حقیقت سے فرار۔ ادریس آزاد

اکیڈیمیا کے ساتھ جڑے ہوئے کچھ بڑے پروفیسروں کا تیزی سے یہ مؤقف بنتاجارہاہے کہ یہ دنیا صرف ذہنی (mental) ہے۔حقیقت کی آگہی ناممکن ہے اور اگرممکن ہوتی تو زندگی ممکن نہ ہوتی۔ ان کا آرگومنٹ یہ ہے کہ نظریۂ ارتقأ کی رُو سے ہمیں جو حواس اور شعورملا ہےیہ سروائیول کے لیے ہے نہ کہ سچائی جاننے کے لیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جو آلات ِ پیمائش میسر آئے ہیں، یہ صرف اس مقصد کے لیے ہیں کہ ہم حقیقی دنیا سے موصول ہونے والے ارتعاش، محرکات اورمہیجات(stimulie) کی کچھ اس طرح تشریح کرسکیں کہ جو ہمارے جینے کے لیے کافی ہو۔اورچونکہ بیرونی کائنات میں اینٹروپی(پیہم انتشار) ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ اس تمام تراتنشارکو سمجھنے اور اس کے ساتھ ڈِیل کرنے کے لیے ہمارا دماغ تیارہو۔چنانچہ ہمارا دماغ جب بیرونی محرکات کووصول کرتاہے تو ان کو ایک مصنوعی ترتیب میں لاتاہے۔اوردماغ کا یہی عمل ترتیب و تشکیلِ تصورات ہی دراصل حقیقی کائنات کی واقعی کائنات میں اِنٹرپریٹیشن کا عمل ہے۔

یہ خیال موجود تو کانٹ کے وقت سے ہے اور ہمیشہ ہی تجسس کے ساتھ دیکھا اورپڑھاگیاہے لیکن فی زمانہ یہ خیال پہلے کی نسبت زیادہ مقبول ہوچکاہے۔ خصوصاً جب فزکس کے کچھ نظریات نے مافوق الفطرت قسم کے تصورات متعارف کروانا شروع کیے، تب سے۔ فزکس کے مافوق الفطرت نظریات میں متوازی کائناتوں یا ہالوگرافک پرنسپل کا نظریہ خاصا مشہورہے۔ ’’ایسے عجیب و غریب اورمذہبی نظریات سے بھی زیادہ مافوق الفطرت نظریات کی موجودگی میں شعوری سائنسز کے ماہرین کو زیادہ بہتر محسوس ہوتاہے کہ وہ کائنات کو سچ مچ مادی ماننے کی بجائے فقط ذہنی مان لیں‘‘، یہ الفاظ ہیں برنارڈو کاسترپ کے۔

اکیسویں صدی کا پہلا ربع گزرچکاہے۔ان پچیس سالوں میں اکیڈیمیا اور سائنسی اداروں میں جو انقلاب واضح طورپر نظر آرہاہے، وہ ہے’’سائنس کی آرتھوڈوکسی‘‘ کی شناخت کا انقلاب۔ جس طرح مذہب کی آرتھوڈوکسی ہوتی ہے اور اس کی موجودگی میں آزاد ذہن کے لیے سانس لینا مشکل ہوجاتاہے، گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں عروج پر رہنے والی سائنس کی آرتھوڈوکسی اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی چیلنج ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اور اب تو ڈینس نوبل اور مائیکل لیون جیسے بڑے سائنسدان سرعام میڈیا پر کہتے ہیں کہ ’’نیوڈارونزم‘‘ بُری طرح پسپائی کا شکارہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے، آج سے دس پندرہ سال پہلے فیس بک پر گویا ایک جنگ کا سا سماں ہوتا تھا۔ سائنس کی آرتھوڈوکسی کے بڑے بڑے سائنسی کاہن پیدا ہوچکے تھے جو بات بات پر کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کا زورکم ہوتا گیا اور ایک نئی طرح کے لبرل سامنے آنا شروع ہوئے، جو مذہب پر تو اعتراض کرتے ہیں لیکن سائنس میں اتنے متشدد نہیں ہیں جتنے میری عمر کے کچھ پرانے ملحدین ہیں۔ اوراس کی وجہ میری نظر میں تو یہی اکیسویں صدی میں پیش آنا والا شعوری سائنسز کا انقلاب ہے۔ اور اس پر مستزاد اب مصنوعی ذہانت کے آئے روز کے کارنامے ہیں جنہوں نےعقل، ذہانت، شعور اور احساس کو گویا ہر قسم کی سائنس سے بڑا موضوع بنادیاہے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !