فتح اور فاتح صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ خالد قیوم تنولی

فتح اپنی تکمیل کے بعد ، دو جذبات پیدا کرتی ھے۔ غرور اور انتقام۔ مگر جب مکہ فتح ہوا تو سرکارﷺ ان دونوں جذبات سے تہی تھے۔ اس لیے کہ یہ فتح پیغمبر برحق کی فتح تھی نہ کہ کسی عمومی فرد کی۔ ابن اسحاق کی روایت ھے کہ جب آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوۓ تو انکساری اور تواضع سے آپ کی گردن جھکی ہوٸی تھی۔ 
باب کعبہ پر آپ کے خطبے کے الفاظ تھے : 
”ایک اللہ کے سوا کوٸی معبود نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور دشمن کی جماعتوں کو اس نے تنہا شکست دی۔“
لیجیے ۔۔۔ یہ ہوتی ھے عظمت حقیقی۔ سارا کریڈٹ خدا کے حساب میں۔ 
اسی خطبے میں آپﷺ نے اہل قریش سے پوچھا : ”میری نسبت تمہارا کیا خیال ھے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟“
اہل قریش نے کہا : ”بھلاٸی ۔۔۔ کیونکہ آپ شریف بھاٸی ہیں اور شریف بھاٸی کے بیٹے ہیں۔“ 
آپﷺ نے فرمایا : ”تو پھر میں آج تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف ع نے اپنے بھاٸیوں سے کہا تھا ، آج تمہارے اوپر کوٸی ملامت نہیں، جاٶ ! سب آزاد ہو۔“
یوں اس فیصلہ کن مرحلے پر آپ ﷺ نے ہمیشہ کے لیے فاتح اور مفتوح کے مابین انتقام اور ردعمل کے جذبات کی نفی فرما کر ایک مںفرد Lay out طے کر دیا۔ یہ اس لیے بھی لازم تھا تاکہ بالادستی کے حصول کے بعد صرف جذبہ۶ تعمیر کو فروغ ملے نہ کہ تخریب کو۔ اس عمومی معافی نے اسلام کے تصور امن کو مزید واضح کر دیا۔ 
مگر یہاں ذرا ٹھہریے۔ اس عمومی معافی کے باوجود آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کی بابت ان کے قتل کا حکم دیا خواہ وہ کعبے کے پردوں میں بھی چھپے ہوں۔ کیونکہ ان کے جراٸم سخت ترین تھے۔ 
ابن ہشام نے سیرت کی کتابوں میں ان لوگوں کو نام بنام مذکور کیا ھے۔ 

1 _ عبداللہ بن سعد : یہ مسلمان ہوۓ تو انھیں کاتب وحی مقرر کیا گیا۔ مگر یہ مرتد ہو کر مکہ جا پہنچے۔ فتح مکہ کے وقت یہ حضرت عثمان کے پاس گۓ جو ان کے دودھ شریک بھاٸی تھے۔ رحم کی سفارش کرواٸی۔ سفارش منظور ہوٸی۔ جان بخشی ہوٸی۔ دوبارہ اسلام قبول کیا۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے عہد خلافت میں مصر کے حاکم رہے۔ افریقہ کی فتح میں ان کاخصوصی کردار تھا۔ 
2 _ عبداللہ بن خطل : اس نے اسلام قبول کیا۔ اس کی ڈیوٹی صدقات کی وصولی پر لگاٸی گٸ۔ دوران سفر غلام کی غفلت پر اسے قتل کر دیا۔ یہ قصاص کے ڈر سے مدینہ سے مکہ جا پہنچا اور مرتد ہو گیا۔ شاعر تھا ، آپ ﷺ کی ہجو میں اشعار کہتا تھا۔ فتح مکہ کے وقت یہ خانہ کعبہ کے پردوں سے لپٹ گیا۔ معافی نہیں مانگی۔ حکم ہوا قتل کا۔ ابو برزہ ، سلمیٰ اور سعید بن حریث نےحجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اسے واصل جہنم کیا۔ 
3 _ فرتنیٰ : یہ عبداللہ بن خطل کی لونڈی تھی۔ آپ ﷺ کی ھجو میں اشعار پڑھتی اور مشرکین مکہ کی شراب کی مجلسوں میں گاتی بجاتی تھی۔ یہ بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قاٸم رہی ، نتیجتہً ماری گٸ۔ 
4 _ قُرطیبہ : یہ بھی عبداللہ بن خطل کی باندی تھی۔ اس کا بھی پیشہ و کردار وہی تھا جو فرتنیٰ کا تھا مگر اس نے آپ ﷺ کی خدمت میں امن کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے درخواست قبول فرماٸی۔ یہ مسلمان ہو گٸ۔ 
5 _ حویرث بن نقیذ بن وہب : یہ شاعر تھا۔ سرکارﷺ کی شان اقدس میں ہجویہ گستاخیاں ، اسہزا۶ و تمسخر اڑاتا تھا۔ شدید مخالف اسلام تھا۔ جب عمِ رسول حضرت عباس بن مطلب ، حضورﷺ کی صاحبزادیوں حضرت فاطمہ و حضرت کلثوم کو لے کر مکہ سے مدینہ ہجرت پر روانہ ہوۓ تو اس نے تعاقب کیا اور اونٹ کو نیزہ مار کر بھڑکا دیا جس کے باعث دونوں صاحبزادیاں گر کر زخمی ہوٸیں۔ اس نے بھی امن کی خواہش نہیں کی۔ حضرت علی نے اسے ٹھکانے لگایا۔ 
6 _ مقیس بن صُبابہ : اس کا ایک بھاٸی ہشام بن صبابہ تھا جسے غزوہ۶ قَرَد کے موقع پر ایک انصاری صحابی نے غلطی سے قتل کر دیا۔ مقیس بن صبابہ نے حضورﷺ سے اپنے مقتول بھاٸی کے دیت کی اپیل کی۔ سرکارﷺ نے دیت کی اداٸیگی کا حکم صادر فرمایا۔ یہ چند دن حضورﷺ کے پاس رہا اور پھر اپنے بھاٸی کے قتل کا بدلہ لے کر مکہ بھاگ گیا اور مرتد ہوا۔ یہ بھی اپنا شرک پر بضد رہا اور فتح مکہ کے دن نمیلہ بن عبداللہ لیثی نے اسے واصل جہنم کیا۔ 
7 _ سارہ : یہ عکرمہ بن ابی جہل کی لونڈی تھی۔ آپ کی ہجو میں گیت گاتی تھی اور مذاق اڑاتی تھی۔ اس کا خون بھی مباح کیا گیا مگر امن کی طلبگار ہوٸی تو معافی ملی۔ اسلام قبول کیا۔ 
9 - 8 _ حرث بن ہشام اور زہیر بن امیہ : ان دونوں کے قتل کا بھی حکم تھا مگر یہ اپنی رشتہ دار حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کے گھر پہنچے۔ ان کے قتل کو حضرت علی گۓ تو ام ہانی ان دونوں کو گھر میں بند کر کے حضورﷺ سے سفارش کو گٸیں اور کہا میں ان کو پناہ دے چکی ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا : جن کو تم نے پناہ دی انھیں میں نے بھی پناہ دی۔ ان کا حکمِ قتل منسوخ ہو گیا۔ مسلمان ہوۓ یا نہیں۔ مزید تفصیل میسر نہیں۔ 
10 _ عکرمہ بن ابوجہل : عکرمہ اپنے باپ ابی جہل کی مانند اسلام کے شدید دشمن تھے۔ ان کے قتل کا بھی حکم تھا مگر یہ مکہ سے نکل کر یمن چلے گۓ۔ ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث حلقہ بگوش اسلام ہو چکی تھیں جنھوں نے اپنے شوہر کے لیے بخشش کی التماس کی۔ آپ ﷺ نے درخواست قبول فرما لی جس کے بعد ام حکیم یمن گٸیں اور عکرمہ کو واپس لے آٸیں۔ عکرمہ سرکارﷺ کے حضور پیش ہوۓ اور کلمہ پڑھ کر ایمان لے آۓ۔ بعد ازیں اسلام کے لیے شاندار جانی و مالی قربانی دی۔ خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیق رض کے عہد میں مرتدین کے خلاف جہاد کرتے ہوۓ اجنادین کے مقام پر جام شہادت نوش کیا۔
11 _ ہبار بن الاسود : اس شخص نے اہل ایمان کو شدید رنج پہنچاۓ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب زوجہ ابوالعاص ہجرت کرکے جب مکہ سے مدینہ جا رہی تھیں تو ہبار بن اسود نے ان کے اونٹ کو نیزہ مارا ، اونٹ بدک کر دوڑا تو اس پر سوار حضرت زینب زمین پر گریں۔ وہ حاملہ تھیں۔ لہذا اس حادثے کے نتیجے میں حمل ساقط ہو گیا اور وہ اپنی وفات تک صحتیاب نہ ہو سکیں۔ فتح مکہ کے دن ہبار بن اسود امن کا خواستگار ہوا۔ معاف کر دیا گیا۔ وہ اسلام کی حقانیت پر ایمان لے آیا۔ 
12 _ وحشی بن حرب : وحشی نے غزوہ احد کے دوران ہندہ زوجہ ابی سفیان کے لالچ دلانے پر حضورﷺ کے چچا حضرت حمزہ کو نیزہ مار کر شہید کیا تھا۔ وحشی پہلے تو مکہ سے طاٸف فرار ہو گۓ تھے۔ بعد میں معافی کے آرزومند ہوۓ۔ حضور ﷺ نے انھیں معاف فرما دیا۔ یہ اسلام لاۓ۔ عہد خلافت فاروقی میں مسلیمہ کذاب کے خلاف جنگ میں نبوت کے جھوٹے دعویدار کو اسی انداز میں نیزہ پھینک کر قتل کیا جس طرح حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا۔ 
 13 _ کعب بن زُھیر : عرب کا معروف شاعر اور شاتمِ رسول جو کہ ہجویہ نظمیں لکھا کرتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کے قتل کا بھی حکم جاری ہوا تو بھاگ گیا۔ کچھ دن بعد مدینہ گیا اور آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر معافی طلب کی اور بیعت اسلام کی۔ آپ ﷺ نے بیعت فرمایا اور اپنی چادر مبارک عنایت فرماٸی۔ 
14 _ حارث بن طلاطل : یہ بھی شاعر و شاتم تھا۔ اس کا خون مباح ٹھہرایا گیا۔ حضرت علی رض نے اس کا کام تمام کیا۔ 
15 _ عبداللہ بن زِبعری : یہ بھی عرب کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ حضور ﷺ کی مضحکہ خیزی اور ہجو کیا کرتے تھے۔ یوم الفتح کو اپنے قتل کے خوف سے مکہ سے نجران فرار ہو گۓ۔ بعد میں توبہ کی ، اسلام قبول کیا اور معاف کر دیے گۓ۔ 
16 _ ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی : یہ موصوف بھی شاعر اور گستاخ رسالت تھا۔ اپنے ہجویہ کلام میں سرکارﷺ کا استہزا۶ کیا کرتا۔ یہ بھی نجران کی طرف بھاگ گیا اور وہیں حالت کفر میں مرا۔ 
17 _ ہند بن عتبہ زوجہ ابوسفیان : اس خاتون کو اسلام سے اول اول خدا واسطے کا بیر تھا۔ اسلام ، مسلم دشمن اور جنگ بدر میں اپنے باپ عتبہ کے قتل کے بدلے کی شدت میں اس نے جنگ احد میں حضرت حمزہ کی نعش کا مثلہ کیا اور جگر نکال کر چبایا تھا۔ اس کے قتل کا حکم بھی صادر ہوا مگر یہ بلاتردد خدمت اقدس ﷺ میں پیش ہوٸی اور امن و قبول اسلام کا عندیہ پیش کیا۔ معاف مل گٸ تو گھر جا کر سارے بت توڑ دیے اور کہا : خداۓ واحد و برحق کی قسم ، تمہاری وجہ سے ہم دھوکے میں رہے۔ مسلیمہ کذاب کے قتل سے پہلے اس نے اسی وحشی بن حرب سے کہا ، آج حضرت حمزہ کے قتل ناحق کا کفارہ ادا کرو۔ وحشی نے ویسا ہی کیا۔ یہ کٸ جنگوں میں اسلامی لشکر کے ساتھ رہیں اور جب کبھی اسلامی لشکر کے قدم اکھڑنے لگتے تو یہ رزمیہ و حربیہ اشعار کے ذریعے مجاہدین کا حوصلہ بڑھاتیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ غیرت دینی بھڑکایا کرتی تھیں۔ بقول شاعر :

 پاسباں مل گۓ کعبے کو صنم خانے سے 

فتح مکہ کے بعد یہ سترہ مرد و زن جن کے قتل کا حکم طے کیا گیا۔ یہ سبھی متعین اور معلوم انفرادی جرم میں ماخوذ و گردن زدنی تھے لیکن اس کے باوجود جس نے امن کی درخواست کی اور دامن رحمت میں آنے کی خواہش کا اظہار کیا ، اسے معافی عطا ہوٸی۔ معافی کے طالب کسی بھی فرد کو قتل نہیں کیا گیا۔ گیارہ افراد (مرد و زن) مامون رہے۔ پانچ اپنی روشِ باطل پر ڈٹے رہنے کے باعث قتل ہوۓ اور ایک مکہ سے دور نجران میں طبعی موت سے ہمکنار ہوا۔ 
یہ وہ اسلامی انقلاب تھا جس میں صرف پانچ دشمنان دین کا غیر جنگی صورتحال میں خون بہایا گیا۔ مخالفین اسلام کا وہ پروپیگنڈہ کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ، یہاں ان کی تمام دلیلیں منجمد ہو جاتی ھیں۔ اس سے پہلے اور بعد میں دنیا کے تمام انقلابات کی تفصیل دیکھی جاۓ تو انسانی خون کی ندیاں بہہ گٸ تھیں۔ 
پیغمبر اسلام ﷺ کی یہی اعلیٰ ظرفی ، فراخ دلی اور حکیمانہ سٹریٹجی کا اعجاز تھا جو فتح مکہ سے قبل اسلام و رسول اللہ ﷺ کا شدید دشمن تھا ، وہ فتح مکہ کے بعد اسلام کا زبردست مداح و پاسبان بن گیا۔
 سبحان الله و بحمدہ سبحان الله العظیم
 
           ____ تمت بالخیر ____ 
حوالہ جات : 
*** القرآن الحکیم۔
*** البدایہ و نہایة۔
*** زاد المعاد ، ابن قیم۔
*** الغات السامیہ ، ارنسٹ ریناں۔ 
*** شرح دیوان المتنبی ، بیروت ۔ 
*** تہذیب سیرت ، ابن ہشام ، جلد دوم۔
*** الجواہر فی تفسیر قرآن الکریم ، شیخ طنطاوی جوہری ، مصر ۔
*** پیغمبر انقلاب ، علامہ وحید الدین خان

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !