ماہرین کے مطابق سکول بیگ کا وزن بچے کے اپنے وزن کے 10 سے 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی فرض کریں اگر ایک بچے کا وزن 30 کلوہے، تو اس کے بیگ کا وزن تقریباً 3 سے 4.5 کلو سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
اب ذرا اپنے بچوں اور ان کے بیگز کے وزن کا حساب لگا لیں کہ معصوم جانوں پر کتنا کوئی بوجھ لادا ہوا ہے۔
بچوں کے بھاری بستوں پر بات ہوئی تو تقریباً سبھی والدین نے اپنی پریشانی اور دکھ کا اظہار کیا۔ گویا سکول کے بچے روزانہ جو بھاری بستے اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں، وہ ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ اکثر والدین شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کے بیگز اتنے وزنی ہیں کہ کندھوں اور کمر میں درد رہنے لگا ہے۔ وہ تحریر وائرل ہوئی تو سوچا خالی خولی شکایت کا کیا فائدہ۔ کیوں نہ مل کر کوئی حل سوچا جائے کہ اتھارٹیز تک بات پہنچ پائے۔ شاید اللہ کرے تبدیلی کی ہوا چلے۔
اس سلسلے میں ایک کام یہ کیا جا سکتا ہے کہ سکول کی طرف سے ہفتے کے دن مخصوص کر لیے جائیں کہ کس دن کون سا سبجیکٹ پڑھایا جائے گا۔ یوں صرف متعلقہ دن کی کتابیں لے جائیں۔ روز وزن اٹھا کر نہ لے جایا جائے۔ شیڈول والدین کے حوالے کر دیا جائے تا کہ بچے بھول نہ جائیں بکس لانا۔ کووڈ کے دنوں میں جب احمد کی ٹیچرز سے پوچھا کہ اگر بک بتا دیں تو ہم گھر میں بچے کو تھوڑا بہت پڑھا دیں۔ پتہ چلا کہ بک نہیں ہے، "کانسیپٹ" کی لسٹ موجود ہوتی ہے کہ سال بھر کیا کیا concepts بچوں کو سمجھانے ہیں۔ اس پر بھی توجہ کی جا سکتی ہے۔
ایک چیز جو یہاں شروع سے ہی احمد کی کلاسز میں دیکھی چاہے جو بھی سکول رہا کہ کلاس روم میں لاکر یا شیلف کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ سکول والے اوکھے سوکھے ہو کر اگر ایک بار یہ کام کر لیں تو کتنا اچھا ہو جائے۔ یوں بچے اپنی کتابیں سکول میں ہی رکھ سکیں گے۔ جو ایکسرسائز یا ہوم ورک کرنا ہے، اس کا پی ڈی ایف واٹس ایپ گروپ میں والدین کو بھیج دیا جائے۔ اگزامز کے دنوں میں بچے کتابیں گھر لے جائیں۔
لووز پیجز کو فولڈر میں رکھنے والا طریقے پر اکثر والدین نے کہا کہ یوں تو صفحات کھو جائیں گے۔ اس کا حل یہ کیا جا سکتا ہے کہ لووز پیجز کے بجائے ایک ہی بڑی کاپی ہو جس کے بیچ میں رنگین نشانیاں لگا کر دوسرے سبجیکٹ کے لئے استعمال کر لی جائے۔ یعنی کاپی ایک ہی استعمال ہو، اور سب سبجیکٹس کا کام اسی میں ہو جائے۔
ایک کام بڑی تبدیلی مانگتا ہے، لیکن بہت اہم ہے اگر ایجوکیشن سسٹم اس پر توجہ دے۔ بجائے ہمہ قسمی مضامین کے اردو کے اندر ہی ایک سیکشن اردو بی کا ہو جائے اور اسلامیات، معاشرتی علوم کا۔ اگر یہ مضامین بچے انگلش میں پڑھتے ہیں تو انگلش بک میں ہی کچھ حصہ اسلامیات، پاک سٹڈیز کا ہو جائے۔ اس کے علاوہ میتھ اور سائنس۔ بس! کل ملا کر چار سبجیکٹ۔ کتنا ڈھیر ذہنی بوجھ بھی بچوں سے کم ہو جائے گا اگر ٹیسٹ، اگزامز سب میں کم سبجیکٹس ہوں۔ بلکہ ٹیچرز کے لئے بھی لیسن پلانز بنانا، ہوم ورک چیک کرنے کا بوجھ کم ہو گا تو مزاج پر اچھا اثر پڑے گا۔ بچے بھی چوبیس گھنٹے کتابوں کاپیوں میں منہ دیے رکھنے کے بجائے کچھ ہینڈز آن ایکٹیوٹیز کریں گے۔ مزہ بھی اور لرننگ بھی۔ ہمارے یہاں کلاسوں میں کوئی کلاس pet رکھا جاتا ہے جسے بچے سارا سال خیال رکھتے ہیں۔ کبھی انڈے سے نکلتا چوزے کا بچہ اور پھر اسے پالنا، کبھی تتلی، کبھی خرگوش، اور کبھی تو چھپکلی کی کوئی قسم بھی۔ بچوں کے اندر خیال رکھنے کی صلاحیت بھی آتی ہے، ذمہ داری بھی۔ خیر، یہ الگ موضوع ہے۔ واپس اپنی بات پر آتے ہیں۔
والدین اور اساتذہ اس مسئلے کی سنگینی کی طرف سنجیدگی سے سوچیں اور سکول انتظامیہ کے ساتھ بات کریں کہ کتابوں کی تقسیم اور ٹائم ٹیبل بچوں کے وزن کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنایا جائے۔ سکولز کی اپنی پرنٹڈ کاپیاں خریدنا اگر ضروری بھی ہے تو بڑی کاپیاں چھاپیں اور ایک ہی کاپی میں مختلف سیکشنز بنا دیں۔ پیسہ کمائیں، لیکن ماں باپ کو نچوڑ کر اور بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت سے کھیل کر نہیں۔
اور والدین بھی بہت obsessed نہ ہو جائیں کہ بستہ بھاری اور ہوم ورک ڈھیر ہو گا تبھی چین ملے گا۔ دنیا آگے بڑھ گئی ہے، آپ بھی ذرا قدم تیز اٹھا لیں۔ سکولز اپنے اصول متعین کریں تو والدین کی بے تکی فرمائشوں کے آگے ہار نہ مانیں۔ آپ اپنے اصول پر قائم رہیں اور جس نے ساتھ جڑنا ہو گا، جڑ جائے گا۔ اب کہیں سے تو تبدیلی کا سفر شروع ہو نا؟ یا ہر کوئی دوسرے کو الزام دے کر خود بری الذمہ ہو جائے گا؟
والدین، اساتذہ، اور سکول مل کر چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں، تو ان شا اللہ ہم اپنے بچوں کو ایک ہلکی، آسان اور خوشگوار تعلیمی زندگی دے سکتے ہیں۔ بستوں کا بوجھ کم ہو، اور سیکھنا سکھانا زیادہ!
