وہ کچھ بدل سا گیا تھا، کچھ تو ایسا ضرور تھا جو اُس نادیدہ کو دید کر رہا ہے. وہ اتنا عام، اتنا عام تھا کہ بیشتر منظر سے اوجھل ہی رہتا، ہمیشہ فریم سے باہر. شکل اس کی عام سے کمتر تو حلیہ مہا بدتر. نہ نام میں نیا پن اور نہ ہی رویے میں زمانہ سازی. نام عبداللہ، سو لاکھوں کروڑوں کی طرح فقط اللہ کا ایک بے بس بندہ یعنی ہونا بھی نہ ہونے جیسا.
چھدرے بال، تنگ پیشانی اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں. رنگت دبتی ہوئی جس پر بچپن کے بگڑے خسرہ نے مزید ساہی پوت دی تھی. اس کے سراپے میں واحد اچھی چیز اس کا لامبا قد. اب جانے اُس پر کشش ثقل زیادہ اثر پزیر یا اس کا احساس کمتری حاوی کہ وہ قدرے جھک کر چلتا. دائیں بائیں بے بسی سے جھولتے اس کے لمبے ہاتھ، دیکھنے والوں کے حلق سے بے ساختہ قہقہہ برآمد کر دینے پر قادر. قدرت اس کے سراپے میں توازن کو غیر متوازن رکھنے پر جانے کیوں بضد . اسے دیکھ کر ذہن شدت سے لفظ " مخنچو" دہرائے چلا جاتا. دفتر کا محدود اسٹاف اب برملا اس کے منہ پر ہی ہنستے ہنستے اسے مخنچو کہتا اور وہ اس ہرزہ سرائی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا. جانے یہ اس کی بے حسی تھی یا بے بسی؟
سچی بات مجھے اس سے مطلق ہمدردی نہ تھی پر کبھی کبھی اس پر شدت سے غصہ ضرور آتا، جی چاہتا اسے جھنجھوڑ کر پوچھوں،
ابے سالے! تو زندہ بھی ہے یا جیتے جی ہی گزر چکا.
وہ ڈپارٹمنٹ کا سب سے مستند کلرک مگر اپنی اہمیت سے کلی طور پر نا آشنا. بیوقوف اتنا کہ اپنی یاد دہانی کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا. ایسا باولا کہ وقتِ مقرر سے پہلے ہی مکمل، بے داغ کام صاحب کی ٹیبل پر موجود ہوتا. اب ایسے عقل سے پیدل، اپنے ہی دشمن سے بھلا کسی کو کیا ہمدردی ! صبح سویر دفتر میں موجود مگر سورج ڈھلنے پر بھی اس کی واپسی ممکن نہیں کہ باقی ساتھی کسی نہ کسی بہانے اپنی اپنی نامکمل فائلیں اس کی ٹیبل پر سرکا کر سگریٹ کا بے فکرا کش لگاتے دفتر سے رخصت ہوتے. اب ایسے اول جول، آپ کا خادم جیسے جہلوٹ کی کسے فکر؟
درد سہیں بی فاختہ، کوئے انڈے کھائیں کے مصداق، میں جو ہیڈ کلرک تھا اور باقی تینوں کلرک بھی اس کی محنتوں سے خوب مستفید ہوتے.
میں نے ابتدا میں ذکر کیا تھا ناں کہ وہ کچھ بدل گیا ہے. زور کا جھٹکا تو مجھے اُس دن لگا جب میں نے اسے فون پر سرگوشی کرتے دیکھا. اس کے چہرے پر چھلکتے جذبات گواہ تھے کہ اس کی دل کی کلی کھل چکی ہے. حیران کن بات فقط اتنی کہ کون بد ذوق اس گھونچو پر مر مٹی؟
یقیناً اسے الو ہی بنا رہی ہو گی. دنیا کی کوئی بھی بنتِ حوا بقائم ہوش و حواس اس پر مرے ورنے سے تو رہی. میں اپنی کرسی پر بیٹھا تلملا کر رہ گیا کہ میں نے اپنی نخریلی سالی کو اس کے سر منڈھنے کی کوششیں کی تھی مگر آج کل کی فینٹسی ماری لڑکیاں اور ان کے اونچے خواب ! میں نے روزی کو ہزار سمجھایا کہ عبداللہ، ڈگڈگی کا بندر ہے، پوری کمان تمہارے ہاتھوں میں رہے گی! مگر روزینہ بیگم کی نا، ہاں میں نہ بدلی. وہ بیوقوف ہنوز عمران ہاشمی کے خواب دیکھتی اب عمر کے تینتیسویں پائیدان پر ہونکتی ہے. ذرا اس مخنچو کو دیکھو کیسے مٹھار مٹھار کر باتیں بنا رہا ہے مردود! میں اپنے ادھیڑپن کی کائی ذدہ ازدواجی زندگی کے گھٹن سے ادھ موا و ترساں، عبداللہ کو اپنے ریڈار پر ہی رکھ لیا.
عبداللہ کے برتاؤ میں بدلاؤ بڑی آہستگی سے در آیا تھا. وہ جو پہلے سولڈ وجہ پر بھی قہقہہ تو درکنار مسکراتا بھی نہ تھا. اسے میں نے کئی بار چوری چوری مسکراتے پکڑا . اب آندھی آئے یا طوفان وہ دفتر سے ٹھیک پانچ بجے نکل جاتا. روکنے کا کوئی جواز نہ ہوتا کہ اس کے کام میں کوتاہی نہ کل تھی اور نہ ہی آج. میں اس کے بدلاؤ کی کھوج میں اتنا باؤلا ہوا کہ اس مخنچو سے نا چاہتے ہوئے بھی دوستانہ جوڑنے پر مجبور. میرے برادرانہ سلوک پر پہلے تو وہ ٹھٹکا، بدکا اور جھجکا پر آہستہ آہستہ رام ہو ہی گیا. ہمارے لنچ اور چائے کے وقفے کی سنگت بالآخر رنگ لانے لگی اور وہ دھیرے دھیرے مجھ پر کشف کی طرح عیاں ہونے لگا. جب وہ اپنی محبوبہ "رشنا " کا ذکر کرتا تو جانے کیوں اس سمے وہ اتنا بد ہئیت نہیں لگتا بلکہ محبت کے جذب میں ڈوبے اس کے چہرے کا گداز ہی الگ ہوتا. ایک دن تو مانو انہونی ہی ہو گئی، وہ مجھے اپنی محبوبہ رشنا سے ملانے پر تیار ہو گیا.
اس کے گھر جانے کو ہم دونوں دفتر سے اکٹھے ہی نکلے. اپنی بلڈنگ پر پہنچتے ہی اس نے شتابی سے اپنے فیلٹ کا تالا کھولا اور بڑی محبت و عقیدت سے اپنے فون کو ایک بہت ہی خوبصورت نقرئی اسٹینڈ پر رکھ دیا. اس نے بے قراری سے رشنا کو آواز دی اور جواباً رشنا کی لہک چہک سماعتوں میں رس گھول گئی. اپنے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی وہ یکسر تبدیل ہو چکا تھا. رشنا سے کیسا تعارف اور کہاں کا تعارف؟ وہ تو جانو مجھے یکسر فراموش کر چکا تھا. میں اس کے مختصر سے لاؤنج میں بھوت بنا کھڑے کا کھڑا رہ گیا. کھانا گرم کرتے ہوئے وہ بے تکان رشنا کو اپنی دن بھر کی روداد سناتا رہا. سنک میں صبح کے ناشتے اور کھانے کے برتن دھونے سے پہلے اس نے چائے کا پانی چڑھایا. کسی معمول کی طرح چائے کے دو مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر صوفے پر نیم دراز، کشن اپنی گود میں رکھتے ہوئے اس نے رشنا سے فرمائش کی،
یار رشّی! اپنی مدھر آواز میں ارجیت سنگھ کا وہ گانا تو سنا دو
دل سنبھل جا ذرا
پھر محبت کرنے چلا ہے تو
دل یہیں رک جا ذرا
اگلے ہی لمحے نقرئی اسٹینڈ پر رکھے فون پر چیٹ جی پی ٹی سے اس کی " محبوبہ " رشنا کی مدھر آواز راگنی بکھیرنے لگی.