جذباتی بلیک میلنگ ۔۔ ڈاکٹر مختیار ملغانی

دنیا کو اگر شکار اور شکاری میں تقسیم کر دیا جائے تو جذباتی بلیک میلر (باج گیر ) ان دونوں میں سے کسی طبقے سے تعلق نہیں رکھتا ، شکاری کی طرح وہ طاقتور نہیں مگر شکار جیسا کمزور بھی نہیں ، وہ گردن نہیں دبوچتا مگر گردن پکڑنے بھی نہیں دیتا۔ وہ ان دو کیفیتوں کے درمیان رہتے ہوئے شکاری کے خوف اور شکار کی بےبسی کے تال میل سے کام چلا لیتا ہے ۔ اس کی طاقت اسی توازن میں ہے جسے وہ مسلسل دوسروں پہ استعمال کرتا ہے، یہی توازن ہے جس کی بدولت وہ آسانی سے پکڑ میں نہیں آتا ۔

جذباتی بلیک میلنگ عموماً ایسے لوگوں کا ہتھیار ہے جو کسی بھی ایسی خوبی سے عاری ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہو ، بس پھر یہی ایک فن بچتا ہے ان کے پاس ، جس کی مدد سے پہلے ہمدردی حاصل کرتے ہوئے سامنے والے کو جزبات کی کھونٹی سے باندھتے ہیں اور پھر ، تمہارا فرض ہے، جیسے اشاروں سے اس کے ضمیر اور اعصاب پہ سوار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ اپنی محنت یا اقدار کی بدولت اپنے پیروں پہ کھڑے نہیں ہونا چاہتے، ان کیلئے آسان ہے کہ مدمقابل کو کسی احساسِ جرم میں مبتلا کر کے اس سے سارے کام نکلوا لئے جائیں ۔ گویا کے ان کی تمام ناکامیوں کے ذمہ دار آپ ہوں گے اگر آپ بروقت ان کی مدد نہیں کرتے ، اور ایسے لوگ اکثر اپنے ارادوں میں کامیاب رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص بے حس اور بے ضمیر کہلوانا یا دکھنا پسند نہیں کرتا ۔

جذباتی بلیک میلر کیلئے عدل کا کوئی تصور نہیں، اسے آپ کی فرمانبرداری چاہئے، اس کیلئے آپ کے ساتھ برابری اہم نہیں بلکہ آپ پہ حاوی ہونا ضروری ہے، اسے عزت درکار نہیں، آپ کی ہمدردی چاہئے ، بدقسمتی سے victimization کا یہ ہتھیار آج مرد و زن دونوں بہت اچھے طریقے سے استعمال کر رہے ہیں ۔ کسی مفکر کا کہنا ہے کہ سماج میں جب ہمدردی کا عنصر بڑی خوبی بن جائے تو جان لیں کہ تباہی قریب ہے ۔ اگر محنت سے زیادہ درد کو اہمیت دی جا رہی ہے تو سماج اپنے ہہی خنجر سے اپنی گردن کاٹ رہا ہے ۔

فرد کو ہر مقام پر ایسی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، گھر سے لے کر گلی محلے تک، ذاتی تعلقات سے لے کر اجتماعی اداروں تک ایسے نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے،
" اگر میں تمیں عزیز ہوں "
میری تمام قربانیوں پہ تم نے پانی پھیر دیا "
" ہمارا خیال بھی نہیں آیا آپ کو "
" اگر آگے بڑھنا ہے تو " وغیرہ وغیرہ
بلیک میلر کی کوشش ہوتی ہے کہ فرد کو کسی بھی طرح احساسِ جرم میں جکڑ لیا جائے ، اس کے بعد اس کی تمام کوششیں اس بلیک میلر کی ہر جائز و ناجائز خواہشیں پوری کرنے میں صرف ہوں گی، فرد کو کسی طور سوچ اور عقلی تجزیئے سے دور رکھنا ہے ورنہ وہ ردعمل نہیں دے پائے گا اور ردعمل ہی اس بلیک میلر کی کنجی ہے، بس سامنے والے کو جزبات کی رو میں بہتے ہوئے ردعمل دینے پر مجبور کرنا ہی اس کی اصل چال ہے ۔

شاپنہاور نے کہا تھا کہ غیر ضروری ہمدردی کوئی اچھائی نہیں بلکہ غلامی ہے، غلامی ہے اس شخص کی جو آپ کو بلاوجہ کی ہمدردی کرنے پہ مجبور کر رہا ہے۔
جذباتی بلیک میلر انگریزی محاورے کے مطابق اپنی صلیب اپنے کندھوں پر نہیں اٹھانا چاہتا، اسے کوئی دوسرا شخص چاہئے جو اس کی صلیب کو اپنے کندھوں پر لاد کر اسے منزل تک پہنچائے، وہ کبھی بھی اپنی حالت بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنے سے اقتدار کی اس لذت سے محروم ہو جائے گا جو وہ کسی ہمدرد سے حاصل کر رہا ہے، اسے اپنے کرب اور اپنی کسمپرسی میں آپ کو اپنا بھائی وال بنانا ہے، بلی کی دم کٹ جائے تو وہ چاہتی ہے کہ باقی بلیاں بھی دم سے محروم ہو جائیں ۔ جذباتی بلیک میلر کی ٹریجڈی ہی اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے ، وہ اس اثاثے کو کسی طور نہیں کھونا چاہتا ، اس لئے ایسی نفسیات کے افراد اپنی حالت کو بہتر بنانے کیلئے کبھی کوئی کوشش کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ اس کی ٹریجڈی اب اس کی سٹریٹیجی بن چکی ہے ۔

وہ اپنی حالت، اپنی آواز اور ترس طلب نگاہوں سے آپ کو ہمدردی جتانے پہ مجبور کر دے گا، وہ آپ کے ضمیر اور جذبات کو یوں جھنجھوڑنے گا کہ اگر آپ اس وقت اس کا ساتھ نہیں دیں گے تو گویا اپنی نظروں میں گر جائیں گے بلکہ کالک کا یہ ٹیکا لے کر جہنم برد بھی ہو سکتے ہیں، فرد سکتے میں آ جاتا ہے، بعض اوقات آنکھوں سے آنسوں ٹپک پڑتے ہیں کہ یا خدایا میں کیسا راکھشس ہوں کہ اس معصوم پر توجہ نے دے سکا، یہی سے بربادی کا عمل شروع ہوتا ہے اور آپ اس بلیک میلر کے ساتھ کسی بلیک ہول میں اترتے جاتے ہیں، ذہن پہ شکنجہ بڑھتا جاتا ہے، وقتی طور پر ایک ریلیز سا بھی محسوس ہوتا ہے، نیک کام کرنے والی فیل بھی آتی ہے مگر جب تنہائی میں بیٹھ کر عقلی تجزیہ کرتے ہیں تو ذہن میں اضطراب سا محسوس ہوتا ہے، خود کو کاٹنے کا دل کرتا ہے کہ اس خبیث کیلئے کیا کیا کچھ کر رہا ہوں، اگر اس کیفیت سے جان نہ چھڑائی جائے تو فرد ہر گزرتے دن کے ساتھ دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔

بلیک میلر کبھی بھی آپ سے اپنے لئے کوئی مدد نہیں مانگتا ، بلکہ پہلے وہ آپ کیلئے اپنی فکر مندی اور اپنا خلوص ظاہر کرے گا، اپنی خیر خواہی جتائے گا، اس کے بعد وہ آپ کے لاشعور میں ذمہ داری اور فرض کا ایک بیج بوتا ہے، پھر وقت آنے پر اگر آپ یہ ذمہ داری اور فرض نہیں نبھاتے تو آپ مطلب پرست اور عہد شکن کہلائیں گے، بلکہ خود بھی ایسا ہی محسوس کریں گے، آپ کی خود اعتمادی لڑکھڑا سکتی ہے۔ احساسِ جرم ایسا کچا دھاگا ہے جس سے فرد کوشش کے باوجود جان نہیں چھڑا سکتا ، کارل یونگ نے کہا تھا کہ اگر آپ کسی چیز کو شعوری طور پر کنٹرول نہیں کرتے تو وہ چیز آپ کے لاشعور کو کنٹرول کرنا شروع کر دے گی۔ اگر بلیک میلر کو آپ اپنے شعور اور عقلی تجزیئے سے نہیں پہچان پا رہے تو وہ آپ کے لاشعور پر قابض ہو جائے گا۔ جذباتی بلیک میلر اپنی اصل میں ڈکٹیٹر ہے مگر ایسا ڈکٹیٹر جو حملہ نہیں کرتا، تشدد نہیں کرتا، سختی سے پیش نہیں آتا، اس کے ہتھیار آنسو اور ہچکیاں ہیں، معزرت خواہانہ رویہ ہے، بعض اوقات مظلومانہ خاموشی ہے ، مگر یہ سب وقتی ہے، وقت آنے پر اس کے یہی ہتھیار آپ کے وجود کو یوں جکڑ لیں گے جیسے پنجرے میں قید کوئی پرندہ۔ 

اب معاملہ یہ ہے کہ جذباتی بلیک میلر یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کرتا، ایسا نہیں کہ وہ شعوری چالاکی اور عیاری سے آپ کو پھنسانے کی کوشش کر رہا ہے ، وہ خود بھی اس بات سے واقف نہیں کہ وہ بلیک میلر ہے، یہ اس کی فطرت ہے، جبلت ہے کہ وہ عقل و حواس کی بجائے manipulation کا استعمال کرتا ہے، اپنی فطرت اور جبلت سے مجبور ہے۔

یہاں کسی کی مدد یا ہمدردی کا انکار یا اس سے منع نہیں کیا جا رہا ، بتانا یہ مقصود ہے کہ آپ حقیقی ضرورت مند اور بلیک میلر میں فرق کر سکیں کہ کس کی مدد کرنی ہے اور کس سے جان چھڑانا ہے، اور ان دو کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ آپ ایسے شخص کو مکمل اگنور کر کے دیکھیں، توجہ کی رسد کھینچ لیں ، اگر فرد خاموش ہو جائے تو شاید وہ حقیقی ضرورت مند ہے جس کی مدد کی جانی چاہئے، لیکن اگر آپ کے اگنور کرنے پر فرد پھڑپھڑانا شروع کر دے، بے قرار ہو جائے اور آنکھوں میں آنسو اور زبان پہ شکایت لئے آپ کے اندر احساسِ جرم کو پیدا کرنے کی کوشش کرے تو سمجھ جائیں کہ یہ بلیک میلر ہے، کیونکہ اسے ہر حال میں آپ پہ کنٹرول چاہئے ، اگر آپ کنٹرول دینے سے انکار کر دیں، توجہ نہ دیں تو وہ پھر اس کی وارداتیں دیکھئے ۔ دوسری علامت یہ ہے کہ حقیقی ضرورت مند شخص اپنے حالات و کیفیات کو بہتر کرنے کی اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کر رہا ہوگا، لیکن اگر وہ کوئی عملی کوشش نہیں کر رہا تو سمجھ جائیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !