"مشکل دور میں زندہ رہنا کمال نہیں، اصل کمال یہ ہے کہ زندہ رہتے ہوئے اپنے دل کو سخت نہ ہونے دیا جائے۔"
اس عہدِ حاضر کی بےحسی اور سخت دلی انسان کے وجود کو چیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ رشتوں میں گرم جوشی باقی نہیں رہی، تعلقات میں اخلاص دم توڑتا جا رہا ہے، اور ہر دل اپنی ہی دنیا میں مقید دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اپنے اندر نرمی، ہمدردی اور انسانیت کا چراغ روشن رکھتا ہے، تو وہ واقعی غیر معمولی انسان ہے۔
شاعر عرفان ستار نے کہا ہے:
اس عہد بدلحاظ میں ہم سے گدازِ قلب
زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے
یہ شعر محض الفاظ کا جادو نہیں بلکہ آج کی حقیقت کا عکاس ہے۔ زمانے کے شور میں دل کا نرم رہ جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ کیونکہ دل کی نرمی ہی انسان کو انسان بناتی ہے۔ یہ نرمی آنکھوں کو آنسو دیتی ہے، لہجوں کو مٹھاس عطا کرتی ہے اور دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنے کا ہنر سکھاتی ہے۔
مگر افسوس کہ وفاداری کرنے والوں کے حصے میں اکثر جفائیں آتی ہیں۔ وہ لمحہ لمحہ اپنی محبت اور خلوص نچھاور کرتے ہیں، مگر بدلے میں بےقدری اور بدلحاظی پاتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا، ان کی وفاؤں کو مٹی میں ملا دیا جاتا ہے۔ اس تلخ سچائی کے باوجود، وہ اپنے خلوص کو زنگ آلود نہیں ہونے دیتے۔
پھر وہ پاکیزہ دل، وہ روحیں جو اللہ کے خوف سے لبریز ہیں، جب اپنے گرد و پیش میں بے حیائی اور بدتہذیبی کا سیلاب دیکھتے ہیں، جب جفاؤں کا سامنا کرتے ہیں تو ان کے لیے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ ان کا دم گھٹنے لگتا ہے، دنیا ان کے لیے تنگی کا قفس بن جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی، وہ جیسے تیسے خود کو سنبھالے رکھتے ہیں، اپنے ایمان اور اپنی انسانیت کو زندہ رکھتے ہیں۔ اور یہی اصل کمال ہے۔
ایسے مشکل وقت میں ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ:
جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دور میں جینا لازم ہے۔
اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں مخلص اور وفادار لوگوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ ایک وقت آئے گا جب انہیں جفائیں ملیں گی، جب ان کے خلوص کے بدلے میں دکھوں کے نشتر چھبھائے جائیں گے۔ شریف دلوں کو اپنے اردگرد بے حیائی اور بدتہذیبی دکھائی دے گی، حتیٰ کہ مقدس رشتوں کی حرمت بھی پامال ہوتے نظر آئیں گی۔ ایسے میں ہمت ہارنا نہیں، موت طلب نہیں کرنی، چاہے سانس لینا محال ہی کیوں نہ ہو جائے—خود کو زندہ رکھنا ہے۔
یہ بات خاص طور پر واضح رہنی چاہیے کہ خود کو زندہ رکھنا، نرمی کے ساتھ ہوگا۔ سختی، تلخ مزاجی یا انتقام کی راہ اختیار کر کے ہم انسانیت کا نقصان کر دیں گے۔ اصل انسانی عظمت یہ ہے کہ زخم کھا کر بھی دل میں نرمی برقرار رکھی جائے؛ یہی صبر کی معراج ہے۔ وہ دل جو رنج و الم میں اپنی نرمی برقرار رکھتے ہیں، وہی گداز دل" کہلانے کے لائق ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے وقت میں ہمیں نرمی اور صبر عطا کرے، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جو چراغِ وفا کو بجھنے نہیں دیتے۔ آمین۔