ہندوستان: حقیقی قوم پرستی سے اشرافیائی قوم پرستی تک (حصہ اول)
ہندوستان: جاتیوں اور مزاهب کا ایک رنگین کینوس
قبل از نوآبادیاتی دور میں ہندوستان ایک رنگین کینوس یا گویا ایک رلی کی طرح تھا، جو سیکڑوں علاقائی ثقافتوں، زبانوں اور سماجی ڈھانچوں سے مل کر بنا تھا۔ بنگال، پنجاب، دکن، راجپوتانہ..ہر خطے کی اپنی تہواروں کی روایت، لباس، طرزِ حکمرانی اور مقامی قانون رائج تھے۔
لیکن یہ شناختیں الگ الگ خانوں میں قید نہیں تھیں۔ لوگ سفر کرتے، تجارت کرتے، رشتے جوڑتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد قائم کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک پنجابی تاجر گجرات میں کاروبار کرسکتا تھا، ایک راجپوت حکمران کسی مسلمان سلطان سے دوستی و اتحاد کرسکتا تھا، اور کاریگر مختلف خطوں میں جا کر کام کرتے تھے۔ مختلف جاتیاں ایک دوسرے کے ساتھ مذہب اور ذات کے فرق کے باوجود مل جل کر نہر بندی، تہواروں اور گاؤں کے دفاع میں تعاون کرتی تھیں۔ کوئی شخص اپنے ذات برادری کے ساتھ بھی وابستہ رہ سکتا تھا، اپنے گاؤں سے بھی جڑا رہتا تھا اور ساتھ ہی ایک بڑے "ہندوستانی" ثقافتی دائرے کا بھی حصہ سمجھا جاتا تھا۔
طاقت کی تقسیم مقامی سطح پر
طاقت زیادہ تر decentralized تھی۔ پانی کی نہر کا بٹوارہ، زمین کا استعمال، یا دیہاتی جھگڑے، سب کچھ مقامی سطح پر طے ہوتے۔ برادری ، پنچایت ، دیہاتی کونسل جیسے سسٹم موجود تھے ۔ مرکز یا بڑی ریاست پر انحصار کم تھا۔
سیاست بین المزاهب اور بین الطبقات
اس دور میں لیڈر کسی ایک پوری کمیونٹی کے “قدرتی نمائندے” نہیں سمجھے جاتے تھے، بلکہ ان کی حیثیت مقامی انتظامی اہلیت، زمین کی ملکیت، روحانی وقار یا اتحاد قائم کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہوتی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سیاست اکثر بین المذاہب اور بین الطبقات بنیاد پر چلتی تھی۔ مثلاً مسلمان پیروں کے ہندو مرید ہوتے تھے، راجپوت زمیندار کسان بغاوتوں میں نچلی ذات کے لیڈروں سے اتحاد کر لیتے تھے، اور تجارتی یا رسوماتی ضرورتوں کے تحت جاتی کی حدود ڈھیلی پڑ جاتی تھیں۔
جاتی اور شناخت کا لچکدار نظام
لوگوں کو صرف ایک کمیونٹی کا نمائندہ بننے پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا۔ایک کسان خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص لوہار جات کا بھی حصہ ہو سکتا تھا، کیونکہ وہ کھیتی کے ساتھ ساتھ اوزار بنانے کا پیشہ بھی رکھتا تھا۔ ساتھ ہی وہ گاؤں کی مذہبی برادری (مثلاً کسی درگاہ یا مندر کے سلسلے) میں شریک ہوتا، اور اپنی علاقائی یا خاندانی شاخ کے ساتھ رشتہ داریاں بھی نبھاتا۔ اس طرح وہ ایک ہی وقت میں کسان بھی تھا، لوہار جاتھ سے بھی جڑا تھا، اپنے قبیلے/علاقے کی شناخت بھی رکھتا تھا اور مذہبی روایت سے بھی رشتہ رکھتا تھا۔اور ایک ہندوستانی بھی تھا ۔
یعنی ایک ہی فرد بیک وقت کئی ذیلی گروہوں (subgroups) میں فعال کردار ادا کرتا تھا۔ یہی لچک جاتی کو ایک "Rigid" ڈھانچے کے بجائے لچکدار اور باہمی تعاون پر مبنی نظام بناتی تھی، جو تجارت، سیاست اور مزاحمت میں cross-connections پیدا کرتی تھی۔
یہ لچکدار اور جُڑی ہوئی شناختی ساخت ہندوستانی تنوع کو طاقت بناتی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج یورپ میں مختلف قومیں اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں ۔
یورپ اور ہندوستان کا فرق
یورپ میں قوم پرستی نے چھوٹی چھوٹی برادریوں کو ملا کر "ایک بڑی قوم" بنائی۔
ہندوستان میں برطانوی ماڈل نے برعکس کیا: سب کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بانٹ دیا۔
یورپ میں "کسان + مزدور + شہری" مل کر فرانسیسی یا جرمن قوم بنے۔
ہندوستان میں "ہندو + مسلمان + سکھ" الگ الگ قوموں کے طور پر بٹھائے گئے۔
انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہندوستان دراصل الگ الگ "برادریوں" پر مشتمل ہے جو کبھی ایک قوم نہیں بن سکتیں۔
استعماری حکمتِ عملی: خانہ بندی
برطانوی حکمرانوں کو یہ "لچکدار" نظام ناقابلِ انتظام (ungovernable) لگا۔اس لیے انیسویں صدی کے وسط سے انہوں نے مردم شماری (census) اور "classifications" کے ذریعے کمیونٹیز کو مخصوص خانوں میں قید کرنا شروع کیا: ہندو، مسلمان، سکھ، ذات، قبیلہ، وغیرہ۔یہ لیبلز مستقل اور جامد بنا دیے گئے۔
برطانوی سیاست اس بنیاد پر چلنے لگی کہ ہر گروہ کا ایک "قدرتی لیڈر" ہو جو اس کے نمائندے کے طور پر کام کرے۔1857 کی بغاوت کے بعد انگریزوں نے اس پالیسی کو محفوظ طریقۂ حکمرانی سمجھا:کمیونٹیز کو الگ الگ رکھنا،انہیں علیحدہ علیحدہ "منیج" کرنا،اور متحد قومی تحریک کے امکانات کو ختم کرنا
سیاسی اثرات: علیحدہ حلقے اور دو قومی نظریہ کی ابتدا
یہی سوچ بعد کی نوآبادیاتی اصلاحات (colonial reforms) جیسے "separate electorates" میں جھلکی۔اس طرح کمیونٹیز کو مکمل طور پر الگ اور "sealed units" کے طور پر دکھایا گیا جو کبھی بھی ایک وسیع تر قومی شناخت میں ضم نہیں ہوسکتیں۔علیحدہ انتخابی حلقے (Separate electorates) میں مسلمان صرف مسلمانوں کو ووٹ دیتے، ہندو ہندو کو۔ یوں وسائل اور نمائندگی سب برادری کے کھاتے میں گئے، قومی اتحاد کمزور ہوا۔
نمائندگی صرف "communal leaders" کو ملی (ہندو مہاسبھا، مسلم لیگ، سنگھ سبھا وغیرہ)۔ برطانوی حکومت معاملات اب عوام سے نہیں ، بلکہ ان لیڈرز اور اشرافیہ سے طے کرتے ۔نتیجہ یہ کہ طاقت عوام کے ہاتھ میں نہیں گئی بلکہ برادری یا مذہبی ایلیٹ کے ہاتھ میں ہی رہی۔
ذات اور مذھب کی institionalization
انگریزوں نے برہمنائی قانون کو "Hindu personal law" کے نام پر ریاستی سطح پر نافذ کیا، تاکہ سماج جامد رہے۔مذہبی اور ذات پات کی سختی کو "legitimize"کیا،مسلمانوں کے لیے "Anglo-Muhammadan Law" بنایا گیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ذات پات اور مذہبی تفریق کو institutional پاور مل گئی۔
تاریخ نویسی اور شناختی سیاست کی ابتدا
ہندوستان میں شناختی سیاست (Identity Politics) نوآبادیاتی دور میں شروع ہوئی تھی، 1947 کے بعد نہیں۔
پارتھا چٹرجی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر میں برطانوی اہلکاروں اور ان کے ہم خیال ہندوستانی دانشوروں نے الگ الگ مذہبی بنیادوں پر تاریخیں بنانا شروع کیں۔ مثال کے طور پر، جیمز مل نے ہندوستان کی تاریخ کو "ہندو"، "مسلم" اور "برطانوی" ادوار میں تقسیم کیا۔ اس نے یہ تصور بٹھایا کہ یہ الگ الگ اور مستقل تہذیبیں ہیں۔ بعد میں نوآبادیاتی نسلیات دان اور مردم شماری کے افسران، جیسے ہربرٹ رسلے اور ایچ ایچ رسلے وغیرہ نے لوگوں کو سختی سے مذہب اور ذات کے خانوں میں بانٹ دیا۔
انگریزوں نے تاریخ اور علم کو ایسے منظم کیا کہ لوگ ہر چیز کو مذہب اور ذات کی خانہ بندی میں دیکھنے لگے۔ یہ انہوں نے نصاب، مردم شماری، سرکاری کتابوں اور گزٹیئرز کے ذریعے کیا۔ اس کے بعد ہندوستانی مؤرخ بھی انہی خانوں کے اندر سوچنے اور لکھنے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک کو پیسے دے کر لکھوایا گیا، بلکہ یہ کہ پورا نظام ایسا بنا دیا گیا جس نے فرقہ وارانہ سوچ کو عام اور “قدرتی” بنا دیا۔قوم پرست دانشور بھی انہی خانوں اور انہی تہذیبی پیمانوں کے اندر اپنی دلیلیں گھڑنے لگے۔ یعنی آزادی کی بات بھی اکثر اسی نوآبادیاتی سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ برابری، جدیدیت یا ترقی کے جو نعروں کے ساتھ قوم پرستی ابھری، وہ درحقیقت اسی علم کے زمرے میں قید رہی جو استعماری طاقت نے وضع کیا تھا، اس لیے اسے مکمل طور پر خودمختار یا اصل ہندوستانی تصور نہیں کہا جا سکتا۔
ہندو اصلاح کار، جیسے دیانند سرسوتی اور آریہ سماج تحریک نے ویدک ماضی کو سنہری دور بنا کر پیش کیا اور ہندوؤں کو ہندوستان کے اصل وارث کے طور پر دکھایا، اور یوں بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو "باہر سے آئے ہوئے" اجنبی ظاہر کیا۔ اس کے جواب میں مسلمان مؤرخین جیسے سر سید احمد خان اور علی گڑھ اسکول نے "مسلم دور" کو جائز حکمرانی کا زمانہ قرار دیا، جبکہ سکھ مصلحین نے سنگھ سبھا تحریک کے تحت ایک الگ سکھ تاریخی تقدیر کو نمایاں کیا
۔
برطانوی حکومت نے ان تقسیمات کو مزید مضبوط کیا مذہبی مردم شماریوں، علیحدہ انتخابی حلقوں (مثلاً مورلے منٹو اصلاحات 1909) اور اسکول کے نصاب کے ذریعے، جو اب متوازی تاریخیں پڑھاتے تھے۔ اس عمل نے پرانے، لچکدار علاقائی اور پیشہ ورانہ شناختوں کو ختم کر کے سخت مذہبی کمیونٹیاں بنا دیں، جس سے بین المذاہب یا بین الطبقات اتحاد مشکل ہوگیا۔جیسے بینک چندر چیتڑ جی ، آر سی دت نے اسی تناظر اور ڈھانچے میں رہ کر تاریخ لکھی ۔