۔ شاہین کمال

میں بہت کم گو اور خود میں مگن رہنے والی عورت ہوں ، جلد دوست نہیں بنا پاتی. کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ اتنی طویل عمر میں میری دوستیں چھنگلی کی پوروں سے بھی کم ہیں. میرا ذہن پورا پیراگراف بولتا ہے پر منہ سے بمشکل ایک ٹھٹھرا بسہ ہوا جملہ ادا ہوتا ہے. بینک میں میری علیک سلیک ڈپارٹمنٹ میں سبھی سے تھی کھانا بھی کینٹین میں ہم آٹھ خواتین ساتھ ہی کھاتی تھیں مگر "دوست" جس سے فریکوئنسی میچ کرتی ہو، جس سے دل کی کہی سنی جاتی ہو ایسی کوئی نہ تھی.

میں مسرت عثمانی، میں نے جامعہ کراچی سے معاشیات میں پوسٹ گریجویشن کی تھی اور مقامی بینک سے ابھی حال ہی میں فارغ ہوئی ہوں. اتنی مصروفیت کے بعد یک دم سے اتنا بڑا بے مصرف اور ڈھنڈر دن گزارنا بہت مشکل ، وقت کاٹے نہ کٹتا . بہو کو کچن میں میری مداخلت پسند نہ تھی، کچن تو خیر کیا! در حقیقت اسے گھر میں کہیں بھی میری دخل اندازی گراں. ظاہر ہے اپنے راج سنگھاسن میں ساجھے داری کس کو بھاتی ہے؟ میں اپنی حدود ہی میں رہتی ہوں اور بہت ہی کم دخل در معقولات کرتی تا کہ معاملات خراب نہ ہوں .

سچ تو یہ ہے کہ مجھے جوانی میں بھی باورچی خانے سے کوئی ایسا شغف یا انس نہ تھا بس مجبوری کا نام شکریہ. دراصل ہم دو ہی بھائی بہن تھے اور میں پڑھنے کی از حد شوقین. سو امی نے بہت لاڈ سے پالا اور پڑھائی پر ہی توجہ مرکوز رکھنے کی تاکید کی . مجھے گھرداری آتی ضرور ہے اور احسن طریقے سے نبھائی بھی مگر ذمہ داری سمجھ کر شوق اور للک کے ساتھ نہیں. 
ماسٹر کرتے ہی شادی ہو گئی . میاں بھی بینکر تھے مگر مزاجاََ دو جمع دو پانچ . پیسے کو دانتوں سے پکڑنے اور دھنیا پودینہ کا حساب رکھنے والے. وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ میری تنخواہ کا بھی پورا پورا حساب رکھا کرتے تھے . ہمارا مشترکہ اکاؤنٹ تھا . میری ذمہ داری بس اکاؤنٹ میں پیسہ ڈالنے کی حد تک تھی، اکاؤنٹ پر دسترس میاں سرکار کی. میں تو اپنی تنخواہ بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کی مجاز نہ تھی. بینک اور گھر دونوں جگہ بیلنس شیٹ کو متوازن کرتے کرتے میں کب غیر متوازن ہوئی، پتہ ہی نہیں چلا . شاید ہم دونوں ہی میں برداشت کا فقدان بھی تھا . ہم نے باوجود غیر متوازن پہیوں کے زندگی کی گاڑی کو کھنچنے کی کوشش تو بہت کی مگر جلد ہی دم ہار گئے سو یہ حسابی کتابی سفر جلد ہی اختتام پذیر ہوا. بیٹے کی خاطر میں نے حق مہر معاف کر کے پلے سے دو لاکھ مزید دیے اور بدلے میں اپنے بیٹے جبران کے کل حقوق اپنے نام کیے . میاں سرکار کے بھی مانو "بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا"، انہوں نے دوبارہ چھیل چھبیلے بن کر زیرو میٹر سے نئے ہمسفر کے ساتھ زندگی شروع کر دی.
 مرد یادداشت کے معاملے میں کمال ہوتا ہے، کبھی بھی ماضی کا بیگج یاد اور ساتھ نہیں رکھتا . رہا میرا معاملہ تو دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے کہ مصداق اس دشت کی سیاحی(شادی) ہی سے توبہ کر لی.
ہمارا معاشرہ بھی خوب ہے، وہ بیوہ پر تو پھر بھی ترس کھا لیتا ہے لیکن طلاق یافتہ کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتا . کوئی بھی کہیں بھی آپ سے آپ کے کردار کا صداقت نامہ مانگ سکتا ہے بلکہ آپ کے کلین شیٹ ہونے پر بھی عموماً لوگ آپ کے خلاف ایک خفیہ گمانِ بد ضرور رکھتے ہیں. آپ سے دل لگی تو گویا ان کا حق ہی ٹھہرا .
جب تک ماں باپ حیات رہے زندگی گوارا تھی . امی نے طویل زندگی اور تنہائی کے مضمرات سے آگہی دی اور بہت سمجھایا بھی مگر اس وقت، میں اپنی ساری توانائی اور صلاحیت جبران کو پالنے پوسنے پر خرچ کر رہی تھی. ان کی نصیحت پر کان دھرنے کو جی آمادہ ہی نہیں ہوا کہ ماضی کا تجربہ بھی کچھ اتنا تلخ تھا کہ گویا 

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے 
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے 

اس وقت سوچا ہی نہیں تھا کہ تنہائی ڈس بھی سکتی ہے.
جبران ہی میری کل کائنات تھا اور ذہن میں یہی رہا کہ جب اس کے سگے باپ نے نہیں پوچھا تو سوتیلے باپ سے کیا امید؟ بس اسی سوچ کے سرے کو پکڑ کر میں نےاپنا تن، من اور دھن سب جبران پر نچھاور کر دیا . میری مختصر سی دنیا بیٹے سے شروع ہو کر بیٹے پر ہی ختم تھی۔ بیٹے کو پڑھایا لکھایا اور اس کی پسند کو خوش دلی سے بہو بنا کر گھر اس کے حوالے کر دیا . میری بے رنگ زندگی وقت کی پر پیچ گھاٹی سے گذرتی رہی۔ اب بیٹے کی ترجیحات بدل چکیں تھیں کہ اس کے اپنے دو بیٹے اور میں اس سیٹ اپ میں خاصی مس فٹ سی. 

جب تک بینک کا شغل تھا زندگی لگے بندھے معمول پر چلتی رہی. ساری خرابی اس ناہنجار ریٹائرمنٹ نے پیدا کی. اسمارٹ فون نے جہاں بہت آسانیاں فراہم کیں ہیں وہیں کچھ چور دروازے بھی کھول دیے ہیں . اب وقت گزارنا درد سری نہیں بلکہ مثبت طریقے سے وقت کی تقسیم ایک مشکل امر ٹھہرا . فون کے ساتھ یاری اور وقت گزاری بینک کے دنوں میں بھی تھی پر کم کم . اب جو فرصت کا دورانیہ طویل تر تو مانو فون ہمزاد ہوا. فیس بک پر کافی لوگ ایڈ اور ڈیلیٹ ہوئے. ایک دوسرے کی پوسٹ پر ہوتے تبصرے اور تزکرے سے ہوتے ہوتے ایک صاحب "دبیر الحسن" میری سوچ سے نسبتاً قریب ہوئے. ان کے تبصرے علمی ہونے کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی بھی رکھتے تھے . ہم دونوں پوسٹ پر کیے گئے تبصروں سے کب میسنجر پر روزمرہ کی بول چال میں داخل ہوئے احساس ہی نہیں ہوا. گفتگو کا دورانیہ بڑھتا چلا گیا اور دکھ سکھ کرتے کرتے دوری مٹ سی گئی . 

دبیر الحسن محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہوئے تھے اور اپنی بیگم کے والا و شیدا بھی . ان کی بیگم ندرت جہاں کھلکھلاتی ہوئی زندگی سے بھرپور پارے کی مانند متحرک شخصیت تھیں. وہی بات کہ موت سے کس کو رستگاری ہے. اس چہچہاتی مینا کو پندرہ سال پہلے موت نے اسیر و ساکت کیا . موت بھی کب بخشتی ہے وہ ڈائن تو بس ہڑپتی ہی ہے. 
ان کے دو ہی بچے ہیں، بڑا بیٹا حماد آرمی میں میجر اور آج کل لاہور میں پوسٹیڈ. چھ سال پہلے بیٹی رحمہ کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تھے.  
دبیر الحسن تنہائی کا شکار اپنی بیٹی رحمہ کی شادی کے بعد ہوئے اور مداوا ٹھہرا انٹرنیٹ. چونکہ شعبہ تعلیم سے منسلک رہے تھے لہذا نستعلیق تو تھے ہی ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کا شوق اور ذوق بھی رکھتے تھے. دیکھتے ہی دیکھتے شوشل میڈیا کی جانی مانی شخصیت بن گئے. ان کے مضامین اور آرٹیکل واقعی سوچ کے در وا کرتے اور عام چیزوں کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی بصیرت بھی عطا کرتے تھے . 

پرسو شام کی چائے پر مجھے جبران نے اپنی ترقی کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ اسلام آباد تبادلے کا بھی بتایا اور یہ بھی کہ اب ہم سب کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہو جائیں گے. بیٹے کی ترقی کی خوشخبری کے ساتھ ہی دوسرا خیال جو میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ "ارے! دبیر بھی تو اسلام آباد میں رہتے ہیں"
اور میں اس خیال کے آتے ہی سن ہو گئی.
یہ خیال کیوں آیا مجھے؟
اس دن جو خود کو ٹٹولا تو بھید کھلا کہ جس تعلق کو میں اتنا سادہ اور سرسری سمجھ رہی تھی وہ اس قدر سطحی نہ تھا . میں اپنے دل کی کیفیت پر دھک رہ گئی!! 
میں نے بڑی چوکنی اور محتاط جوانی گزاری تھی . میرے صبر کی ردا میں ایک بھی پیوند نہیں تھا . 
پھر اب کیا ہوا؟
اس عمر میں کہاں اور کیسے لڑکھڑائی؟
میں نے یہ کیسے فراموش کر دیا تھا کہ نفس کا اژدھا کبھی بھی انگڑائی لیکر بیدار ہو سکتا ہے، ڈس سکتا ہے؟ حیرت کہ تا دیر میں اپنے اندر اگتے سبزے سے کیسے بےخبر رہی ؟
بدقت میں نے شعوری کوششوں سے دبیر سے چیٹ میں کمی کی اور ان سے اپنے بیٹے کی اسلام آباد پوسٹنگ کا ذکر بھی نہیں کیا. 

اسلام آباد، کراچی والوں کے لیے ویسا ہی سحر آفریں جیسے تھر والوں کے لیے نخلستان . یہاں اس قدر ہریالی اور شادابی کہ بیان سے باہر . تراوٹ اور سبزے نے روح کو تروتازہ کر دیا. قدرت اسلام آباد پر بےطرح فیاض . گو اسلام آباد کا موسم ، رویہ، لوگ اور طور طریقے سب کچھ کراچی سے بہت مختلف تھا. میرے لیے زیادہ فرق یوں نہیں کہ میرا باہر کی دنیا سے واسطہ برائے نام ہی رہتا . میں تو موسم اور پہاڑوں کے حسن کی اسیر تھی. ان دنوں کچھ دل بھی خوش گمان تھا سو زندگی تتلی کے پروں کی طرح ملائم اور رنگین محسوس ہوتی. اندر کی بھید بھری دنیا بھی اپنے کشف دھیرے دھیرے منکشف کرتی ہے، انسان تحیر زدہ اور مسحور رہ جاتا ہے. 

ڈی. ایچ. اے میں واقع یہ بڑی دیدہ زیب اور آرام دہ کوٹھی تھی. یہ جبران کے دوست کے ماموں برگیڈیر ولید کی تھی. وہ دو تین سالوں کے لیے اپنی بیٹی کے پاس آسٹریا جا رہے تھے. انہوں نے بہت ہی معمولی کرائے پر جبران کو یہ کوٹھی دے دی . برگیڈیر صاحب کو دراصل اپنی کوٹھی کے لیے کوئی بھروسے کا بندہ چاہیے تھا، جبران کی صورت انہیں بھروسے کا بندہ مل گیا اور ہم لوگوں کو نہایت مناسب کرائے پر شاندار کوٹھی دستیاب ہوئی .
میرے کمرے سے متصل شترنجی ٹائیلوں سے آراستہ مستطیل برآمدا تھا. برآمدے سے دو سیڑھیاں اتر کر ہریالی کا ایک خوشنما قطعہ جہاں ایک اکیلا املتاس کا درخت ایستادہ. وہ درخت اپنے حسن اور اکلوتے پن کے سبب مجھے بہت متاثر کرتا . میرا زیادہ تر وقت اسی پچھلے برآمدے میں روکنگ چیر پر کتابیں پڑھتے گزرتا. اسلام آباد میں ان دونوں بہار اپنے جوبن پر تھی فضا خوشبو سے بوجھل اور باغ کا وہ قطعہ مسحور کن تھا . 

ایک شام جبران کے کولیگ نے کھانے پر بلایا تھا. جبران کا فون چارج نہیں تھا سو اس نے GPS کے لیے میرا فون مانگا. اس طرح دبیر کے علم میں یہ بات آئی کہ میں اسلام آباد میں ہوں، میں ہمیشہ اپنی لوکیشن آف رکھتی تھی . ان کے پوچھنے پر جب میں نے جبران کے تبادلے کا بتایا تو انہوں نے بہت خوشی اور حیرانگی کا اظہار کیا. وہ بھی ڈی. ایچ. اے ہی میں کہیں رہتے تھے. دو تین دن کے بعد دبیر نے ملنے کی خواہش کا اظہارِ کیا اور کہا کہ انہیں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں جو بالمشافہ ہی ممکن ہیں. ان کے اصرار پر میں انکار نہ کر سکی کہ میرے دل کی بھی یہی آرزو تھی، سو ملنے کی ہامی بھر لی. انہوں نے میری سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے Cafe Burning Brownie
میں مدعو کیا جو میرے گھر سے قریب ہی تھا اور میں وہاں جبران کے ساتھ جا چکی تھی. 

بدھ کے دن گیارہ بجے میں کیفے پہنچی. مجھ پر ایک گھبراہٹ اور ہیجانی کیفیت طاری تھی. میں بظاہر خود کو کمپوز رکھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی گو کہ میرے دل کی دھمک میرے کانوں میں گونج رہی تھی. کیفے پہنچے مجھے آدھ گھنٹے سے اوپر ہو چلا تھا پر دبیر کا کہیں پتہ نشان نہ تھا. دو دفعہ اپنے پرس پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے میں واپسی کے ارادے سے اٹھی اور دونوں ہی بار میرا دل اس فیصلے کے آڑے آیا۔ آخر سوا بارہ بجے میں کیفے سے باہر آ گئی اور پارکنگ میں مزید دس منٹ انتظار کیا.
میرا خجالت اور وسوسے سے برا حال تھا . دبیر اس قدر معقول آدمی تھے کہ ان سے وعدہ خلافی کی توقع نہیں تھی. گھر واپسی پر ہمت کر کے انہیں میسج بھی کیا مگر جواب ندارد . 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اپنے جذبات پر میں خود حیران ہوں . میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں ندرت کے علاوہ کسی کو چاہ سکتا ہوں! اس کی موت نے مجھ سے جینے کی امنگ چھین لی تھی. وہ تو بھلا ہو بیٹی رحمہ کا جس نے مجھ اپنے میں الجھا کر پھر زندگی کی طرف کھینچ لیا. رحمہ کی شادی کے بعد میں بہت تنہا ہو گیا تھا. دوسراہٹ کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا اور لکھنا لکھانا شروع کر دیا . نیٹ پر جہاں کافی لوگوں سے جان پہچان بڑھی وہیں مسرت عثمانی سے بھی تعارف ہوا . آرٹیکل اور مضامین پر ہوتے تبصروں سے بات چیت کا آغاز ہوا اور جانے کیسے ان سے ایک قربت اور اپنائیت کا رشتہ بنتا چلا گیا . جس دن ان سے بات نہ ہوتی طبیعت میں ایک بےکیفی اور اضمحلال رہتا. مجھے اب تنہائی کھلنے لگی تھی اور میں نے مسرت سے بات کرنے کی ٹھانی. یہ بھی اچھا تھا کہ وہ بیٹے کی فیملی کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہو گئی تھیں . مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا جواب دیں گی مگر میں قسمت ضرور آزمانا چاہتا ہوں۔ بدھ کے روز ان سے
cafe burning brownie
میں گیارہ بجے ملاقات طے ہوئی ہے. حیران کن بات کہ میں کسی نوجوان لڑکے کی طرح نروس اور حدت جذبات سے تپ رہا ہوں.
یہ رات کسی طور کٹے تو صبح ہو.
صبح ہو تو دید ہو. 
صبح ناشتے سے فارغ ہو کر عرصے بعد میں بہت اہتمام اور لگن سے تیار ہوا. گل دستہ اور کتاب میں رات ہی لے آیا تھا . رات مضطرب ہی گزری کہ کسی پہلو قرار نہ تھا . مسرت کے جواب کے وسوسے نے بے دم کیے رکھا اور میں امید و بیم کے مابین معلق .
ابھی میرا ہاتھ گاڑی کے دروازے کو ان لاک ہی کر رہا تھا کہ مجھے لگا کہ میری آنکھوں کے آگے پھلجھڑیاں جل رہی ہیں، انار پھوٹ رہے ہیں . میں.....میں... زمین پرگرتا چلا گیا اور میرا ذہن مکمل تاریکی میں ڈوب گیا. 

جب میری آنکھیں کھلی تو اجنبی ماحول تھا اور میں کسی کو بھی پہچانے سے قاصر. بے بسی کی انتہا کہ اپنے جسم کو ہلانے پر بھی قدرت نہیں رکھتا تھا. میری حسیات نے رحمہ کے لمس کو شناخت کر لیا . یہ میرے سامنے رحمہ کھڑی تھی میں حال میں لوٹ آیا . میں خفیف حرکت سے بھی معذور تھا اور پوری قوت صرف کرنے کے باوجود بھی بولنے سے قاصر .
رحمہ نے مجھے بتایا کہ میرا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا. مجھے میرے پڑوسی محمود قریشی بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال لائے اور محمود ہی نے حماد کو اطلاع دی تھی.
رحمہ نے مجھے یہ خبرِ بد دی کہ مجھے پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور آج مجھے اسپتال میں نواں دن ہے .یہ انکشاف جان لیوا تھا.
میرا اپنا آپ میرے پنجر میں یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے اندھی ابابیل کنوئیں کی دیواروں سے سر پھوڑتی پھرتی ہے. میں ایک ٹک رحمہ کو اور اس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھتا رہا، شاید میری بھی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے کہ رحمہ کبھی ٹیشو اور کبھی اپنے ڈوپٹے سے مسلسل میرا چہرہ پونچھ رہی تھی. میرے پائنتی پہ کھڑے حماد کا چہرہ شدت ضبط سے سیاہ ہو رہا تھا۔
میں صرف ایک بات سوچ رہا تھا کہ فالج بجائے جسم کے ذہن پر گرتا تو کتنا اچھا ہوتا، میں کم از کم بے بسی اور معذوری کہ اس سفاک اور جان لیوا احساس سے تو عاری ہوتا . آگے کی بےکس و بےبس زندگی کا تصور ہی سوہان روح تھا ۔ جانے کیوں میرے ذہن میں مستقل نو دن کا فقرہ گردش کرتا رہا پھر ایک نام جھماکے کی طرح روشن ہوا "مسرت"!!.
 میرا دل درد سے بھر گیا. 
بہت سارے سوال ذہن کے پردے سے ٹکرا کر آنکھوں تک آئے مگر رحمہ اور حماد ان سوالات کو بوجھنے سے قاصر تھے . 
درد بھی شاید گونگا ہوتا ہے.
زبان میری بند ہے. بس آنکھوں سے رواں سیلِ اشک ہے جو بے بند .
انسان کس قدر بے بس، فقط ایک بے فیضا خاکی پتلا . 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پندرہ دن ہو گئے ہیں دبیر الحسن کا کوئی میسج نہیں آیا. ان کا کوئی پتہ نشان نہیں . ان کا فون بھی مستقل بند جا رہا ہے . دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ میرے ساتھ بھیانک مذاق ہوا ہے . دل ابھی بھی ان ہی کا ہمنوا ہے. آج میں نے بڑی ہمت کر کے فون کی سم ڈسٹ بن میں پھینک دی .
اب میں نے ورچوئل دنیا سے مکمل طور پر ناطہ توڑ لیا . میرے دل میں تنہائی کا ڈیرا ہے. املتاس کے زرد پھول، جو کچھ دن پہلے تک خوشی کے پیغام بر لگتے تھے، اب کسی حسین دوشیزہ کے زرد گالوں پر ڈھلکتے آنسوؤں کے مشابہ ہیں . دل کی دنیا کیا اجڑی آنکھوں کی جوت ہی بجھ گئی اور دنیا بے رنگ ہوئی۔۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !