پہلے پہل مجھے لگتا تھا۔۔۔۔
”یہ دنیا اتنی ہی ہے جتنی مجھے دکھتی ہے“
میری دنیا۔۔۔۔۔ عجیب اور گندی تھی،
ہر طرف جھاڑیاں تھیں،
کچرے کے تھیلے، باس چھوڑتی ہڈیاں، پھلوں کے چھلکے، مٹی اور دھول کے سوا کچھ نہیں تھا۔
گھر کی کوئی چھت نہیں تھی نہ ہی اردگرد کی دیواریں تھیں۔
پتہ نہیں کیوں؟
مگر! میری ماں نے مجھ سمیت میرے دو بھائیوں کو بیک وقت ایسے کوڑے کے ڈھیر پر جنما تھا جہاں بارش سے کوڑا کرکٹ تیرنے لگتا تھا۔
کچھ شاپر پانی کے ساتھ بہ کر چلے جاتے تھے،
کچھ تھیلیاں اور ہڈیاں جھاڑیوں میں پھنستیں
اور بچوں کے پیمپرز کانٹوں میں اٹک جاتے۔
بارش سے کچرا کم ہوجاتا تھا
مگر بدبو بڑھ جاتی تھی۔
پیدائش کے ساتھ ہی ہمارے ناک نے بدبو سونگھی تھی
سو اس تعفن سے موت تو آنے سے رہی!
میرے بھائی مجھ سے زیادہ توانا اور چوکس تھے۔
ہر بار بارش کے اگلے روز وہ کچھ اور تھیلیاں جمع کرکے لے آتے،
میں انہیں ادھ کھلی آنکھوں سے بے سدھ پڑا دیکھتا رہتا۔ وہ شاپر پھاڑتے،
اس میں سے کچھ کھانے کا تلاش کرتے اور پھر اس پر اپنے اپنے حصے کے لیے دبی دبی لڑائی کرتے۔
اس بیچ اگر کچھ مجھے مل جاتا تو میں اپنے حلق میں پھنسا لیتا
ہماری ماں کے دودھ کمزور تھے،
وہ خود بھی لاغر تھی، میری گردن اور ان کی ٹانگیں جسامت میں ایک جیسی تھیں۔
میں سوچتا تھا کہ ”اگر وہ ہم بھائیوں کا دودھ پورا نہیں کرسکتی تھیں تو انہوں نے ہمیں کیوں جمنا؟
پتہ نہیں شاید ان کی جنسی خواہش کی تکمیل انہیں مجبور کرتی ہوگی لیکن اگر ایسا تھا تو ہمیں ایک ایک کرکے پیدا کرتیں نہ کہ ایک ساتھ!
یا مجھے کبھی پیدا نہیں کرتیں“
میں جو اتنا لاغر ہوں کہ بارش میں بھی میری ماں نے مجھے بہتے کوڑے سے اٹھا کر اونچی جگہ پر رکھا تھا۔۔۔۔
اور اب وہ شور مچانے سے زیادہ اسی کوڑے میں سے کچھ کھانے کا تلاش کرتی ہیں جس سے ان کے دودھ پھولتے ہیں۔۔۔۔
پھر ہم دودھ پیتے ہوئے ان کے جسم کو نوچتے ہیں۔۔۔
وہ پھر سے کچھ کھانے کا تلاش کرتی ہیں
پھر سے سب کچھ ویسا ہی ہوتا ہے!
مجھے لگتا تھا میرے دونوں بھائی مجھ سے زیادہ توانا ہونے کے باعث ماں کو عزیز ہوں گے، مگر یہ مفروضہ بھی خام خیال ثابت ہوا
اس کے برعکس ماں نے مجھ سے زیادہ محبت کی۔۔۔۔۔۔
اس بات کا اندازہ مجھے ایک دوپہر ہوا جب میرا سب سے بڑا اور خوبصورت بھائی کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا اور واپس نہ لوٹا تو ماں چپ چاپ بیٹھی رہی۔۔۔
میرا دوسرا بھائی کافی دیر ماں کو تکتا رہا اور جب اسے لگا کہ بھائی کا جانا ماں کو گراں نہیں گزر رہا تو وہ بھی اٹھا اور دھیرے دھیرے دور ہوتا چلا گیا۔۔۔
میرا دل کیا کہ میں اسے آواز دوں مگر میں نے داہنی طرف دیکھا،
ماں مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔
شام ڈھلے جب دونوں میں سے کوئی نہ لوٹا تو میری ماں نے مجھے اٹھایا اور ہماری پیدائش کی جگہ سے آگے بڑھ گئیں!!
تمہیں وہ سطر یاد ہے؟ جو میں نے شروعات میں اوپر لکھی ہے کہ مجھے لگتا تھا:
”دنیا یہی کچھ ہے اور بہت محدود ہے
مگر اس دن میرا یہ دوسرا مفروضہ بھی ہوا ہو گیا۔۔۔۔
جہاں میری ماں مجھے اب کی بار لائی تھی وہ نشیب وفراز سے ملتی جلتی ایک چار دیواری تھی، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ایسی جگہوں کو پرانی عمارتوں کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے
میں توانا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
اب دونوں بھائیوں کے حصے کا دودھ بھی میں ہی پیتا تھا۔
وقت گزرنے لگا۔۔۔۔۔
اور میں ماں کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا۔
اب وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر کھانے کی تلاش میں نکلتیں۔۔۔۔
وہی شاپر، کوڑا کرکٹ، کسی کے کھائے ہوئے ماس کے ٹکڑے۔۔۔۔
مگر یہ سب زیادہ بدبودار نہیں ہوتے تھے،
کم از کم یہ ایسے کھانے نہیں تھے کہ جنہیں حلق سے نیچے اتارنے کے لیے ماں کا دودھ پینا ضروری ہوتا!
یہ ایک شب کی بات ہے کہ جب میں دیوار پر چڑھا ہوا تھا اور میں نے بہت دور کچھ چمکتی ہوئی اور حرکت کرتی ہوئی چیزیں دیکھیں۔۔۔
میں نیچے اترا اور ماں سے کہا،
نجانے انہوں نے مجھے کیوں اتنا زور سے ڈانٹا کہ میں سہم کر زمین سے لگ گیا۔۔
میری ماں نے کہا:
”دوبارہ کبھی اس طرف مت دیکھنا“
اور میں! ۔۔۔۔۔ میں ایک نئی چیز سے کیسے باز رہ سکتا تھا؟
میں اپنی ماں کے سونے کا انتظار کرتا،
جب وہ سو جاتیں میں پھر سے دیوار پر چڑھ جاتا اور گھنٹوں ان چمکدار چیزوں کو ادھر سے ادھر حرکت کرتا ہوا دیکھتا۔
ایک طویل عرصے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میری ماں کو کسی مہلک مرض نے گھیر لیا تھا، تب میں نے ان سے کہا:
”ماں! میرا دل کرتا ہے میں اس طرف جاؤں اور ان چیزوں کو غور سے دیکھوں،
آخر اس دنیا میں کچھ تو اور بھی ہے جو مجھے قریب سے دیکھنا ہے۔“
سننے میں تھوڑا عجیب ہے مگر ماں اس روز نہیں چیخی۔۔۔
شاید وہ جان گئی تھیں کہ ”اب میرا ارادہ پوچھنے سے زیادہ انہیں بتانے کا ہے کہ مجھے وہاں جانا ہے“
وہ اٹھیں،
انہوں نے مجھے پیار کیا،
اور پھر میرے قریب ہوکر بیٹھ گئیں۔
ماں کو روتے دیکھنا آسان کام نہیں ہے!
مگر ان کا میری اس بات پر رونا، مجھے بھی عجیب لگا۔
پھر وہ دھیرے سے بولیں:
”بیٹا! وہاں مت جانا،
وہاں کے رہائشی بہت بے مروت ہیں، اگر تو وہاں چلا گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔
تجھے پتہ ہے تیرا باپ بھی وہاں سے آیا تھا، اور میری کوکھ میں تجھے چھوڑ کر چلا گیا پھر کبھی نہیں لوٹا“
میں رنجیدہ ہو گیا،
مگر اگلے ہی لمحے میرا ارادہ اور مضبوط ہوگیا۔
مجھے لگا مجھے اپنے باپ کو تلاش کرکے اسے ماں کی بیماری کا بتانا چاہیے،
مجھے وہاں جانا چاہیے،
بلکہ میرا جانا ضروری ہے۔
میں نے اپنی ماں سے اس ارادے کا ذکر نہیں کیا،
جانے وہ کیا کیا بتاتی رہیں مگر میں خیالات میں بہت آگے نکل چکا تھا
اور پھر!
جب رات گہری ہوچکی تھی،
میں دبے قدموں اٹھا اور دیوار پھلانگ کر آگے بڑھ گیا،
ایک لمحہ میں رکا،
مگر میں نے سوچا میری ماں کا وہ پیار جو اس نے مجھے کچھ دیر پہلے کیا تھا، اختتامی بوسہ تھوڑی ہے!
میں تو جلد اپنے باپ کو تلاش کرکے لوٹ آؤں گا۔
میں نے طویل سفر طے کیا اور
اور پھر میں حیرت سے سہم کر رہ گیا۔۔۔۔
میں وہیں کھڑا تھا جہاں پر جانے کیوں مجھے ماں نے آنے سے منع کیا تھا۔
واقعی! دنیا چھوٹی نہیں ہو سکتی۔
وہ تیز چمکتی روشنیاں اب میرے سامنے تھیں،
ایک طویل اور چوڑی سڑک پر بھاگ رہیں تھیں۔
میں نے زندگی میں پہلی بار ”گاڑیاں“ دیکھیں،
وہ روشنیاں اور چمک انہی کی تھیں
میں انھیں دیکھتا رہا۔۔۔۔
پھر میں اور آگے بڑھا،
یہاں کے باسی واقعی عجیب تھے،
بہت عجیب،
ان کے لمبے لمبے ہاتھ اور ٹانگیں تھیں،
ان کے منہ اوپر کی طرف اٹھے ہوئے تھے،
دن نکل چکا تھا،
بھوک سے میں ادھ مرا ہورہا تھا،
میں نے ایک جگہ ماس لٹکا ہوا دیکھا،
مجھے لگا یہ میرے لیے ہے،
ہم ہی تو یہ کھاتے ہیں۔
وہاں کے باسیوں میں سے ایک نے مجھے اس ماس/گوشت کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر ایک پتھر میری طرف اچھالا،
وہ مجھے سر کے عین بیچ میں لگا،
میں زور سے چیخا،
ارد گرد کھڑے ان جیسے اور لوگوں نے مجھ سے سہمنا شروع کردیا!
انہیں لگا ”میں پتھر کے درد سے چیخ رہا ہوں جبکہ میں اس درد کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ رہا تھا کہ مجھے بھوک لگی ہے،
میں بس یہاں اپنے باپ کو تلاش کرنے آیا ہوں،
میری ماں بیمار ہے،
میرا مقصد تم لوگوں کو ڈرانا نہیں ہے“
مگر!
مگر وہ لوگ اور پتھر اٹھانے لگے،
میں سچ مچ ڈر گیا اور بھاگنے لگا،
میں رو بھی رہا تھا،
بھوک سے مجھے میری ماں کا چپکا ہوا لاغر پیٹ یاد آیا،
مجھے یاد آیا ماں نے مجھے یہاں آنے سے اسی لیے روکا تھا
کیونکہ کوئی میری بات سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔
میں بھاگتے اور بچتے ہوئے ایک بند گلی میں کھڑی گاڑی کے نیچے دبک کر بیٹھ گیا،
میرے سسکنے کی آواز بند ہی نہیں ہورہی تھی۔
”مجھے واپس جانا ہے،
ماں! تم کہاں ہو؟“
میں زور زور سے رونے لگا۔
گلی میں کھیلتے کچھ بچوں نے میری آواز سن لی،
وہ میری طرف ہر جانب سے بڑھے،
مجھے لگا وہ میری مدد کے لیے آرہے ہیں جیسے مجھے روتا دیکھ کر ماں آتی تھیں،
وہ میرا زخم یا اپنا زخم چاٹ کر ٹھیک کرتی تھیں،
میں نے بھی کوشش کی، مگر جہاں پتھر لگا تھا وہ جگہ زبان کی پہنچ سے دور تھی۔
کسی کی بھی زبان سر تک نہیں پہنچتی ہے!
وہ بچے میری طرف بڑھ رہے تھے،
ایک امید جاگی کہ ”وہ میری مدد کرنے والے ہیں
اور شاید ان میں سے کسی کے پاس کھانے کو کچھ کھانا بھی ہو“
مگر!
مگر! وہ مفروضہ بھی دم توڑ گیا۔
کچھ بچوں نے مجھے گاڑی کے نیچے سے نکالنے کے لیے لاٹھی کا استعمال کیا،
میں اور دبک گیا۔
پھر انہوں نے بھی پتھر مارے،
میں اور زور سے چیخا،
وہ بھاگ گئے۔
مجھے لگا کہ میرا چیخنا انہیں بھگاتا ہے سو میں اور زور زور سے چیخنے لگا،
مگر یہ کیا؟
کچھ آوازیں ابھریں،
وہ سب ایک دوسرے سے کچھ کہ رہے تھے،
گہماگہمی بڑھ رہی تھی،
مجھے لگا وہ کہ رہے ہیں ”میں پاگل ہوں“
مگر میں تو پاگل نہیں تھا،
اچانک گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور میرا سر ننگا ہوگیا،
ایک بار پھر سے چھت ہٹ گئی،
جیسے ہی گاڑی مجھ پر سے ہٹی،
ان سب نے یک دم مجھ پر پتھر پھینکنا شروع کردیے۔۔۔
میں بھاگا۔۔۔۔۔
زور سے بھاگا۔۔۔۔۔
بہت زور سے بھاگا۔۔۔۔۔۔
بلکہ سب سے تیز بھاگا۔۔۔۔۔
پتھر بہت زور سے لگتے ہیں!!
پتھر لگ بھی رہے تھے۔۔۔۔۔
کہیں کہیں سے خون بھی رس رہا تھا۔۔۔۔۔
مگر میں بھاگ رہا تھا۔۔۔
اندھادھند۔۔۔۔۔
کسی بھی غیر متعین سمت کی طرف۔۔۔
میں بہت تیز بھاگتا رہا۔۔۔۔۔
اسی اثنا میں میری نظر ایک طرف پڑی۔
میں نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا،
وہ میرا سب سے بڑا اور خوبصورت بھائی تھا
جو ہم سب کو سب سے پہلے چھوڑ کر گیا تھا
مگر اب حالت کچھ عجیب سی تھی،
اس کے گلے میں پٹا تھا،
کچھ بچے اسے رسی سے کھینچ کر ساتھ ساتھ چلا رہے تھے،
وہ بھی بہت انداز سے ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا،
میں سمجھ گیا!
یہ سب اس کی خوبصورتی کی بدولت ہے کہ اسے پتھر نہیں پڑ رہے۔۔۔
میں نے اسے مدد کے لیے آواز دی،
وہ ایک منٹ کے لیے رکا!
اس نے میری طرف دیکھا اور۔۔۔۔۔۔
اور میں جانتا ہوں وہ مجھے پہچان گیا تھا
مگر اس نے فوراً ہی منہ موڑ لیا۔
بھائی ہی بھائی سے منہ موڑتے ہیں!!
میں نے اسے پھر آواز دی اور کہا: ”بھوک لگی ہے،
ماں بھی بیمار ہے،
باپ بھی نہیں مل رہا ہے،
پتھر بھی لگے ہیں،
خون رس رہا ہے،
مگر! وہ نہیں رکا،
آگے بڑھ گیا۔
اسے بھی ”انسانوں“ کی طرح میرے دکھ سے کیا لینا دینا تھا،
سب کا اپنا اپنا پیٹ بھرا ہونا چاہیے!!
دفعتاً ایک اور پتھر مجھے پیچھے سے آکر اتنی زور سے لگا کہ میں وہیں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
رک جاؤ!
خدا کے لئے مت مارو!
میں جہاں سے آیا ہوں وہیں جارہا ہوں، مگر جانے کا راستہ نہیں مل رہا!
مجھے اپنی ماں کے پاس واپس جانا ہے!
میری ماں کو میرے سب بھائی چھوڑ گئے تھے،
اسے اس کا شوہر بھی چھوڑ گیا تھا،
مجھے اسے نہیں چھوڑنا تھا،
پر غلطی ہوگئی ہے،
واپس ۔۔۔۔۔ جانے دو!
مگر! کہاں؟
وہ اور مارنے لگے۔۔۔
دراصل میرے جسم سے ٹپکتے خون کو دیکھ کر میں انھیں پاگل لگ رہا تھا،
پاگل، جو کاٹ لیتا ہے۔۔۔۔۔۔
میں پھر سے اٹھا اور بھاگنے لگا۔۔۔۔
اب کی بار میں پہلے سے زیادہ تیز بھاگا تھا۔
میں قسم کھاتا ہوں! میں بہت تیز بھاگا تھا،
اتنا تیز کہ! میں نے کسی انسان ، کسی گاڑی کی پرواہ نہیں کی
اور پھر وہی ہوا جو ماں نے کہا تھا:
”بیٹا! اگر تو وہاں گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا“
ماں کتنی سچی تھی!
ایک تیز رفتار بلکہ مجھ سے تو کم رفتار گاڑی مجھ پر سے گزر گئی۔۔۔۔۔
میں اس طویل سڑک پر پچک کر رہ گیا جس پر دوڑتی روشنیوں کو دیوار پر بیٹھ کر گھنٹوں دیکھا کرتا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی میرے پچھلے دھڑ سے ہوکر گزری تھی،
پتہ نہیں پچھلی ٹانگیں کہاں چلی گئیں؟
دِکھ ہی نہیں رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
میں نے پوری کوشش کی کہ اٹھوں اور پھر سے بھاگوں!
بس! یہ سڑک کراس کرنی ہے اور سامنے ہی کچھ دور وہ گھر ہے جہاں ماں اداس بیٹھی میرے آنے کا انتظار کر رہی ہوں گی،
بس کچھ ہی دور!
مگر! یہ کیا؟
ایک اور ۔۔۔۔۔ گاڑی گزر گئی!
اب کی بار سر پر سے۔۔۔۔۔
میرا بھیجا کھل گیا،
لمبا ہوکر دور تک ٹائروں سے چپک کر آگے چلا گیا،
میں مرگیا۔۔۔۔
میں وہیں مر گیا۔۔۔۔۔۔
روڈ سے چپکا ہوا۔۔۔۔۔۔
پچکا ہوا۔۔۔۔۔
بنا ٹانگوں کے۔۔۔۔
بنا سر کے۔۔۔۔
کچھ کھائے بغیر۔۔۔۔
باپ کو ڈھونڈے بغیر۔۔۔۔۔
ماں سے ایک اور بار پیار لیے بغیر!!
پر تمہیں میں نے ایک بات نہیں بتائی،
میں جب دیوار سے اتر کر شہر کی طرف جارہا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ ماں سورہی ہے،
تب ماں جاگ رہی تھی،
وہ مجھے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی،
اُسی دیوار کی ایک اوٹ سے!!
نم آنکھوں کے ساتھ!!
شاید وہ جانتی تھی کہ!
”میں واپس واقعی نہیں لوٹونگا“