تیمور حسن تیمور مرحوم سے یاد اللہ تو کئی سالوں پر محیط تھی مگر ملاقات کا بہانہ اکثر محافلِ مشاعرہ ہی بنتیں ۔ اس سے آخری ملاقات یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے مشاعرے میں ہوئی ۔ تیمور بلند آہنگ شاعر تھا اور اپنی اس بلند آہنگی سے مشاعرے بھی لوٹا کرتا تھا ۔ جب وہ مشاعرہ پڑھتا تو یوں محسوس ہوتا کہ شعر کا مزاج بے ساختگی کے ساتھ خود نمایاں ہو رہا ہے۔ مشاعرہ پڑھنے کا انداز ایسا پرسوز اور بلند ہوتا کہ جیسے کوئی شخص داد رسی کے لیے دہائی دے رہا ہو یا ڈار سے بچھڑی ہوئی کوئی کونج ہجر کا گیت گا رہی ہو ۔ سامعین پورے فہم کے ساتھ داد دینے پر مجبور ہو جاتے( وہ اپنے دوست شعراء سے ہنستے ہوئے کہا کرتا تھا کہ مشاعرے میں آدھی داد تو میں اپنی حلیے سے لے جاتا ہوں )
تیمور حسن تیمور مرحوم کے دو شعری مجموعے "غلط فہمی میں مت رہنا" اور " ترا کیا بنا" کئی سال پہلے منصّہء شہود پر آئے اور اپنی مقبولیت اور پذیرائی کی بنا پر ان کے نئے ایڈیشنز بھی شائع ہو چکے ہیں ۔
تیمور مرحوم نے مجھے ان دونوں کتب کے نئے ایڈیشنز ارسال کرتے ہوئے اصرار کیا کہ میں اس کی شاعری پر بیباک تبصرہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شاعر کی سخن طرازی پر تبصرہ کرنا یا تنقیدی رائے دینا بہت ہی مشکل اور نازک کام ہے خاص طور پر اس شخص کے لیے جس کا انتقادیات سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو اور پھر ایسے مستند شاعر پر جس کے بارے میں ڈاکٹر خورشید رضوی ،ڈاکٹر تحسین فراقی اور امجد اسلام امجد مرحوم جیسے نابغہء روزگار نقاد اپنی آراء سے نواز تے ہوئے کہہ چکے ہوں کہ" تیمور نادر الکلام شاعر ہے ۔ اس کی ہر ایک غزل میں ایک آدھ نشتر نکل ہی آتا ہے لہٰذا اسے شاعری میں کسی رعایت کی ضرورت نہیں "۔ اس تناظر میں میرے لیے اس کی شاعری پر رائے دینا ہچکچاہٹ کا باعث بنا رہا بہرکیف ایفائے عہد کرتے ہوئے مبصرانہ رائے حاضر ہے ۔
شعر کا تعلق حسّیاتٍ انسانی سے ہے، یہ تخلیق ہوتا ہے ، بولا اور سنا جاتا ہے ۔ شعر ذہن کے ان خلیات سےظہور پاتا ہے جو غیبی اشارے موصول کرتے ہیں، آپ انہیں" الہامی ریسیور" بھی کہہ سکتے ہیں جو ایک خاص کیفیت میں متحرک ہو کر ایک ردھم میں ڈھلتے ہوئے شعر کا روپ دھار لیتے ہیں ۔ شاعر اپنی مرغوب جہات سے عنوانات کا انتخاب کرتا ہے اور اپنے مشاہدات اور تجربات کی آمیزش سے اسے میدانِ شعر میں اتار دیتا ہے ۔
اگر ہم مجموعی طور پر شعری عمل کا جائزہ لیں تو ہم پر منکشف ہو گا کہ اچھا شاعر خاص شعری فضا میں نمودار ہوتا ہے ۔ تیمور مرحوم بھی ان اچھے شعراء میں سے تھا جس نے اپنے لیے شعری نظام کے ذریعے خوبصورت فضا تشکیل دی جس میں رہ وہ شعر کہنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتا ۔
تیمور مرحوم نے اپنے شعری اظہاریے کے لیے شعر کی سب سے خوبصورت اور دلکش ہیئت کو ، جو شعرائے اردو کی محبوب ہیئت ہے یعنی غزل کا انتخاب کیا ۔ تیمور مرحوم نے غزل میں بھی زیادہ تر ان بحور کا انتخاب کیا جو زیادہ مترنم ہیں ، ان مترنم بحروں میں سادہ بھی ہیں جن میں چست مصرع سازی ہنرمندی کی متقاضی ہے اور مرکب بھی ہیں جو لفظیات کی برجستگی مانگتی ہیں ۔ تیمور مرحوم نے ان کے تمام تقاضوں کو حتی الامکان باحسن پورا کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ بصارت کی محرومی نے تیمور کے اندر خارجی دنیا کے تمام پہلوؤں خواہ اس کا تعلق انسانی رویوں سے ہو یا فطرت سے ، ایسا اجاگر کیا تھا کہ اکثر اصحابِ بصارت ان پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے ۔ اس کی شاعری پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ژندگی کے کچھ پہلوؤں کو اس زاویے سے نہیں دیکھ پائے جس زاویے سے تیمور نے دیکھا اور محسوس کیا ۔
ڈاکٹر تیمور مرحوم کا شعری تجربہ یقیناً ہم سے مختلف تھا ہم شعر تخلیق کر کے فوراً لکھتے ہیں قطع وبرید کرتے ہیں مگر تیمور مرحوم ان مراحل میں یقیناً اپنے حافظے پر اعتماد کرتے ہوں گے جو اس کو قدرت کی طرف سے وافر ودیعت کیا گیا تھا ۔ چونکہ مترنم بحروں میں کہے ہوئے اشعار جلد یاد ہو جاتے ہیں اس لیے تیمور نے ان کا سہارا لیا ۔
ڈاکٹر تیمور حسن مرحوم نے اپنی شاعری میں لمبی اور منفرد ردیفوں کا استعمال بھی کثرت کیا جو کہ ہماری عام بول چال کا حصہ ہیں ۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
خدا بہتر کرے گا ، ترا کیا بنا ، مجھے دکھ نہیں ، بدل چکا ہے ، میں چپ رہا ، تو میں کیا کروں ، کیسے ختم ہو گا ، تجھے علم ہے ، سمجھ رہا تھا ، اسے کیا ملتا ہے ، شہر کو بچا ، سے نفرت ہے ، بڑا گہرا ہے ، نہیں کروں گا ، تلا ہوا ہے ، اسے خبر بھی تھی ، کچھ بھی نہیں ، تم خؤش رہو ، اسے پوچھنا ۔۔ ایسی اور کئی ردیفیں آپ کو اس کی غزلیات میں ملیں گی جو روزمرہ کا حصہ ہیں ،
اصحاب فن کے نزدیک لمبی ردیف کو غزل کا حسن قرار نہیں دیا جاتا مگر تیمور مرحوم نے ان ردیفوں کو اتنی خوبصورتی سے برتا ہے کہ پوری غزل کے حسن کا انحصار ان ردیفوں کی طرف منتقل ہوتا ہوانظر آتا ہے ۔
غزلیہ شاعری کئی پہلوؤں سے روایت سے متصل ہے اگر اسے روایت سے یکسر جدا کر دیا جائے تو یقیناً یہ اپنا حسن وجمال کھو دے گی۔ تیمور کا لہجہ اگر چہ جدید ہے مگر اس کا شعری مزاج روایت سے جڑا ہوا ہے ۔ اس کی تراکیب اور لفظیات روایت کے مطابق ہیں مگر معنوی اتخاذ کئی مقامات پر بہت منفرد ہے اس کے تخیل کا جہان الگ ہے اس کا باعث اس کی ہیئت کذائی بھی ہو سکتی ہے ۔ اس کی شاعری میں تخاطب، ترنم ، اور تغزل نمایاں ہیں ۔ اس کے موضوعات میں تنوع جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔ محبت اس کا مرکزی کینوس ہے جو اپنے لوازماتی رنگوں سے بھرا ہوا ہے ۔۔لیجئے میرے بیان کردہ قضایا کی روشنی میں ڈاکٹر تیمور حسن تیمور مرحوم کے کچھ خوبصورت اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
تجھے زندگی کا شعور تھا ترا کیا بنا
تو خموش کیوں ہےمجھےبتاتراکیابنا
میں مقابلے میں شریک تھا فقط اس لیے
کوئی آ کے مجھ سے یہ پوچھتا ترا کیا بنا
مجھے علم تھا کہ شکست میرا نصیب ہے
تو امیدوار تھا جیت کا ، ترا کیا بنا
ـــــ
میں کہوں بھی کچھ نہ وہ روپڑےتومیں کیا کروں
مری خامشی کو زباں ملے تو میں کیا کروں
مرے ہمنشیں مرے مسئلے کا تو حل بتا
مجھے اپنے آپ سے ڈر لگے تو میں کیا کروں
کئی بار وہ مری زد پہ آ کے بھی بچ گیا
کوئی اس کےحق میں دعاکرےتومیں کیا کروں
ـــــ
جنہیں عشق والوں کا مشورہ نہیں بھولتا
انہیں تیرگی میں بھی راستہ نہیں بھولتا
کبھی بھول جاتا ہوں زندگی پہ محیط بات
کبھی غیر اہم سا بھی واقعہ نہیں بھولتا
مرا ذہن جلتا ہے سوچ کر جسے دوستو
مجھے چاہ کر بھی وہ سانحہ نہیں بھولتا
ـــــ
مجھے چھوڑ کر جو چلا گیا اسے پوچھنا
کہ جوازِ ترکِ وفا ہے کیا ؟ اسے پوچھنا
نہیں دے گا کوئی خبر تمہیں مرے حال کی
مگر ایک پیڑ بتائے گا اسے پوچھنا
مرے پاس کچھ بھی نہیں رہا یہ بجا مگر
مجھے چھوڑ کر اسے کیا ملا اسے پوچھنا
ــــــ
میں نےبخش دی تری کیوں خطا تجھے علم ہے
تجھے دی ہے کتنی کڑی سزا تجھے علم ہے
ـــــــ
مندرجہ بالا اشعار کا وزن متفاعلن متفاعلن متفاعلن بحر کامل مسدس سالم ہے ، اس بحر کے اشعار بغیر ردھم کے پڑھیں تو اپنا رنگ ڈھنگ کھو جاتے ہیں ۔اس بحر میں موسیقیت بلا کی ہے ۔ آپ ان کی ردیفوں پر غور کریں تو معمول سے کچھ لمبی دکھائی دیتی ہیں مگر تیمور مرحوم نے جس احسن انداز میں انہیں نبھایا ہے واہ واہ واہ کیا کہنے ۔
درج ذیل اشعار کی بحر پر بھی غور فرمائیں ۔
ــــــ
مجھے بظاہر نہیں لگا تھا بدل چکا ہے
مگر چھٹی حس نے پھر بتایا بدل چکا ہے
ــــــ
جوصدیوں پہلےتھی اب بھی تیموروہ گھٹن ہے
میں کیسے مانوں کہ اب زمانہ بدل چکا ہے
ــــــ
اذیتوں کا یہ سلسلہ کیسے ختم ہو گا
دماغ کا دل سے معرکہ کیسے ختم ہو گا
ہرایک ظالم تھکا ہوا ہے یہ سوچتا ہوں
مزاحمت کا یہ سلسلہ کیسے ختم ہو گا
ــــــ
وہ عشق کو باعثِ اذیت سمجھ رہا تھا
میں اس اذیت کو اک عبادت سمجھ رہا تھا
کسی کے جانے کے بعد مجھ پر کھلی حقیقت
لگاؤ تھا میں جسے محبت سمجھ رہا تھا
ـــــــ
نہ قرب کے پل نہ ہجر لمحوں کا سامنا ہے
اب اہلِ دل کو نئے تقاضوں کا سامنا ہے
ترے بچھڑنے پہ پوچھتے ہیں زمانے والے
بچھڑنے والے مجھے سوالوں کا سامنا ہے
تو میرے سچے خدا مری رہنمائی فرما
قدم قدم پر مجھے خداؤں کا سامنا ہے
ــــــ
نہیں اڑاؤں گا خاک ، رویا نہیں کروں گا
کروں گا میں عشق پر تماشا نہیں کروں گا
اگر کسی مصلحت میں پیچھے ہٹا ہوں تیمور
تو مت سمجھنا پلٹ کے حملہ نہیں کروں گا
ـــــــ
خموش کیوں ہوں اگروہ یہ بھی نہیں سمجھتا
زباں سےکہہ دوں میں یہ ضروری نہیں سمجھتا
مری نظر میں یہ اس سے آگے کی کوئی شے ہے
میں زندگی کو فقط کہانی نہیں سمجھتا
وہ اپنے آقا کی ساری باتوں کو مانتا ہے
ستم تو یہ ہے اسے غلامی نہیں سمجھتا
سمجھ میں آتا ہے سب کی جو ہو رہا ہے تیمور
مگر یہ کیوں ہو رہا ہے کوئی نہیں سمجھتا
ـــــــ
اب اپنے ماضی کو مارنے پر تلا ہوا ہوں
میں اک نیا روپ دھارنے پر تلا ہوا ہوں
مجھے خبر ہے کہ میری چادر بڑی نہیں ہے
میں پاؤں پھر بھی پسارنے پر تلا ہوا ہوں
ـــــ
درج بالا اشعار - مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
کے وزن پر ہیں یہ بحر جمیل مسدس سالم ہے اور موسیقیت سے بھری ہوئی بحر ہے ان اشعار کو بھی بغیر ردھم کے پڑھنا نثر میں بدلنے کے مترادف ہے ۔اسی ردھم میں اور کئی غزلیں " غلط فہمی میں مت رہنا" میں موجود ہیں ۔
ایسی بحور میں شعر کہتے ہوئے مجھ پر منکشف ہوا کہ ان کی لفظیات و تراکیب دوسری بحور سے مختلف ہیں یہ بھی یاد رہے کہ لفظیات بدلتی ہیں تو موضوعات و مضامین بھی بدلتے ہیں ، بقول غلام حسین ساجد" غیر مستعملہ یا کم کم استعمال میں لائی جانے والی بحروں میں شعر کہنے سے موضوعات میں تنوع آتا ہے ہر بحر کا اپنا مزاج ہوتا ہے " درج بالا بحور میں تغزل کا عنصر غالب نظر آتا ہے
مزید کچھ اشعار دیکھئے ۔
ـــــــ
محبت کا اثر ہو گا غلط فہمی میں مت رہنا
وہ بدلے گا چلن اپنا غلط فہمی میں مت رہنا
تسلی بھی اسے دینا یہ ممکن ہے میں لوٹ آؤں
مگر یہ بھی اسے کہنا غلط فہمی میں مت رہنا
ـــــــ
زخم خوردہ کی دعا تم خوش رہو
تم رہو نغمہ سرا تم خوش رہو
ایک دن بے نام خط مجھ کو ملا
جس پہ یہ تحریر تھا تم خوش رہو
ـــــــ
بد دعاؤں کا دعاؤں کا مزہ لیتا ہوں
میں تو لوگوں کے رویوں کا مزہ لیتا ہوں
حیرتِ چشم سمٹ آتی ہےلہجےمیں ترے
تیرے لہجے سے میں آنکھوں کا مزہ لیتا ہوں
ــــــــ
اس شعر میں جس عمدگی سے شاعر نے ضمنا اپنی محرومیء بصارت کا ذکر کیا ہے اس کا جواب نہیں ۔
ــــــــ
شکر کر تیرا محبت میں گیا کچھ بھی نہیں
ورنہ یاں ایسےبھی ہیں جن کابچاکچھ بھی نہیں
کر دیا اس کو ودیعت خامشی نے یہ ہنر
بات کہہ جاتا ہے ساری بولتا کچھ بھی نہیں
ـــــــ
بچھڑ کے روتا رہوں گا اسے خبر بھی تھی
یہ دکھ میں سہہ نہ سکوں گااسےخبر بھی تھی
جھجھک رہاتھاوہ کیوں مجھ پہ وارکرتے ہوئے
میں انتقام نہ لوں گا اسے خبر بھی تھی
ـــــــ
وفا کا ذکر جب چھڑ ا میں چپ رہا
سبھی نے کچھ نہ کچھ کہا میں چپ رہا
کبھی لگا تھا چپ رہوں تو ٹھیک ہے
اور اب لگے یہ کیا کیا ، میں چپ رہا
اب اس لیے گھرا ہوا ہوں آگ میں
کہ جب کسی کا گھر جلا میں چپ رہا
ـــــ
ایسی مشکل اور لمبی ردیفوں کو جس انداز میں تیمور مرحوم نے نبھایا ہے طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے ۔
تیمور مرحوم کے کچھ اور خوبصورت اشعار جن کی لطافت طبیعت کو سرشار کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔ شاعر کی کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ قاری کو ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دے
ملاحظہ فرمائیں ۔
ــــــ
شب کٹ گئی ہے یہ کہیں جھوٹی خبر نہ ہو
سورج کا جاگنا بھی فریبِ نظر نہ ہو
میں ایسا کیا کروں کہ تجھے سب پتا چلے
میں ایسا کیا کروں کہ جہاں کو خبر نہ ہو
لگتا ہے اس میں کوئی زمانے کی چال ہے
تیمور ورنہ عشق ہو اور کارگر نہ ہو
ـــــــ
تصور کیجئے یہ اس شاعر کا شعر ہے جو بصارت سے محروم ہے ، پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل پسیج جاتا ہے۔
میرے بیٹے میں تجھے دوست سمجھنے لگا ہوں
تم بڑے ہو کے مجھے دنیا دکھانا مرے دوست
تم کو معلوم تو ہے مجھ پہ جو گزری تیمور
پوچھ کرمجھ سےضروری ہےرلانا مرےدوست
ــــــ
یہ تحمل تو مجھے عشق نے بخشا تیمور
ورنہ تلوار اٹھانے کا ارادہ تھا مرا
ــــــ
تمام عمر یہ عقدہ نہ کھل سکا مجھ پر
کہ نقش ادھورے ہیں یا آئنے ادھورے ہیں
ــــــ
وہ مرصع ہے کہ سادہ ہے بڑا گہرا ہے
شعر تاثیر جو رکھتا ہے بڑا گہرا ہے
آنکھ میں ٹھہرے ہوئے پانی سے اندازہ ہوا
دل کا دریا، بڑا گہرا ہے ، بڑا گہرا ہے
پڑھ کے سادہ سی عبارت بڑی مشکل میں ہوں
تو نے جو خط مجھے لکھا ہے بڑا گہرا ہے
ـــــــ
میری خواہش ہے دکھاؤں اسے دل کی دنیا
اس نے پوچھا ہے محبت تجھے کیا دیتی ہے
تیرے لہجے میں جو مضبوطی ہے تیمور حسن
تیرے اندر کے کسی ڈر کا پتا دیتی ہے
ــــــ
یوں آج کی یہ ملاقات یادگار بنا
گئے دنوں کی کسی بات کا حوالہ دے
ــــــ
چن لیا جاتا تجھے کارٍ محبت کے لیے
اتنی اچھی سگِ دنیا تری قسمت نہیں تھی
کس لیے قابلٍ نفرت تجھے سمجھا دنیا
قابلِ رحم تھی تو قابلِ نفرت نہیں تھی
ــــــ
میں جو اپنے حال سے واقف نہیں
میرے مستقبل کا اندازہ کرو
ــــــ
مری بھی چھاؤں نہ ہوتی اگر تمہاری طرح
میں انحصار بزرگوں کے سائے پر کرتا
ـــــــ
میں ایک بار پھر اس بات پر شرمندگی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کاش یہ مضموں ڈاکٹر تیمور حسن تیمور مرحوم کی زندگی میں لکھا ہوتا مگر موت پر کسی کا زور نہیں، جہاں بھی اس شذرے میں تیمور کے ذکر میں "ہے" کی جگہ "تھا" لکھا جگر تھام کے لکھا ، سانس کا اعتبار کہاں ۔ میں نےایک بار کہا تھا
زندگی موت کنارے سے لگی رہتی ہے
اب تو ہر سانس پہ لگتا ہے کہ ٹوٹا ٹوٹا
اب مرے جسم کے اعضا بھی ہیں بدلے بدلے
اب تو یہ دل بھی مجھے لگتا ہے روٹھا روٹھا
مضمون لکھتے ہوئے بار بار تیمور مرے سامنے آیا اور اپنا یہ شعر سناتے ہوئے رلا گیا ۔
میں ہوں راشد کا وہی اندھا کباڑی تیمور
جس کے خوابوں کا یہاں کوئی خریدار نہ تھا
ہر انسان کو جہانِ فانی سے جانا ہی ہے ۔ رب کائنات کا فرمان ہے کل شیء ھالک الّا وجہہ ، اس ذات خداوندی کے علاوہ ہر چیر ہلاک ہونے والی ہے۔ اس لیے ہر شخص ، بشمول ہمارے ملکِ عدم کی طرف رواں دواں ہیں لیکن جو لوگ کسی بھی میدان میں اپنا قابلِ قدر اثاثہ چھوڑ جاتے ہیں وہ رہتی دُنیا تک یاد رکھے جاتے ہیں۔ ان شاءاللہ ڈاکٹر تیمور حسن تیمور مرحوم بھی اپنی شاعری کے ذریعے جب تک دنیا قائم ہے زندہ رہے گا ان شاءاللہ تعالیٰ