مائیں خواب پرست ہوتی ہیں۔ لنگوٹ میں موتنے والے کے لیے بھی سوچتی ہیں کہ ایک دن راجا بنے گا، چاند سی دلہن لائے گا۔ اس کے یعنی اس کی بیوی کے بچے ہوں گے۔۔۔ یہ سب اردو کے پہلے قاعدے میں لکھ دیا جاتا تھا۔ بعد میں ہونے والی بہو سے لڑائیوں کا اسکرپٹ "ہم" کے ڈراموں سے شروع ہوا۔ باپ بہت پریکٹیکل ہوتے ہیں۔ ہر بچے کو ڈاکٹر، کمشنر بنانے کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔۔۔ مگر جیسے ہم حلوہ بنانے کی کوشش کریں تو بن جاتا ہے حلیم، ویسا ہی ابا کی مرضی کا ہوتا ہے۔ مجوزہ گورنر ثابت ہوتا ہے جورو کا غلام۔۔۔ مسیحا بننے والا ہو جاتا ہے مریضِ عشق۔
ہمارے ابا نے بھی چاہا تھا کہ لونڈا اتنا دولت مند ہو جائے کہ محلوں (اسے محلہ کی جمع نہ سمجھا جائے) میں رہے۔ ایک ہارس پار کے تانگے میں نہیں، جرمن اسپورٹس کار میں پھرے۔ دفتری نوٹ نہ لکھے، کرنسی نوٹوں میں کھیلے۔ مگر تقدیر کا لکھا کون جانتا ہے، ہوا وہی جو نوشتۂ تقدیر تھا۔ فرسٹ ایئر میں ہی سائنس سر کے اوپر سے گزر گئی۔ الجبرا کے نام سے جلاب ہونے لگے۔ کیمسٹری سے لرزہ طاری ہونے لگا۔ کچھ بھی نہ پڑھ کے بھی عیش کرنے کا تصور صرف نوابوں یا ڈاکوؤں میں تھا۔ مجبوراً رجوع کیا معاشیات، نفسیات جیسے علوم کی طرف۔۔۔ جیسے کراچی میں ٹیکسی نہ ملے تو بندہ رکشا میں بیٹھ جاتا ہے۔ اور اتھل پتھل ہونے کے باوجود اکثر صحیح سالم اتر بھی جاتا ہے۔۔۔
ڈگریاں ہم نے بھی پکڑ لیں مگر یہ علمی بیگاریاں رائیگاں گئیں، جیسے فرہاد کی ملک پلانٹ والی اسکیم۔۔۔ شیریں ملی شیریں محل مٹھائی والوں کو۔ اگر پہلے سے معلوم ہوتا کہ برخوردار کہانیاں لکھ کر نام اور پیسہ کمائے گا تو اعلیٰ تعلیم کا سارا خرچ بچ جاتا۔ مگر یہ راز تو راز ہی رہتا ہے کہ تقدیر کی بند ہانڈی میں سے بالآخر حلوہ نکلے گا یا حلیم۔ بخدا ہمیں معلوم نہ تھا کہ چھوٹی موٹی کیا ہم 66 لاکھ الفاظ والی ایک کہانی "شکاری" لکھ ماریں گے۔۔۔ چلو یہ بھی ہو گیا۔ مگر اس کے بعد ہمارا کیا قصور کہ ہم نے تو کہانی چودہ برس لکھ کر 1997 میں ختم کر دی تھی لیکن وہ ختم نہیں ہوئی۔۔۔
آج 28 سال بعد آپ یوٹیوب پر وہی "شکاری" کلک کریں اور پڑھ لیں یا سن لیں۔۔۔ ہماری عقل دنگ تھی کہ وہ جنریشن نہ رہی جس نے کہانی پسند کر لی تھی۔ اس کے بعد تو جنریشن X اور Z آ گئی۔ ان کی زبان ہم نہیں سمجھتے۔۔۔ "پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے"۔۔۔ تو "شکاری" کا نام تیس برس بعد کیسے چل رہا ہے۔ یہ عقدہ وا کیا ایک کتاب میلے میں کچھ دور اندیش احباب نے کہ میاں بے خبر۔۔۔ دنیا کیسے اور کتنی بدل چکی ہے یہ جان لو۔ تمہارے اپنے شہرِ اقتدار میں ایک کاروبار "آڈیو بکس" کا چل رہا ہے اور ایک خاتون کی دکان کا نام پتہ بھی دیا جہاں "شکاری" اس نئی صورت میں خوب بک رہی تھی۔
جب ہم نے پوچھا تو اس نیک بخت لبابہ حیدر نے بلا تکلف اعتراف کیا کہ ایسا ہے۔۔۔ بمبئی کا کوئی سیٹھ اکبر ہے جو "شکاری" کی ایک قسط پڑھنے کا اچھا معاوضہ دیتا ہے۔۔۔ لیکن جب مجھے کسی اور نے، مطلب میری آواز کو زیادہ کرایہ پر لیا۔۔۔ تو میں نے پرانا کنٹریکٹ کسی اور کو فروخت کر دیا۔۔۔ چنانچہ یوٹیوب پر "شکاری" کو آج سوشل میڈیا کی دنیا نے سنا اور سن رہی ہے۔ چلن یہ ہے کہ موبائل فون سرہانے رکھو اور آرام سے لیٹ کر صداکاری کے کمال کے ساتھ مزے لو، تصور میں تصویر دیکھو۔ یورپ، امریکہ اور ساری دنیا میں اردو پڑھنے والے اب ایسا ہی کرتے ہیں۔
واللہ ہم دم بخود رہ گئے کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔۔۔ اور ہم محوِ خوابِ فردا ہی رہے، لیکن یہ صدی ہماری نہیں۔ اکیسویں صدی کے سوشل میڈیا کی ہے۔۔۔ کتاب کی صدی عالمِ نزاع و نزع میں دن پورے کر رہی ہے۔۔۔ ہماری ساری تحریر PDF پر ہے اور ہم خود بھی ہر نئی پرانی تحریر کو لیپ ٹاپ پر لکھنا ہی نہیں پڑھنا بھی چاہتے ہیں۔۔۔ اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے کہ آپ لیپ ٹاپ کے اسکرین پر حروف کو چھوٹا بڑا کر کے پڑھتے جائیں اور انگلی کے اشارے سے صفحات پلٹتے جائیں۔ پس منظر میں چل رہی ہو مدھم سر میں موسیقی۔ تصور عرش پر ہو اور سر ہو پایۂ ساقی پر۔ رہ گئی کورے کاغذ کی خوشبو۔۔۔ تو عین ممکن ہے اس کی برانڈڈ پرفیوم بھی آ چکی ہو جو آپ اسپرے کر لیں تو سارے چکر ختم۔ لگے نئی نویلی کتاب سامنے ہے۔۔۔ اب کون جائے دکانِ کتب فروش تک ہزاروں کا خرچ کرے اور اس کے باوجود چشمہ لگا کے بھی نہ پڑھا جائے تو پکارے کسی کو کہ نورِ چشم ذرا دیکھنا یہ کیا لکھا ہے۔
اس وقت کی کیا بات کریں جو ہمارا نہیں۔ لیکن ہم کو نظر آتے ہیں کچھ آثارِ جدا۔۔۔ "اے آئی" گھٹنوں چل رہا ہے۔۔۔ "چیٹ جی پی ٹی" نے نتھو نائی کو صاحبِ دیوان بنا کے مارکیٹ میں پہنچا دیا ہے اور فتو فقیر کے ناولوں کو عام کر دیا ہے۔۔۔ لگتا ہے جلد ہی شاعری اور فکشن کا پیشہ بھی داستانِ ماضی ہوگا۔۔۔ جیسے ڈھاکے کی ململ، مراد آبادی نقاشی، خوش نویسی، قلعی گری ہوئی۔۔۔ دنیا تو اسی طرح چل رہی ہے۔