چھوٹی بہن کی ایم۔ایس کی پریزنٹیشن تھی۔رات بھر جاگتی رہی۔آنکھیں سوجی تھیں۔ پوچھا کیا ہوا۔کہنے لگی کوئی دعا بتا دیں۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
میں نے کہا پڑھو۔
رَبِّ ِاشْرَحْ لِي صَدْرِي
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِن لِّسَانِي
يَفْقَهُوا قَوْلِي
سورہ طہ (20:25-28)
کہنے لگی اس کا مطلب بھی بتا دیں۔ میں نے مطلب بتایا۔
'' اے
میرے رب میرے لیے میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا کام آسان کراور میری زبان
کی گرہ کھول دے کہ وہ میری بات سمجھیں''
وہ حیرت سے گنگ میری طرف دیکھ رہی
تھی۔میں نے پوچھا کیا ہوا۔ کہنے لگی۔ باجی اس میں تو میرے ہر مسئلہ کا ذکر ہے۔جس
کے لیے مجھے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔اب حیران ہونے کی میری باری تھی۔وہ گویا
ہوئی۔رات بھر پڑھنے کے بعد مجھے لگ رہا تھا۔ جیسے میرا سینہ بند ہوگیا ہو۔ مجھے
لگتا ہےکہ مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ذہن جیسے منتشر ہے۔خدشہ ہے میں کچھ بول نہیں پاؤں
گی۔جیسے زبان پر گرہ لگی ہو۔اور میرے لئے کچھ کہنا مشکل ہو۔ ایسے میں جو کہوں گی،
وہ کسی کو کہاں سمجھ آ?ئےگا۔ اللہ نے یہ سورت شاید میرے لیےہی اتاری ہے۔میری ساری
کیفیت سمجھ کر مجھے مانگنا سکھایا ہے۔کتنا مہربان ہے نا وہ رب۔
اب یہ بتائیںیہ آیت کب اور کس پس
منظر میں اتری۔ وہ اپنی ٹینشن بھول کر اس دعا کو سمجھنا چاہتی تھی۔میں نے اسے
بتایا۔ان الفاظ میں موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی۔جب انھیں فرعون کی طرف بھیجا
گیا۔ وہ سبق کی دہرائی بھول چکی تھی۔اس کا اگلا سوال تھا۔موسی علیہ السلام نے اللہ
سے دعا میں یہ سب کیوں مانگا۔وہ فوج ، طاقت اور دیگر وسائل بھی تو مانگ سکتے
تھے۔ اگر میں ہوتی تو میں شاید یہ سب
مانگتی۔ میں نے اس دعا کو بارہا پڑھا تھا اور دل کی گہرائی سے۔ اس کے اثرات بھی
ہمیشہ کئی لحاظ سے محسوس کیے تھے۔ایسے وقت جبکہ کوئی حل سمجھ نہ آتا۔یہ دعا میری
ڈھارس بندھاتی مگر اس انداز سے کبھی نہ سوچا تھا۔پیغمبر کے الفاظ اور زبان سے دعا
اور اللہ کی آخری کتاب میں بیان کی گئی۔ یقینا اس میں خزانے چھپے ہوں گے۔اس کی کھوج لگانی ہوگی تبھی ہاتھ
آئیں گے۔اس محنت اور کھوج میں تڑپ،وقت،اور جستجو لگے اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی
ہے۔یہ وہ سوچ تھی جس سے تلاش شروع ہوئی۔کیا حاصل ہوا۔آپ بھی فائدہ اٹھائیے۔
کسی کام کی سب سے پہلی رکاوٹ اندر
سے ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں سینہ بھچ جاتا ہے۔وہ نہ کھلے تو ایک قدم بھی آگے نہیں
بڑھا جا سکتا۔آپکے اندر اعتماداور خلوص پیدا ہوجا?ئے۔ کسی بھی چیز کے درست ہونے
کا یقین ہو جائے۔ ابہام نہ رہےتو دلیری پیدا ہوتی ہے۔انسان بے خوف ہو جاتا ہے۔ بات
میں وزن اور نگاہوں میں بصیرت پیدا ہوتی ہے۔بہترین مشاہدہ سوچ وفکر کے نئے زاو?یے
سجھاتا ہے۔دل میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔انسان کنویں کا مینڈک نہیں بنتا۔ دوسروں کے
نکتہ نظر جاننا چاہتا ہے۔یہی سینے کا کھلنا ہے۔ یقیناً یہ کسی کامیابی کا بنیادی
نکتہ ہے۔اسی لئے رب کریم نے دعا کی ابتدا میں سکھایا کہ اس کی کشادگی کی دعا
مانگو۔ کسی بڑی منزل کے لئے تیاری بھی اعلی درجے کی درکار ہوتی ہے۔ مسافر کے لئے جتنا ضرور ی اپنی کمزوری اور
طاقت سے باخبر ہونا ہے۔اتنا ہی ضرور ی دشمن کی طاقت کی مکمل خبر ہونا بھی ہے۔ یہاں
سکھایا گیا کہ ادراک کے ساتھ تیاریوں کے ساتھ رب سے متعین کر کے چھوٹی چھوٹی چیزیں
مانگیں۔ بڑے مقاصد چھوٹے چھوٹے پہلوؤں پر توجہ
دینے سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام نے نرم مہارتیں(سافٹ اسکلز) مانگیں۔معلوم ہوا کسی
بڑے مقصد تک پہنچنے کے لئے یہ مہارتیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔یہ بھی سکھایا
کہ چھوٹی سے چھوٹی چیزیں بھی اللہ سے مانگیں۔اللہ
پسند کرتے ہیں کہ جوتی کا تسمہ تک اس سے مانگا جائے اور اس میں شرمایا نہ جا?ئے۔
اللہ کو اپنے بندے کا مانگنا اتنا پسند ہے
کہ احادیث کے مطابق وہ رات کے پچھلے پہر آواز یں لگاتا ہے کہ کوئی ہے مانگنے والا
کہ اسے عطا کروں۔اللہ چاہتا ہے اس سے بے دھڑک مانگیں۔اس میں وہ کسی کا واسطہ نہیں
چاہتا۔اپنے بندے سے ڈائریکٹ تعلق چاہتا ہے۔ ایک باریک سی بات یہ بھی سمجھ آتی ہے۔
رب سے محبت کرنے والا بندہ دعاؤں اور التجاؤں کا وقت بڑھاتا ہے۔کہ اسے رب کا قرب
مطلوب ہے۔
ایک بات یہاں اور سکھائی گئی کہ
ہمیشہ اللہ سے آسانی مانگیں۔آزمائشیں نہ مانگیں۔آپ جو مانگیں گے۔اس کی جناب سے
ملے گا۔ ایک نبی نے رب سے مانگنے میں کیا اہم سمجھا، وسائل میں ترجیح کسے دی؟ یہ
نکتہ انتہائی اہم ہے۔انھوں نے پہلے اپنے لئے مانگا یعنی زبان کی روانی مانگی۔اس سے
زبان و بیان کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صلاحیت اللہ کی عطاؤں میں
بہترین عطا ہے۔
اس
دعا کے ساتھ انھوں نے مددگار کے طور پر اپنے بھائی کو مانگا۔معلوم ہوا کامیابی اور
ترقی کے لیے مادی وسائل سے زیادہ انسانی وسائل کی اہمیت ہے۔ انسانی وسائل اعلیٰ
درجے کے ہوں تو مادی وسائل خودبخود حاصل ہو جاتے ہیں۔انھوں نے اللہ سے بدلہ نہیں
مانگا۔یعنی دعوت کے راستے میں بے غرض ہونا اہم ہے۔یہ دعوت کا کام خودغرضوں کا کام
نہیں ہے بلکہ بے لوث اور عظیم انسانوں کا کام اور شیوہ ہے۔ کسی بھی فرعون سے
مقابلہ کرنے کے لیے سینہ کا کھلنا، بیان اور اظہار کا ملکہ ہونا، مخلص ساتھیوں کا
میسر ہونا بہت بڑا ہتھیار اور نعمت خداوندی ہے۔ نرم مہارتوں (سافٹ اسکلز)کا ہونا
کسی بھی فوج اور مادی وسائل سے ذیادہ اہم ہے۔
ایک ساتھی سے بات ہوئی کہنے لگیں۔
بسا اوقات اچھا بولنے اور قا?ئل کرنے کے لیے الفاظ اور دلا?ئل کا انبار ہوتا ہے
لیکن سامنے والا سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو یہ دعا الفاظ میں وہ تاثیر عطا کرتی
ہے کہ سامنے والا آپ کا مطمع نظر سمجھ جاتا ہے۔ ایک اور پہلویہ بھی ہے کہ اس دعا
کو ہم درس یا Presentation دینے سے پہلے تو پڑھتے ہی
ہیں لیکن اپنی عام گھریلو روٹین میں بھول جاتے ہیں۔اگر معمولات میں شامل کرلیں تو
اللہ اپنی رحمت خاص سے ہمارے کام آسان فرما دیتے ہیں۔ جیسے کسی کے درمیان صلح
کروانے کی کوشش کرتے وقت کسی بڑے کو کسی
بات کا اچھا پہلو بتاتے ہوئے اپنی کسی ساتھی، والدہ، ساس، بہو، شوہر کسی بھی تعلق
میں اپنا مسئلہ اپنی کیفیت سمجھانے کے لیےیا گھر کے کسی معاملے کسی شادی بیاہ کی رسم
کے خاتمے کے لیے اپنے کسی بچے یا چھوٹے بہن بھا?ئیوں کو کوئی بات سمجھانے سے پہلے
اس دعا کو اس پیرا?ئےمیں رکھ کر رب سے مانگیں تو ان شاء اللہ اللہ ہمارے کاموں کو
آسان فرما دیتے ہیں یہ میرا عملی تجربہ ہے۔