سجادہ نشین درگاہ حضرت موسیٰ پاک شہید، مخدوم سید ولایت مصطفیٰ گیلانی کا پیغام مخدوم سید خالد جاوید بخاری کے توسط سے ملا کہ میری رہائش گاہ "پیرانِ پیر ہاؤس"، غوث الاعظم روڈ پر محفلِ میلاد منعقد ہے اور میر صاحب کو ضرور شریک ہونا ہے۔شہر داری کے رشتے اور مخدوم صاحب کی محبت بھری اصرار آمیز دعوت کو ٹالنا ممکن نہ تھا۔اعتراف کرتا ہوں کہ میرا مزاج عموماً ان روایتی محافل سے الگ اور فاصلہ رکھنے والا ہے۔ میں زیادہ تر عقیدے کے بجائے فکر اور روایت کے بجائے مکالمے کو اہمیت دیتا ہوں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھی ایسے مواقع انسان کو اپنی فکری سرحدوں سے باہر قدم رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ میری مخدوم صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ ان کے خلوص اور تبسم نے مجھے اپنی سوچ کی حد بندیوں سے لمحہ بھر کے لیے آزاد کر دیا۔ انہوں نے بوسے سے استقبال کیا، پھولوں کا ہار پہنایا اور اپنی نشست پر جگہ دی۔ یہ سب رسمی انداز میں نہیں بلکہ دل سے محسوس ہونے والی شفقت کے ساتھ تھا۔ میں نے جانا کہ شخصیات کا اصل کمال ان کی مسکراہٹ اور رویے کی سچائی میں چھپا ہوتا ہے، نہ کہ صرف موروثی منصب یا روایت میں۔مخدوم سید ولایت مصطفیٰ گیلانی کی شخصیت میں اپنے والد بزرگوار مخدوم سید تجمل حسین گیلانی کی جھلک نمایاں ہے۔ طالب علمی کے دنوں میں مخدوم سید تجمل حسین سے قریبی یاد اللہ رہی، وہ ہمارے سیاسی و سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر شریک رہتے اور ہمیں سرپرستی فراہم کرتے۔ وہ ایک کھلے دل اور روشن فکر شخصیت تھے۔اسی وراثت کا تسلسل میں نے ان کے فرزند میں دیکھا۔میرے نزدیک اصل روحانیت یہی ہے کہ شخصیت اپنے رویے اور شفقت سے دل جیتے، نہ کہ صرف رسومات اور نعروں سے۔ اور اس ملاقات میں مجھے یہی خوشگوار تجربہ حاصل ہوا۔
یہ محافل ایک عجیب دستور کی زد میں آ جاتی ہیں۔ بظاہر تو ان کا انعقاد ایک مقدس ہستی کی یاد میں ہوتا ہے مگر عملاً ان پر راج اسٹیج سیکریٹری اور پرفارمر حضرات کا ہوتا ہے۔ مائیک ہاتھ میں آتے ہی جیسے اختیار کی کنجی مل جاتی ہے، پھر میزبانِ محفل کی بھی مجال نہیں رہتی کہ مختصر کرنے کی گزارش کر سکے۔یہی کیفیت اسٹیج سیکریٹری صاحب کی تھی۔ ان کے حافظے میں برسوں سے جمع شدہ الفاظ کا ذخیرہ تھا اور وہ اس خزانے کو ہر حال میں حاضرینِ محفل کے سامنے انڈیل دینا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ مقررین کے ہاتھ سے بار بار مائیک چھین کر بھی اپنی دانست میں علم منتقل کرنے سے گریز نہ کرتے تھے۔حال یہ تھا کہ جتنے وقت میں تمام ثناء خوان حضرات، قراء و خطباء نے مجموعی طور پر کلام کیا، اتنا ہی وقت اکیلے اسٹیج سیکریٹری صاحب نے صرف کر دیا۔ گویا اصل مجلس تو انہی کی ذات میں سمٹ آئی تھی۔ وہ اپنے تئیں ماحول کو گرمانے کے شوق میں خوب گرجے، خوب برسے، لیکن یہ سوچنے کی زحمت نہ کی کہ جس ہستی کی یاد میں یہ محفل سجائی گئی ہے، ان کی گفتگو اور مجلسوں کا انداز کیسا تھا۔
حضور اکرم ﷺ کی محفلوں کا عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ بات کرتے تو سکون اور متانت سے، الفاظ کو ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتے، حتیٰ کہ سننے والے انہیں شمار کر سکتے۔ آپ ﷺ کی گفتگو میں نہ لفاظی تھی، نہ شور، نہ طویل بیانات؛ بلکہ سادگی، اختصار اور دلوں کو سکون بخشنے والا وقار تھا۔ یہی اصل اسوہ ہے جو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قابلیت زیادہ بولنے میں نہیں بلکہ کم گوئی اور اثر انگیزی میں ہے۔
محافلِ میلاد اور مذہبی اجتماعات میں ایک نمایاں پہلو نعت خوانی ہے۔ عوام کی عقیدت کا اظہار عموماً صاحب ِ محفل یا مخدوم صاحب کے ہاتھ میں نذرانے اور ہدیے کی صورت میں سامنے آتا ہے اور یہ طے ہوتا ہے کہ اس دوران جتنے پیسے اکٹھے ہوں گے وہ اس نعت خوان کو ملیں گے۔ جب کسی نعت خوان یا مقرر پر مسلسل پیسوں کی بارش ہو رہی ہو تو یہ فطری ہے کہ وہ مائیک چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوں۔ اسی وجہ سے بعض اوقات نعت خوان حضرات مختلف کلاموں کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جس کا کوئی واضح اختتام نظر نہیں آتا۔(اس دوران میں نے پہلو بدلا تو مخدوم صاحب نے نہ صرف اسے دیکھ لیا بلکہ کہا کہ اگر آپ تھک گئے ہوں تو کرسی منگوا دیتا ہوں۔ میں مناسب نہ سمجھا تو انہوں نے کہ آپ کشن پر چڑھ کر بیٹھ جائیں)
یہ صورتحال نعت خوانی کو رفتہ رفتہ ایک باقاعدہ پیشہ بنا چکی ہے۔ آج کل بہت سے ثناء خواں دن بھر میں مختلف محافل میں شریک ہو کر ایک معقول آمدنی حاصل کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر پیشے کی طرح اس پیشے کے بھی اپنے ضابطہ اخلاق ہونا چاہییں، تاکہ عقیدت اور عبادت کے جذبے کے ساتھ ساتھ ایک مہذب معاشرتی نظم بھی قائم رہ سکے۔ لیکن چونکہ یہ معاملہ براہ راست مذہب اور عقیدت سے جڑا ہے، اس لیے اس پر کوئی ضابطہ نافذ کرنا آسان نہیں۔تاہم ایک طنزیہ تجویز یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد لی جائے۔جیسے چائنا سے ایسے مائیک تیار کروائے جائیں جومصنوعی ذہانت کی مدد سے فیڈ کیے گئے وقت کے بعد خود بخود بند ہو جائیں یا مقرر کو مائیک چھوڑنے پر مجبور کر دیں۔ بلاشبہ یہ ایک مزاحیہ نکتہ ہے لیکن اس کے پیچھے یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ ہمیں مذہبی اجتماعات میں بھی نظم و ضبط اور ادارہ جاتی اصول کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ تمام ثناء خوان صرف پیسے کے لیے محافل میں شریک نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ واقعی عشقِ رسول ﷺ اور حبِ اولیاء کرام سے سرشار ہو کر حاضر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ رات کی محفل میں ہمارے دیرینہ دوست پروفیسر ریٹائرڈ سجاد ملک صاحب نے نہایت پر اثر اور وقار بھرا کلام سنایا۔ انہوں نے اپنی حاضری اور عقیدت پیش کی، اور پھر ایک طرف ہو گئے۔ ان کا نصیب میں جو حصہ تھا وہ انہیں مل گیا، لیکن ان کا مطمع نظر دولت نہیں بلکہ خلوص اور محبت تھی۔
نعت خواں حضرات کی طرح خطباء اور واعظین کا حال بھی مختلف نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مافوق الفطرت واقعات کا بیان ہی رسول اکرم ﷺ کی شان بیان کرنے اور اولیاء اللہ کی محبت دکھانے کا اصل ذریعہ ہے۔ عربی لغت کے مطابق کوئی بھی ایسا واقعہ یا مظہر جسے انسانی عقل اپنی فہم کے دائرے میں نہ سمو سکے، اسے معجزہ کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ دنیا کے ہر مذہب کی مقدس شخصیات سے وابستہ معجزات اور کرامات کے واقعات کتب اور روایات میں محفوظ ہیں۔ مثال کے طور پر:
بدھ مت کے روایات میں گوتم بدھ کا پانی پر چلنا
ہندو دھرم میں کرشن جی کا گووردھن پہاڑ کو ایک انگلی پر اٹھانا
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا اور اندھوں کو شفا دینا
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھا بن جانا
اور اسلام کی روایت میں نبی اکرم ﷺ کی معراج، یا کھانے پینے کے برتنوں کا برکت سے ختم نہ ہونا
یہ سب دنیاوی مذاہب کے متون اور بیانیات میں ملتے ہیں، اور مطالعہ کے ذریعے ان کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
لیکن ہمارے خطباء ان واقعات کو دہرا دہرا کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی شان بڑھا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ لاشعوری طور پر انہیں دیگر مذہبی پیشواؤں کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ ﷺ کی اصل عظمت معجزات کی محتاج نہیں۔ دنیا کے مورخین اور محققین نے آپ کو جس مقام پر فائز کیا ہے، وہ کسی معجزے کی بنیاد پر نہیں بلکہ آپ کے عملی حکمت و دانائی، بے مثال فراست، سیاسی بصیرت، اور انسانی فلاح کی جدوجہد کے باعث ہے۔
اسی تناظر میں مشہور امریکی محقق اور مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History" (1978) میں دنیا کی سو بااثر ترین شخصیات کی فہرست مرتب کی۔ حیرت انگیز طور پر اس نے حضرت محمد ﷺ کو اس فہرست میں نہ صرف شامل کیا بلکہ پہلے نمبر پر رکھا۔ اور یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ آپ ﷺ نے ایک ساتھ مذہبی رہنما، سیاسی قائد اور ایک عظیم ریفارمر کی حیثیت سے دنیا کو بدل ڈالا۔
اس کے مقابلے میں ہمارے خطباء آج بھی دودھ کے نہ ختم ہونے والے پیالوں اور کبھی ختم نہ ہونے والے کھجوروں کے تھیلوں کی روایتی بیان کرنے سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ رسول جسے قرآن نے "بشیر و نذیر" کہہ کر پوری انسانیت کا پیامبر قرار دیا، ہم نے انہیں اپنی محدود مجالس اور مخصوص فرقہ وارانہ دائرے میں مقید کر دیا ہے۔ گویا ایک عالمی پیغام کو ہم نے خود ہی اپنے تنگ تر خانوں میں قید کر لیا ہے، جو کہ سب سے بڑی ناانصافی ہے۔
میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ لوگ ہمارے مخادیم حضرات سے نہ صرف محبت اور عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ان کے احترام کو عملی اطاعت تک لے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سماجی سرمایہ ہے جو اگر مثبت سمت میں استعمال کیا جائے تو معاشرے کی فکری اور اخلاقی تشکیل میں غیر معمولی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر یہ بزرگانِ سجادہ ذرا سی ہمت کریں اور عصری تقاضوں کو سمجھتے ہوئے محافل کو محض روایتی عقیدت کے دائرے تک محدود رکھنے کی بجائے ایک اکیڈمک اور فکری رنگ عطا کریں، تو یہ نشستیں نئی جہت اختیار کر سکتی ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ کو صرف روایتی مذہبی رہنما کے طور پر بیان کرنے کے بجائے، انہیں ایک ایسے مدبر اور ریفارمر کی حیثیت سے پیش کیا جائے جنہوں نے مختصر وقت میں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل دیں، تو دنیا کے سامنے آپ کی شخصیت کا وہ پہلو آئے گا جو آج کے انسان کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ مؤثر انداز میں اگر یہ باور کرایا جائے کہ پندرہ سو برس گزرنے کے بعد بھی رسول خدا ﷺ دنیا کی سب سے بااثر اور سب سے معتبر شخصیت ہیں، تو یہ ایک ایسی دعوت فکر ہوگی جو ہمارے مذہبی بیانیے کو نئی زندگی عطا کر سکتی ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود، مخدوم ولایت مصطفیٰ گیلانی کی شخصیت اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتی ہے۔ ان کا حسنِ اخلاق ان کے منصب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لنگر کی تقسیم کے وقت انہوں نے ایک ایک مہمان کی تواضع کا ذاتی طور پر خیال رکھا، جس سے ان کی عملی عاجزی اور انسان دوستی جھلکتی تھی۔ وقتِ رخصت ان کا یہ فرمانا کہ وہ میری تحریریں شوق سے پڑھتے ہیں اور انہیں علمی اعتبار سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، میرے لیے یقیناً باعثِ عزت اور ایک بڑا اعزاز ہے۔ یہ جملہ میرے دل میں ان کے لئے احترام کو کئی گنا بڑھا گیا۔
میں دل سے دعاگو ہوں کہ مخدوم صاحب اپنے والد گرامی، مخدوم سید تجمل حسین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح، دینی و سماجی رہنمائی کا یہ فریضہ مزید وسعت کے ساتھ ادا کرتے رہیں۔ وہ اگر اپنی نرم خوئی اور اخلاقی وقار کو عصری فہم اور فکری جرات کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو بلاشبہ نہ صرف اپنے مریدین بلکہ معاشرے کے ایک وسیع طبقے کے لیے روشنی کا چراغ بن سکتے ہیں۔