پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا دارومدار بڑی حد تک زراعت پر ہے، اور زراعت کا انحصار پانی پر ہے۔ پاکستان میں پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لیے ڈیموں کی تعمیر نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں کے دریا، بالخصوص دریائے سندھ، گرمیوں میں برف پگھلنے اور مون سون بارشوں کی وجہ سے وافر پانی فراہم کرتے ہیں، مگر یہ پانی سال بھر کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ اس لیے اسے ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بنیادی طور پر دو اقسام کے ڈیم تعمیر کیے جاتے ہیں: آبی ذخیرہ ڈیم (Storage Dams):
یہ وہ ڈیم ہوتے ہیں جن میں پانی جمع کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں زرعی، گھریلو یا صنعتی استعمال کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ جیسے تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم۔ دوسرے رُکاوٹی یا بیراج قسم کے ڈیم (Barrages/Run-of-the-River Dams):
یہ وہ ڈیم ہوتے ہیں جو پانی کا بہاؤ کنٹرول کرتے ہیں اور عام طور پر بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے غازی بروتھا۔ پاکستان کے اہم ڈیموں میں تربیلا ڈیم: تربیلا ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مٹی سے بنایا گیا ڈیم ہے۔ یہ دریائے سندھ پر واقع ہے اور پاکستان کی توانائی اور زرعی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1968 میں ہوا اور تکمیل 1976 میں مکمل ہوئی۔یہ منصوبہ ورلڈ بینک کے تعاون سے مکمل ہوا اور اسے "انڈس واٹر ٹریٹی" (پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ، 1960) کے تحت تعمیر کیا گیا۔ مٹی اور پتھروں سے بنا ہوا ذخیرہ ڈیم لمبائی میں تقریباً 2,743 میٹر (9,000 فٹ) اور اونچائی تقریباً 143 میٹر (470 فٹ) ہے۔ زخیرہ کرنے کی گنجائش تقریباً 13.69 ملین ایکڑ فٹ (MAF) اور بجلی کی پیداواری صلاحیت 4,888 میگاواٹ (توسیعی منصوبوں کے بعد) ہے۔ ٹربائنز کی تعداد 17 ہے۔ تربیلا ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا پن بجلی گھر ہے، جو قومی گرڈ کو سستی، صاف اور قابلِ تجدید توانائی فراہم کرتا ہے۔ ڈیم کا پانی ملک کے زرعی علاقوں کو سیراب کرتا ہے، بالخصوص پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ڈیم دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کے پانی کو کنٹرول کرتا ہے اور نچلے علاقوں کو شدید نقصان سے بچاتا ہے۔ گرمیوں میں برف پگھلنے سے آنے والے اضافی پانی کو محفوظ کر کے سردیوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جب پانی کی قلت ہوتی ہے۔ دوسرا منگلا ڈیم ہے۔ منگلا ڈیم پاکستان کا دوسرا بڑا آبی ذخیرہ اور پن بجلی پیدا کرنے والا اہم منصوبہ ہے۔ یہ دریائے جہلم پر واقع ہے اور نہ صرف بجلی پیدا کرتا ہے بلکہ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور سیلاب پر قابو پانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1962 میں ہوا اور تکمیل 1967 میں ہوئی منگلا ڈیم کی تعمیر "انڈس واٹر ٹریٹی 1960" کے تحت ہوئی، جس میں بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی استعمال کرنے کی اجازت حاصل کی، اور پاکستان نے مغربی دریاؤں پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی لمبائی تقریباً 3,140 میٹر (10,300 فٹ) اور اونچائی تقریباً 147 میٹر (482 فٹ)
ذخیرہ کرنے کی گنجائش (ابتدائی) تقریباً 5.88 ملین ایکڑ فٹ (MAF) ہے۔ توسیعی گنجائش (منگلا ریزنگ پراجیکٹ کے بعد) تقریباً 7.4 MAF ہوئی اور بجلی کی پیداواری صلاحیت 1,150 میگاواٹ ہے جبکہ ٹربائنز کی تعداد 10 ہے۔ منگلا ڈیم سستی، ماحول دوست اور قابل تجدید بجلی مہیا کرتا ہے، جو قومی گرڈ میں شامل ہوتی ہے۔ یہ ڈیم پنجاب اور سندھ کے وسیع زرعی علاقوں کو سیراب کرتا ہے، اور زرعی پیداوار بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ بارشوں اور برفباری کے موسم میں دریائے جہلم میں آنے والے اضافی پانی کو ذخیرہ کر کے نیچے کے علاقوں کو سیلاب سے بچاتا ہے۔ گرمیوں میں اضافی پانی کو ذخیرہ کر کے سردیوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جب پانی کی قلت ہو۔ منگلا ریزنگ پراجیکٹ بھی قابلِ ذکر ہے ۔ 2004 میں ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا جسے "منگلا ریزنگ پراجیکٹ" کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت ڈیم کی اونچائی 30 فٹ بڑھائی گئی۔ جس سے نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھی، بلکہ بجلی کی پیداوار کی صلاحیت بھی بہتر ہوئی۔ منگلا ڈیم پاکستان کا ایک عظیم آبی منصوبہ ہے جو ملک کی توانائی، زراعت، اور آبی ذخائر کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس کی اہمیت وقت کے ساتھ اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔تیسرا وارساگ ڈیم جو دریائے کابل پر واقع ہے اور زیادہ تر پن بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔وارساگ ڈیم پاکستان کا ایک اہم پن بجلی پیدا کرنے والا منصوبہ ہے جو خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے کابل پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کے ابتدائی آبی منصوبوں میں سے ایک ہے اور ملکی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1955 میں ہوا اور تکمیل 1960 میں مکمل ہوئی یہ منصوبہ کینیڈا کے تعاون سے مکمل ہوا، اسی لیے اسے "کینیڈا-پاکستان منصوبہ" بھی کہا جاتا ہے۔ 1980 کی دہائی میں اس ڈیم کی گنجائش میں توسیع کی گئی تاکہ بجلی کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ ابتدائی پیداواری صلاحیت تقریباً 240 میگاواٹ تھی اور موجودہ پیداواری صلاحیت (توسیع کے بعد) تقریباً 243 میگاواٹ ہے۔چوتھا دیامر بھاشا ڈیم (زیر تعمیر): یہ پاکستان کا سب سے اہم زیر تعمیر منصوبہ ہے جو گلگت بلتستان میں دریائے سندھ پر واقع ہے۔ اس سے نہ صرف پانی ذخیرہ ہو گا بلکہ 4500 میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہو گی۔پاکستان میں کچھ ڈیم ایسے ہیں جو سیاسی، ماحولیاتی، علاقائی یا بین الاقوامی سطح پر متنازع بن چکے ہیں۔ ان تنازعات کی وجوہات میں مقامی آبادی کی بے دخلی، ماحولیاتی اثرات، فنڈنگ، بین الصوبائی اختلافات اور بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان میں بننے والے متنازع ڈیموں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ 2025 میں نئے ڈیموں کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ کالا باغ ڈیم دریائے سندھ، ضلع میانوالی (پنجاب) میں بنانے کا منصوبہ قابل ذکر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ متنازع کیوں بنا۔ اس میں کون سے عوامل شامل ہیں۔ جن میں بین الصوبائی اختلافات: سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو خدشہ ہے کہ ان کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔ زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ خیبر پختونخوا میں نوشہرہ اور دیگر نشیبی علاقے زیرِ آب آ سکتے ہیں۔ سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ تینوں چھوٹے صوبوں نے مختلف مواقع پر اس کی مخالفت کی ہے، اور اسے وفاقی بالا دستی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کئی دہائیوں سے صرف کاغذوں میں موجود ہے، عملی طور پر کام شروع نہیں ہو سکا۔ دوسرا دیامر بھاشا ڈیم ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے میں، دریائے سندھ پر بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے متنازع ہونے کی وجوہات بھی قابل ذکر ہیں جن میں مقامی بے دخلی: ہزاروں خاندانوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گی، بھارت نے عالمی مالیاتی اداروں پر دباؤ ڈالا کہ وہ فنڈنگ نہ کریں کیونکہ یہ "متنازع علاقہ" ہے (گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا حصہ تصور کیا جاتا ہے)۔ قدرتی حیات اور آثارِ قدیمہ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے مقامی اور قومی سطح پر فنڈنگ سے کام شروع کیا ہے، منصوبہ زیر تعمیر ہے، اور اسے ملک کا "مستقبل" قرار دیا جا رہا ہے۔ تیسرا داسو ڈیم ہے۔ جو دریائے سندھ، ضلع کوہستان (خیبر پختونخوا) میں بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے متنازع ہونے کی وجوہات میں مقامی مزاحمت: زمین کے معاوضے، ملازمتوں اور ترقیاتی وعدوں پر عمل نہ ہونے پر مقامی آبادی ناراض ہے۔ سیکیورٹی مسائل: 2021 اور 2024 میں داسو ڈیم کے چینی انجینئرز پر حملے ہو چکے ہیں، جس سے بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوئی۔ ڈیم کی تعمیر جاری ہے، یہ ایک بڑا پن بجلی منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے پاکستان کو ہزاروں میگاواٹ بجلی ملے گی۔ چوتھا مہمند ڈیم ہے۔ جو دریائے سوات، ضلع مہمند (خیبر پختونخوا) پر بنانے کا منصوبہ ہے ۔ متنازع کیوں؟ زمین کا تنازع: مقامی قبائل کے درمیان زمین کے معاوضے اور ملکیت کے معاملات پر جھگڑے ہوئے۔ تاخیر: سیاسی اور انتظامی مسائل کے باعث منصوبے میں کئی بار تاخیر ہوئی۔ ڈیم پر کام جاری ہے اور یہ بجلی و آبپاشی کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
پاکستان میں ڈیمز کی تعمیر قومی ضرورت ہے کیونکہ ملک کو پانی کی قلت اور توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ لیکن یہ منصوبے صرف انجینئرنگ نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی اور ماحولیاتی حساسیت بھی رکھتے ہیں۔ ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے: بین الصوبائی ہم آہنگی ضروری ہے، مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا، شفاف اور جامع منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ڈیموں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادی زراعت سے وابستہ ہے، اور ڈیم پانی کی مستقل فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ ڈیموں کے ذریعے سستی اور ماحول دوست پن بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ ڈیم بارشوں کے دوران اضافی پانی کو ذخیرہ کرکے سیلاب کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان کو "آبی قلت" والے ممالک میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ڈیموں کی مدد سے پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے تاکہ قحط کی صورت حال سے بچا جا سکے۔ آبی ذخائر کی کمی کی وجہ سے ہر سال کروڑوں گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ڈیموں کی تعمیر میں سیاسی، مالی، اور ماحولیاتی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ عوامی شعور کی کمی اور بین الاقوامی تنازعات (خصوصاً بھارت کے ساتھ پانی کے مسائل) بھی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پانی کی قلت، زرعی زوال، اور توانائی کے بحران جیسے مسائل کا حل مؤثر آبی ذخائر اور جدید ڈیموں کی تعمیر سے ممکن ہے۔ حکومت اور عوام دونوں کو اس اہم قومی مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے تاکہ پاکستان کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔