زیورات۔۔. نسیمہ زاہد

یہ منظر مجھے آج بھی یاد ہے۔ شادی کے بعد جب میں پہلی بار زیورات پہن کر گھر آئی تو میرے سوشلسٹ اور علمی مزاج رکھنے والے بھائی زین العابدین، جو اُس وقت صرف 28 برس کے تھے، مجھے غور سے دیکھنے لگے۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے: "تمہیں معلوم ہے"۔زیور عورت کا پہناوا کیوں بنے؟" اُس لمحے شاید میں ان کی بات کی گہرائی نہ سمجھ سکی، لیکن ان کے اندازِ فکر اور سوال کے پیچھے چھپی ہوئی تاریخ اور نظریے نے مجھے ہمیشہ سوچنے پر مجبور کیا۔
"اِن کی معلومات کو میں ایک بلاگ کی صورت میں لکھ رہی ہوں۔"
زیورات عورتوں کا حُسن یا غلامی کی علامت؟
عورت کے زیورات اُس کی غلامی کی علامت ہیں۔ ناک کی لونگ کبھی ناک کی نکیل تھی، گلے کا ہار لوہے کا طوق تھا، پاؤں کی بیڑیاں جو اب پازیب بن گئی ہیں، ہاتھ کی ہتھکڑیاں جو آج گَجّے اور کنگن بن گئے ہیں—یہ سب غلامی کی نشانیاں ہیں۔ جب بندہ غلامی اور اُس کی یادگار کو صدیوں بعد دل سے قبول کر لیتا ہے، یہ جانے بغیر کہ یہ تو غلامی کی یادگار ہے۔
زنجیر، بیڑیاں اور ہتھکڑیاں جب مالک کی نرمی اور محبت کے باعث چھوٹی، مختصر اور سونے یا چاندی کی ہوگئیں تو اُنہیں زیور کہا جانے لگا۔ جس قدر مالک محبت کرتا، غلامی کے یہ اوزار اُتنے ہی مہنگے اور 
خوبصورت بنتے چلے گئے۔
 قدیم ہندوستان میں شادی شدہ عورت کے لیے منگل سوتر، سندور، ناک کی لونگ اور چوڑیاں لازم قرار دی گئیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ وہ اب کسی مرد کی ملکیت ہے۔ اسی طرح رومی اور یونانی معاشروں میں شادی کی انگوٹھی دراصل عورت کی ملکیت کے معاہدے کی علامت تھی، جو بعد میں یورپ میں 
wedding ring
 کی صورت اختیار کر گئی۔ عرب دنیا میں بھاری طلائی زیورات اور ناک کی لونگ نہ صرف عورت کی شادی شدہ حیثیت ظاہر کرتے تھے بلکہ شوہر کی دولت و طاقت کا اظہار بھی سمجھے جاتے تھے۔ افریقی قبائل میں عورت کو لوہے یا سونے کے طوق پہنانا غلامی اور مرد کی ملکیت کی علامت تھا، جو رفتہ رفتہ زیبائش کا حصہ بن گیا۔ حتیٰ کہ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں بھی شادی شدہ عورت کو مخصوص زیورات پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا تاکہ وہ غیر شادی شدہ عورتوں سے الگ پہچانی جائے۔

جیسا کہ مشہور بشریات دان Claude Lévi-Strauss لکھتے ہیں کہ زیورات "a coded language of social status" ہیں، یعنی یہ سماجی مرتبے اور تعلقات کا خفیہ کوڈ ہیں۔ فیمینسٹ مفکرہ Germaine Greer نے تو انہیں "chains of beauty" کہا ہے—ایسی زنجیریں جو بظاہر حسن کی علامت ہیں مگر دراصل عورت کی غلامی اور پابندیوں کی نشانی ہیں۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !