کسی لڑکی کی پوسٹ پڑھی کہ نکاح سے ایک ماہ پہلے منگنی ٹوٹ گئی
جس پر وہ تو شدید ڈپریشن میں ہیں ہی ، والدہ اس سے زیادہ
بستر پر ہیں ۔
اور وہی خوف کہ لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔
ہم معاشرے میں کیا منہ دکھائیں گے ،
اب میرا کیا بنے گا ۔
ایک بہت عزیز ، بہت پیاری سہیلی ہیں جن کا رخصتی سے قبل نکاح ختم ہوگیا ۔۔۔
وہ مجھے کہیں مجھے ایسا لگتا ہے میں مرجاوں گی ،
میں اب تک زندہ کیسے ہوں ۔
لوگ میرے متعلق کیا سوچیں گے ۔
کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے
میں لڑکیوں کو سمجھاوں اور جہاں تک ممکن ہو سمجھاتی بھی ہوں کہ
"بات پکی نہ ہونا ، منگنی ہو کر انکار ہوجانے سے بہتر ہے ۔
منگنی ٹوٹ جانا ،
نکاح ہوکر ختم ہوجانے سے کہیں بڑی ی ی ی نعمت
اور اللہ کا کرم ہے ۔ رخصتی سے قبل نکاح کا ٹوٹ جانا
آپ کے لیے اللہ کی وہ مدد ہے
جس کا آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتیں ۔۔۔
رخصتی کے بعد اولاد کے دنیا میں آجانے سے قبل
آپ کا کسی اذیت بھرے تعلق سے نکل آنا
اللہ کا آپ پر وہ احسان ہے
جو اس نے آپ کی کسی نیکی کے عوض آپ پر کیا ۔۔۔
اولاد کے بعد بھی آپ کو چھوڑ جاتا ہے
یا آپ ہمت کرکے کسی تعلق سے نکل آتی ہیں
تو وہ ساری زندگی کسی ٹاکسک
اور ابیوزو رشتے میں رہنے سے
کہیں ں ں بہتر ہے ۔
" آپ کی زندگی میں اس قسم کی آزمائشیں آتی ہیں
تو اس کا پہلا مطلب یہ ہے کہ آپ ڈھیر بہادر ہیں
جو اللہ نے اس آزمائش کے لیے آپ کو چنا
ورنہ یقین کریں
یہ آزمائش بہت بھاری ہے ،
ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے اسے سہنا!
اس لیے سب سے پہلے تو خود پر فخر کریں ،
خود کے ساتھ رہیں ،
خود کا خیال رکھیں
دوسرے نمبر پر
اللہ کی رضا میں راضی رہنا سیکھ جائیں ۔
خود کو کسی دن فرصت سے اکیلے بیٹھ کر سمجھائیں
کہ
اللہ نے قسمت ہی ایسے ڈیزائن کی تھی ۔۔۔
ہم کہیں بھی ہوتے ہمارے نصیب کا یہ لکھا ہم تک پہنچنا ہی تھا ،
ہماری منگنی ،
نکاح ، شادی ،
اتنے سالوں کا تعلق
شاید اتنے ماہ و سال پر ہی محیط تھا
اس کے بعد
اللہ نے اس انسان سے
ہمیں دور کرنا ہی تھا ۔
کبھی سوچا ہے
"اللہ ایسے بیٹھے بیٹھے آپ سے منسوب شخص کو آپ سے الگ کیسے کردے گا ؟
کیوں کیا ہوگا اس نے ایسا ؟
ایسا بھی کیا نظر آیا ہوگا
ستر ماوں سے بڑھ کر چاہنے والے رب کو
اس تعلق میں کہ اس نے ہمارے کندھوں پر اتنا بھاری بوجھ لاد دیا
لیکن یہ منظور نہ کیا
کہ اس تعلق کا کوئی
شر ہم تک پہنچے ؟
ہمارا اصل مسئلہ پتا کیا ہے
"اللہ پر ، اس کے فیصلوں ،
اس کے پلانز پر
یقین نہیں کرتے۔"
ہم معاشرے کو سنتے ہیں ۔
معاشرہ ہمیں بیچاری ڈکلئیر کررہا ہے
اور ہم خود کو سمجھ بھی رہے ہیں ، کیوں ؟
بیچاری پتہ ہے کس کو کہتے ہیں؟
جس کے سر پر چھت نہ ہو ،
جس کو تین وقت سے پیٹ بھر کر
کھانا نہ ملا ہو ،
جس کے تن پر
سردی میں گرم کپڑے
اور گرمیوں میں
پیروں پر چپل نہ ہو بس!
میں تو کسی ہاتھ بازو سے محروم انسان کو بھی بیچارہ نہیں کہہ سکتی ،
میرا دل نہیں مانتا ۔۔۔
تو آپ نعمتوں سے مالامال ، رشتوں سے مالامال ، رزق سے مالامال خود کو بیچاری کیسے کہلوا سکتی ہیں ؟
خود میں ہمت پیدا کریں ۔۔۔ یہی وقت ہے معاشرے کے تمام ہندوانہ رسم و رواج کو ختم کرنے کا ، غم کی چادر اوڑھ کر ایک کونے میں لگ کر بیٹھنے سے آپ سے سب ہمدردی بھی کریں گے ، بیچاری بھی کہیں گے ، ترس بھری ہوئی نگاہوں سے بھی دیکھیں گے پر یقین کریں ان چیزوں کا ٹکے کا بھی فائدہ آپ کو یا آپ سے کچھ سیکھنے والوں کو نہیں ملے گا ۔
خود کو ایک مثال بنائیں ۔۔۔ دنیا کو بتائیں کہ غم ملنے کا مطلب بستر سے لگ جانا نہیں ہوتا ،
آپ کے والدین ، بہن بھائی ، اپ سے انسیت رکھنے والے آپ کو اداس دیکھ کر اور اداس ہوں گے ، اس لیے ناقدرے لوگوں کے غم میں قدردان لوگوں کو مت بھولیے خصوصا والدین کے لیے ہمت بنیں ، انہیں تسلی دلائیے کہ "یوں کسی ایک رشتے کے ختم ہوجانے سے زندگی رک نہیں جاتی ، زندگی تب رک جاتی جب ہم اس رشتے کو قائم رکھتے رکھتے خود ختم ہوجاتے ۔"
پچھلے دنوں کسی ایسے ہی ایک انباکس آنے والی لڑکی کو سمجھایا تھا کہ "کوئی چھوڑ جائے تو خود کو ایسا نہیں بنانا چاہیے کہ چھوڑنے والا شکر منائے
یا آپ کی حالت سے لطف لے ۔۔۔
بلکہ خود کو تراش کر ایسا ہیرا بنانا چاہیے
کہ چھوڑنے والا دن میں دس بار آپ کو چھوڑ دینے پر پچھتائے ۔"
سوچ بدلیں ، نظریے بدلیں ، معاشرے کے سیٹ کیے گئے عجیب و غریب اصول ہوا میں اڑائیں ۔۔۔
کیونکہ وہ نہ دنیا میں کارآمد ہیں
نہ آخرت میں ۔