خیر ایمبولینس آئی۔ ناصر ایمبولینس میں بیٹھا اور میں بائیک پر پیچھے گیا۔ ہم سرکاری ہسپتال پہنچے۔ فرسٹ ایڈ دی گئی۔ مگر اسکی ہڈیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں اور گولی کا زہر بھی جسم میں پھیل رہا تھا۔ اسے لاہور ریفر کر دیا گیا کہ حالت نازک تھی۔ اسکے ورثا آئے تو انہوں نے ہم دونوں کو گھیر لیا کہ تمہارے ساتھ ہی یہ واقع ہوا ہوگا۔ تم ہی مجرم ہو۔ عین ممکن تھا کہ اسکے بھائی ہماری وہاں چھترول کر دیتے۔ میں نے خود اسکے بھائی کا گریبان پکڑ لیا کہ بیغرت انسان یہ صلہ دے رہے ہو ایک زخمی کو اٹھانے کا۔ لوگ جمع ہوئے کہ وہ پریشان ہیں آپ غصہ نہ کریں۔ پولیس آئی ان کو پتا چلا ہم دونوں سرکاری ملازم ہیں۔ اور ریگولر اسی راستے سے آتے ہیں تو انہوں ہمارا بات سن کر ہمیں جانے دیا۔ ہم نے جو دیکھا تھا وہ بتا دیا۔ اسے ہوش آئی تو اس نے سب سے پہلے ہمارا پوچھا کہ جو مجھے یہاں لائے ان کا شکریہ ادا کرنا۔ تو اسکے گھر والوں کو کچھ تسلی ہوئی۔ ورنہ ہم پھنس چکے تھے۔ وہ مر جاتا تو شاید قتل ہمارے اوپر پڑ جاتا۔
بہرحال، وہ لاہور چلا گیا۔ چند دن بعد اسکے تھانے سے میرے ساتھ کسی نے رابطہ کیا۔ کہ سر جسے آپ نے ہسپتال پہنچایا اسے وہیں مرنے دینا چاہئیے تھا۔ مجھے یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس ایک ماں بیٹی جنسی زیادتی کی ایف آئی آر درج کروانے آئیں۔ جوائنٹ فیملی میں ایک گھر میں رہتے ہوئے چچا زاد بھائی نے کئی بار اس کا ریپ کیا تھا۔ اس نے رپورٹ لکھی اور مخالف پارٹی سے جاکر ملا۔ ان سے بھاری رقم رشوت پکڑ کر وکٹم کو بلا کر ڈرا دھمکا کر بھگا دیا۔ وہ ہمت کرکے دوبارہ آئیں۔ اس بار باپ بھی ساتھ تھا۔ اس نے کہا کہ میڈیکل ہوگا۔ ماں باپ یہاں بیٹھیں میں میڈیکل کروا کر آتا ہوں۔ اپنی گاڑی میں لڑکی کو کہیں لے جا کر اس کا خود ریپ کر دیا۔ اور اسے کہا اگر اب دوبارہ آئی تو تمہارے اوپر پرچہ دے کر اندر کر دونگا۔ اور اسے وہاں تھپڑ بھی مارے۔ جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ جس دن اس نے یہ ظلم کیا اسی دن اسکا حادثہ ہوا۔ اس لڑکی کی آہ لگی اسے اور پکڑا گیا وہ ظالم حیوان صفت درندہ۔
خیر چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ اس کا گاؤں کونسا ہے۔ اور اب وہ کیسا ہے۔ اسکے گاؤں سے ایک وکیل صاحب نے بتایا کہ اسے کیڑے پڑ چکے تھے۔ کوئی اسکے پاس نہیں جاتا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے نچلا دھڑ بلکل مفلوج ہو چکا تھا۔ پیشاب پاخانے پر کنٹرول ختم ہو چکا تھا۔ بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ چہرہ ایسا کہ اسے دیکھ کر خوف آتا تھا۔ پھر سنا کہ مر گیا ہے۔
اللہ تعالی کا نظام ایسا ہے کہ وہ عموما اتنی جلدی پکڑ نہیں کرتا۔ موقع دیتا ہے۔ توبہ کا اور رجوع کا۔ اور پہلی دوسری غلطی یا گناہ پر پکڑ نہیں آتی۔ چھوٹ ملتی ہے۔ اور جب ہم اس دراز رسی کے آخری سرے تک پہنچتے ہیں۔ تو ایسی پکڑ آتی ہے جو عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔ نو سال تک میرے دل میں یہ کہانی رہی۔ سوچا لکھوں گا تو اس کے بچوں تک بھی یہ بات جائے گی۔ چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کرنا مناسب نہیں۔ پھر خیال آتا کہ اس ایشو کو اس طرح ہائی لائیٹ کروں گا کہ ریپ وکٹم کو یہ بتا سکوں۔ کہ پولیس اسٹیشن جانے سے قبل اپنی حفاظت کا بھی بندوبست کریں۔ وہاں بیٹھے ہمارے محافظ بھی ہمارے ساتھ کیا کر دیں۔ کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے پولیس مجرم سے پیسے پکڑ کر مظلوم کو ہی پھنسا دیتی ہے۔ یا دباؤ پریشر ڈال کر صلح کروا دیتی ہے۔ یا تفتیش میں مبینہ بدلاؤ کرکے، ایف آئی آر حقائق کے برخلاف درج کرکے ظالم کو سپورٹ کرتی ہے۔ گواہوں کو دھمکاتی ہے۔ اور جہاں سے پیسہ اچھا ملے اسکے ساتھ ہو جاتی ہے۔ یہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے؟۔
اور کوئی بھی نہ ہو تو ساتھ ایک قابل اعتماد وکیل کو لیجایا کریں۔ نام نہاد گاؤں یا گلی محکے کے چوہدری وغیرہ بھی اکثریت میں تماش بین ہوتے ہیں۔ پولیس کے دلال بن کر مظلوم سے بھی پولیس کو پیسے دلواتے ہیں۔ اور سچ کا ساتھ کم ہی دیتے ہیں۔ بس ان کو یہ ہی بڑا زعم ہوتا ہے کہ تھانے میں ہماری چلتی ہے۔ وہ انکوائری لگواتے ہیں کہ جی ہم اپنے گاؤں /علاقے کے کرتا دھرتا ہیں۔ حقیقت میں مددگار کردار کے حامل مظلوم کے ساتھی بننے والوں کو میرا سلام پیش ہو ، ان پر رحمتیں نازل ہوں ، وہ بہت کم ہیں۔
کیس نمبر 9 ڈرامے میں انسپکٹر شفیق کا کردار دیکھ کر میں مجبور ہوا کہ مجھے وہ واقع لکھنا چاہئیے۔ جو میں نے دیکھا اور سنا تھا۔ وہیں اس پولیس آفیسر کو آج کے دن تک دعائیں بھی دیتا ہوں۔ جس کے پاس وہ خاندان دوبارہ گیا۔ اور اسنے ناصرف پہلے مجرم کو بلکہ اس اپنے پیٹی بھائی کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیا۔ اچھے اور نیک لوگ بھی پولیس میں بہت زیادہ ہیں۔ پہلے مجرم کو باقاعدہ قید کی سزا ملی اور اس محافظ کو تو پہلے سے ہی اوپر والی عدالت سے سزا مل چکی تھی۔ عدالت سے جب تک فرد جرم عائد ہوتی یہ عبرت کا نشان بن کے مر چکا تھا۔