علم اور بے عملی کا تضاد۔۔ مسز سعید فاطمہ

دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز صرف علم میں نہیں بلکہ اس علم کو عمل میں ڈھالنے میں پوشیدہ ہے۔ علم روشنی ہے، مگر اگر یہ روشنی زندگی کے اندھیروں کو دور نہ کرے تو محض کتابی الفاظ بن کر رہ جاتی ہے۔ افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ اسی تضاد کا شکار ہے۔ علم کے دروازے کھل گئے ہیں، تعلیم عام ہو گئی ہے لیکن عملی میدان میں یہ سب کچھ ناپید ہے۔ یہی تضاد معاشرتی پستی اور تباہی کی سب سے بڑی جڑ ہے۔

مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یاد ہے جو اس تضاد کو واضح کرتا ہے۔ جب میں نے اسکول جاب کا آغاز کیا تو میری ٹریننگ بھی ساتھ جاری تھی۔ ایک ٹرینر جو والد کی عمر کے برابر تھے، سفید ریش، سنجیدہ شخصیت کے مالک اور بظاہر نہایت نیک لگتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف ہمیں اصول سکھائے بلکہ ٹریننگ کے آخری دن اپنا کانٹیکٹ نمبر دیتے ہوئے کہا:
“اگر آپ کو بی ایڈ یا ایم ایڈ کے اسائنمنٹس یا متعلقہ کاموں میں کوئی مشکل ہو تو بلا جھجک مجھ سے رابطہ کریں۔”

یہ الفاظ میرے لیے سہارا بنے۔ لیکن جب آنے والے سالوں میں مجھے حقیقتاً مدد کی ضرورت پڑی اور میں نے ان کے دیے گئے نمبر پر رابطہ کیا، تو یہ ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا۔ انہوں نے رہنمائی کے بجائے میرے نمبر کو غلط استعمال کیا، بار بار کال کر کے نامناسب اور تکلیف دہ الفاظ کہے۔ یہ اس بات کی زندہ مثال تھی کہ کس طرح بعض مرد اپنی عمر اور مقام کے باوجود عورتوں کو عزت دینے کے بجائے انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے اور علم کے دعوے دار تھے مگر عمل میں ان کے کردار نے ان کے الفاظ کی تردید کر دی۔

یہ مسئلہ ایک فرد تک محدود نہیں۔ بڑے بڑے شاعر اور ادیب اپنی تحریروں میں وفا، حیاء اور شرافت کی بات کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں کئی بار انہی اقدار سے خالی نظر آتے ہیں۔ ان کے الفاظ اور عمل میں تضاد نے ان کی تحریروں کی تاثیر کو متاثر کیا۔

آج ہمارا معاشرہ بھی اسی بیماری میں مبتلا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اصول پڑھائے جاتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی نفی ہوتی ہے۔ سیاست میں وعدے کیے جاتے ہیں مگر پورے نہیں ہوتے۔ عدالتوں میں انصاف کی بات کی جاتی ہے مگر فیصلے انصاف سے خالی ہوتے ہیں۔ بازاروں میں دیانت داری کے اصول بیان ہوتے ہیں مگر عملی طور پر ملاوٹ اور ناپ تول کی کمی عام ہے۔

قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب علم کو عمل کا سہارا ملا تو وہ دنیا کی قیادت کرنے لگیں۔ مسلم دنیا کی سنہری صدیوں میں علم و عمل کا حسین امتزاج تھا، اسی لیے بغداد اور قرطبہ جیسے مراکز قائم ہوئے اور عدل و انصاف کی عملی مثالیں قائم ہوئیں۔ آج ہم اسی روشنی سے محروم ہیں کیونکہ ہم علم رکھتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔

اگر ہم اپنی تباہی کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے علم کو کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔ استاد کو وہی سکھانا چاہیے جو وہ خود کرتا ہو، والدین کو وہی نصیحت کرنی چاہیے جو ان کی عملی زندگی میں جھلکتی ہو، اور ہر فرد کو اپنی زبان اور عمل میں یکسانیت پیدا کرنی ہوگی۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ، كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ"
(الصف: 2-3)

ترجمہ: "اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ بہت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔"

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے علم کے مطابق عمل کرے۔"

لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دوبارہ عروج حاصل کرے تو ہمیں اپنے علم کو عملی زندگی میں ڈھالنا ہوگا۔ علم کتابوں کی زینت نہیں بلکہ کردار کا نور ہونا چاہیے۔ جب ہر فرد اپنی ذات میں علم اور عمل کو یکجا کرے گا تو معاشرہ روشنی، عدل اور امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !