یہ خیال موجود تو کانٹ کے وقت سے ہے اور ہمیشہ ہی تجسس کے ساتھ دیکھا اورپڑھاگیاہے لیکن فی زمانہ یہ خیال پہلے کی نسبت زیادہ مقبول ہوچکاہے۔ خصوصاً جب فزکس کے کچھ نظریات نے مافوق الفطرت قسم کے تصورات متعارف کروانا شروع کیے، تب سے۔ فزکس کے مافوق الفطرت نظریات میں متوازی کائناتوں یا ہالوگرافک پرنسپل کا نظریہ خاصا مشہورہے۔ ’’ایسے عجیب و غریب اورمذہبی نظریات سے بھی زیادہ مافوق الفطرت نظریات کی موجودگی میں شعوری سائنسز کے ماہرین کو زیادہ بہتر محسوس ہوتاہے کہ وہ کائنات کو سچ مچ مادی ماننے کی بجائے فقط ذہنی مان لیں‘‘، یہ الفاظ ہیں برنارڈو کاسترپ کے۔
اکیسویں صدی کا پہلا ربع گزرچکاہے۔ان پچیس سالوں میں اکیڈیمیا اور سائنسی اداروں میں جو انقلاب واضح طورپر نظر آرہاہے، وہ ہے’’سائنس کی آرتھوڈوکسی‘‘ کی شناخت کا انقلاب۔ جس طرح مذہب کی آرتھوڈوکسی ہوتی ہے اور اس کی موجودگی میں آزاد ذہن کے لیے سانس لینا مشکل ہوجاتاہے، گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں عروج پر رہنے والی سائنس کی آرتھوڈوکسی اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی چیلنج ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اور اب تو ڈینس نوبل اور مائیکل لیون جیسے بڑے سائنسدان سرعام میڈیا پر کہتے ہیں کہ ’’نیوڈارونزم‘‘ بُری طرح پسپائی کا شکارہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، آج سے دس پندرہ سال پہلے فیس بک پر گویا ایک جنگ کا سا سماں ہوتا تھا۔ سائنس کی آرتھوڈوکسی کے بڑے بڑے سائنسی کاہن پیدا ہوچکے تھے جو بات بات پر کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کا زورکم ہوتا گیا اور ایک نئی طرح کے لبرل سامنے آنا شروع ہوئے، جو مذہب پر تو اعتراض کرتے ہیں لیکن سائنس میں اتنے متشدد نہیں ہیں جتنے میری عمر کے کچھ پرانے ملحدین ہیں۔ اوراس کی وجہ میری نظر میں تو یہی اکیسویں صدی میں پیش آنا والا شعوری سائنسز کا انقلاب ہے۔ اور اس پر مستزاد اب مصنوعی ذہانت کے آئے روز کے کارنامے ہیں جنہوں نےعقل، ذہانت، شعور اور احساس کو گویا ہر قسم کی سائنس سے بڑا موضوع بنادیاہے۔