ہماری ایک جاننے والی خاتون ایک بھری پری سسرال میں رہتی تھیں
جب تک ان کے میاں حیات تھے ان کے سب معاملات اچھے چل رہے تھے ان کے میاں تین بھائی تھے دو بڑے بیٹے والدین کے ساتھ رہتے سب سے چھوٹا کراچی میں جاب کرتا تھا تو اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ کراچی لے گیا
ان کے جیٹھ کو چھوٹے بھائی کی شادی کے ٹائم پر گھر کے اوپر کے پورشن میں سیٹ کر دیا گیا
یہ اپنے ساس سسر کے ساتھ رہتی ہیں۔
ساس سسر دونوں زمانہ شناس اور خوف خدا رکھنے والے تھے بہوؤں بیٹوں کے ساتھ معاملہ فہمی اور سمجھداری سے رہتے۔
ان کی ایک نند جو سب بھائیوں سے بڑی تھیں وہ شادی کے بعد اپنے میاں کے ساتھ سعودی عرب میں رہتی تھیں سال بعد ہی انکا پاکستان چکر لگتا۔
جب تک ان کے شوہر زندہ تھے تو ہر دوسرے سال ان کے ساس سسر ایک آدھ ماہ بیٹی کے پاس جا کے رہتے عمرے ادا کرتے اسی طرح حج بھی کر لیا۔
دس سال پہلے ان کے شوہر کا ایک ایکسیڈینٹ میں انتقال ہو گیا ان کی فیملی میں شادی تھی بارات میں پٹاخے پھوڑتے ہوئے ایک پٹاخہ ان کے شوہر کے ہاتھ میں ہی پھوٹ گیا اس سے سیپٹک ہوا ٹیٹنس کا انجیکشن ری ایکٹ کر گیا ان کا انتقال ہو گیا۔ جب شاھد صاحب کا انتقال ہوا ان کے بچے بہت چھوٹے تھے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے بڑی بیٹی نویں جماحت میں پڑھتی تھی بیٹا جو سب بہنوں سے چھوٹا تھا صرف دوسری جماعت میں تھا۔
ان کے میاں بنک میں جاب کرتے تھے وہاں سے انہیں اچھی رقم ملی جسے فکس کروا کے ان کو معقول آمدنی ہونے لگی سسر کی پنشن بھی آتی تھی گھر کا خرچ اس سے چلتا تھا جوان بیٹے کی حادثاتی موت کے غم میں سال بعد ان کی ساس بھی چل بسیں۔
ان کی بڑی بیٹی نے میٹرک کر لیا تھا ان کی ساس کی وفات کے بعد بڑی جیٹھانی جو اوپر کے پورشن میں رہتی تھیں ان کا عمل دخل گھر میں بڑھ گیا ویسے تو وہ دوستانہ تعلقات رکھتیں پیار محبت سے بات کرتیں مگر بات بے بات مشورے اور پھر انہیں انفورس کرنا ان کی عادت تھی ان کی اپنی بھی دو بیٹیاں دو بیٹے تھے جب ان کی بیٹی نے
FSC Computer Science
کر لیا تو جیٹھانی ان کے سر پر سوار ہو گئیں کہ ان کی شادیاں کرو سر سے اتارو تین تین بیٹیاں ہیں باپ سر پر ہے نہیں پڑھانے لکھانے کے بجائے جتنا جلد ممکن ہو شادی کر دو جبکہ ان خاتون جن کا نام سحر ہے ان کی خواہش تھی کہ باپ سر پر نہیں ہے تو بیٹیاں اچھا پڑھ کے مضبوط ہوں تاکہ ہر حالات میں میکے کی طرف دیکھنے کے بجائے خود کو سنبھالنے کے قابل ہوں۔
جیٹھانی کی اپنی بیٹیاں چھوٹی بیٹے بڑے تھے پڑھنے وہ ان کے بچے بھی اچھے تھے لیکن وہ ان پر پریشر ڈالتی رہیں کہ بیٹیوں کو پڑھانے میں پیسے خرچ کرنے کے بجائے ان کے جہیز جوڑیں۔
یہ جیٹھانی کی بات خاموشی سے سن لیتیں مگر کرتی وہی جو ان کو ٹھیک لگتا سسر بھی ان کے ہم نوا تھے۔
بڑی بیٹی نے ایم کام کر لیا تو اس کی اپنے والد شاھد صاحب کے بنک میں جاب ہو گئی اس نے ایم فل میں ایڈمیشن بھی لے لیا اور ساتھ ساتھ جاب بھی کرتی رہی
یہاں جیٹھانی کو پھر اعتراض کہ جاب نا کرئے نا ہی آگے پڑھے بس شادی کر دو۔
اس کے ساتھ ہی جیٹھانی نے خود ہی رشتے ڈھونڈنے شروع کر دیے اور ایسے ایسے رشتے لاتیں کہ یہ بس ان کا منہ دیکھ کے رہ جاتیں
دل میں سوچتیں ان کے بیٹے بھی بڑے ہیں شادی کے قابل ہیں اچھی جاب بھی کر رہے ہیں یہاں تک کے اب اپنے والدین کو لے کے سوسائٹی میں شفٹ ہو گئے ہیں سسر نے اوپر کا پورشن کرائے پر دے دیا ہے اسکا کرایہ بھی انہیں ملتا ہے لیکن وہ جیٹھانی اپنے بیٹوں کا نام نا لیتیں اور ان کی بیٹیوں کے اوٹ پٹانگ رشتے تلاش کر کر کے بجھوائے جاتیں۔
اب تو دوسرے نمبر والی بیٹی کی بھی
FBR
میں جاب ہو گئی تھی۔
بڑی کی عمر چھبیس سال تھی اب اسے چھوڑ کے کہ یہ تو اوور ایج ہو گئی ہے انہوں نے دوسری کے اوٹ پٹانگ رشتے ڈھونڈنے شروع کر دیے۔
حد تو یہ کہ اکلوتی نند اور کراچی والی دیورانی کو فون پر ایک ایک رشتہ گنواتیں کہ سحر تو اپنی بیٹیوں کی کمائی کھانا چاہتی ہے میں نے اب تک بڑی بیٹی کے نوں رشتے بتائے ہیں چھوٹی کے دو بتائے ہیں مگر یہ تو انٹرسٹ ہی نہیں لیتی۔
جبکہ رشتے دیکھے جائیں تو کوئی میٹرک پاس جنرل سٹور کا منیجر، کوئی کسی گلی محلے کے سکول کا مالک، کوئی عمر میں بارہ سال بڑا، کوئی دبئی میں مکینک، کوئی بڑی فرم میں کلرک۔
سحر کے مطابق ایک رشتہ بھی ایسا نہیں تھا جس کو ایک لمحے کے لیے بھی کنسیڈر کیا جاتا نا لڑکے یا ان کی ملازمتیں سمجھ آتی تھیں نا خاندان اس لیے یہ انکار کرتی رہیں
سحر کے سسر اب بستر پہ آ گئے تھے یہ سارا دن ان کا خیال رکھتی باہر ملنا جلنا بہت ہی کم تھا یہ پچھلے سال ہمارے پاس خاص طور سے ملنے آئیں تو باتیں کرتے ہوئے رونے لگیں اور پوچھنے لگیں کہ میں اپنی بیٹیوں کے اچھے رشتوں کے لیے کیا کروں جو جیٹھانی بتاتی ہیں میں وہاں سوچ بھی نہیں سکتی خود کا ملنا جلنا کہیں ہے نہیں جن کو کہا سنا جائے اور جو لڑکے سمجھ آتے ہیں انہیں خود رشتے کے لیے پیغام کیسے بھیجیں۔
ادھر جیٹھانی ایک ایک کو کہہ رہی ہیں بیٹیوں کی کمائی کھانے کی عادت پڑ گئی ہے اس نے شادی نہیں کرنی میں نے اتنے رشتے بتائے ایک کو بھی حامی نا بھری۔
سحر پریشان تھیں اور ہم افسردہ
ہم سوچ رہے تھے کہ دین میں جو یہ حکم ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو یہ صرف کھانے پینے پہننے اوڑھنے کے لیے نہیں ہے بلکہ معاملات میں بھی ہے ہمارے ارد گرد ایسے بیشمار خیر خواہ ہوتے ہیں جو کبھی بھول کر بھی ہمیں وہ چیز نہیں دیتے جو ہمارے مطابق ہو سیڑھی دینی ہو تو ہتھوڑا پکڑاتے ہیں رسی چاہیے ہو تو سیب پھینکتے ہیں اور ساتھ ساتھ واویلا کرتے جاتے ہیں کہ یہ ناشکرا ہے، اس میں فخر ہے ہم نے اسے یہ دیا وہ دیا یہ بے قدرا ہے اسے قدر نہیں۔
یہ بہت بڑی بد دیانتی ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنی سخاوت اور خیرخواہی کی نمائش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو جان بوجھ کر غلط اور مطابقت نا رکھنے والی چیزیں فراہم کرتے چلے جانا جو چیز ان کی پسند کے مطابق ہو اور ان کی پہنچ میں بھی ہو اس سے انہیں جان بوجھ کے محروم رکھنا۔
دوسروں کے بارے میں کم حیثیت اور کم معیاری چیز پسند کرنا ہلکی سوچ رکھنا۔
ہم نے انہیں رشتے کے سلسلے میں اپنی نند ، چھوٹی دیورانی اور بچیوں کی کولیگ خواتین سے رابطہ رکھنے کا مشورہ دیا جن کی بدولت تین ماہ قبل ان کی بڑی بیٹی کی شادی گورنمنٹ کالج میں میتھ کے پروفیسر سے ہو گئی جو لڑکا عمر میں اس سے تین چار سال ہی بڑا ہے درمیان والی بیٹی کا رشتہ ایک کھاتے پیتے گھرانے میں ہوا ہے لڑکے کے والد کی کنسٹرکشن کمپنی ہے لڑکا اکلوتا ہے اور انہی کے ساتھ کام کرتا ہے لڑکے نے ایم بی اے کیا ہوا ہے۔
سب سے چھوٹی بیٹی ابھی پڑھ رہی ہے مگر ان کی نند بڑی بیٹی کی شادی میں پاکستان آئیں تو انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے ان کے کان میں بات ڈال دی ہے اس کا بیٹا سعودی عرب میں انجینئر ہے۔
کہنا یہ ہے کہ ہم کسی کی قسمت کے فیصلے نہیں کر سکتے خیر خواہ بن کے کسی کو جتا مرضی لیٹ ڈاون کرنے کے لیے جتن کر لیں قسمت کا لکھا اٹل ہے مگر ہماری بد دیانتی بدخواہی ہمارے کردار کر بدنما اور بدبو دار کر دیتے ہیں ساری عمر جس کی بدبو نہیں جاتی۔