لاولی ایکسٹینشن کا اجنبی۔۔آر کے نارائن

بشکریہ:عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)



افسانہ نمبر 708 : لاولی ایکسٹینشن کا اجنبی
تحریر : آر کے نارائن (بھارت)
اردو ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان)
 
 باتونی آدمی کہنے لگا:
’’بہت برس پہلے میری ایک دکان تھی۔ اُن دنوں (Lawley extension) لاولی ایکسٹینشن آج جیسا آباد علاقہ نہیں تھا ۔ وہاں سو سے بھی کم گھر ہوا کرتے تھے۔ چونکہ مارکیٹ روڈ کم از کم ایک میل دور تھا، اس لیے ایکسٹینشن کے لوگ مجھے نجات دہندہ سمجھنے لگے جب میں نے ایک چھوٹی سی عمارت لے کر ایک مبارک دن اس پر ایک بڑا سا بورڈ آویزاں کیا جس پر لکھا تھا: نیشنل پروویژن اسٹورز۔ میں خود گھر گھر گیا اور آرڈر لیے۔ میں نے حقیقتاً ایکسٹینشن کے ہر گھر کی رسوئی جھانکی اور جہاں جہاں کمی دیکھی، وہاں سامان فراہم کیا۔ جب ایکسٹینشن ایلیمینٹری اسکول میں دوپہر کی چھٹی ہوتی تو بچے جوق در جوق میری دکان پر ٹوٹ پڑتے اور جو کچھ مٹھائیاں، ربنیں اور اسٹیشنری کی دلکش چیزیں میرے پاس ہوتیں، سب اُچک لے جاتے۔ میں روزانہ پچیس روپے کا اُدھار اور دس روپے نقد سودا کر لیتا تھا۔ اس سے کم از کم پچاس روپے مہینے کی آمدنی ہو جاتی تھی۔ ہم نے صرف پانچ روپے کرایے پر کبیر اسٹریٹ میں ایک چھوٹا سا مکان لے لیا، جو میری دکان سے ایک میل سے بھی کم دور تھا۔ میں صبح سات بجے نکل جاتا اور روزانہ کا حساب کتاب نمٹانے کے بعد رات نو بجے ہی گھر لوٹتا ۔
 
ڈیڑھ سال اسی طرح گزر گیا۔ ایک روز ایک نوجوان میری دکان پر آیا۔ عمر بیس برس کے لگ بھگ، بہت گورا چِٹا اور روشن چہرہ۔ ایک دم صاف ستھرا دھوتی اور کرتا پہنے ہوئے تھا۔
 
’’میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ ‘‘ میں نے اسے ایک نوجوان گاہک سمجھ کر پوچھا۔
اس نے جواب میں دونوں ہتھیلیاں جوڑ کر ادب سے نمسکار کیا اور بولا: ’’مجھے آپ کی مدد چاہیے، صاحب۔ آپ مجھے جو بھی کام دے دیں، میں بدلے میں صرف تھوڑی سی خوراک، چھت اور مہربانی چاہتا ہوں۔‘‘
 
اس نوجوان کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جو مجھے بھا گیا۔ پھر اس کے ماتھے پر تین انگلیوں جتنی چوڑائی میں بھبھوت لگی تھی اور بھنوؤں کے درمیان سیندور کا ٹیکا لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی کسی مندر سے آیا ہو۔
’’صاحب، میں بہت خدا ترس ہوں اور مذہبی اثرات سے جلد متاثر ہو جاتا ہوں۔‘‘
میں نے اس سے تقریباً ایک گھنٹہ باتیں کیں۔ اس نے بتایا کہ وہ تریچنوپلی کے قریب ایک گاؤں کے دولت مند زمیندار خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی ماں کئی برس پہلے وفات پا گئی۔ باپ نے دوسری عورت کر رکھی تھی جس نے لڑکے پر ظلم و ستم ڈھایا، چنانچہ وہ گھر سے بھاگ آیا۔
 
مجھے اس کی کہانی بہت دردناک محسوس ہوئی۔ میں نے اسے اپنے گھر جانے کا راستہ بتایا۔ جب میں شام کو گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہ تو پہلے ہی سب کا منظورِ نظر بن چکا تھا۔ اس کی زندگی کی کہانی نے میری بیوی کو بہت متاثر کیا تھا۔
 
’’اتنا کم عمر!‘‘ وہ دھیرے سے بولی، ’’اور سوچو ایسی عمر میں باپ اور ماں دونوں کے سہارے کے بغیر!‘‘ وہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔ وہ لڑکا درجنوں طریقوں سے خود کو عزیز بنا چکا تھا۔ وہ میرے چھوٹے بیٹے کو سیر کے لیے لے گیا تھا۔ بچہ گھر آتے ہی رونے لگا، ’’رامو کو ہمارے گھر میں رہنے دو۔ وہ بہت اچھا ہے۔ اسے جادو آتا ہے۔ وہ شیروں اور ہاتھیوں کو قابو کر سکتا ہے!‘‘ رامو سیدھا رسوئی میں گیا اور ہاتھ بٹانے لگا۔ شروع میں میری بیوی نے احتجاج کیا۔
 
 ’’ارے کیوں نہیں جانے دیتے مجھے چولھے کے پاس...امّاں؟‘‘ اُس نے پوچھا۔’’کیا آپ سمجھتی ہیں کہ میں پکانا نہیں جانتا؟ بس مجھے ایک موقع دیجیے اور دیکھ لیجیے۔‘‘
 
وہ جھٹ سے غسل خانے کی جانب لپکا، نل کھول کر پورا بدن بھگو لیا اور بھیگا ہوا باہر آیا۔ اس نے مٹھی بھر راکھ اٹھائی اور ماتھے پر مل لی۔ میری بیوی سخت متاثر ہوئی۔ اس نے اسے کھانا پکانے کی اجازت دے دی۔
 
رامو نے ہمارے لیے نہایت لذیذ کھانا تیار کیا۔ ہم سب بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد اس نے گھر کی صفائی ستھرائی میں بھی بیوی کا ہاتھ بٹایا۔ رات کو ننگے فرش پر سو رہا ۔ ہم نے دری اور تکیہ دیا تو بھی نہ لیا۔
 
اگلی صبح سب سے پہلے وہی بیدار ہوا۔ اس نے چولھا جلایا اور میری بیوی کو جگایا۔ دوپہر کو میرے لیے کھانا لے کر دکان پر آیا۔ جب میں کھانا کھا رہا تھا تب وہ اسکول کے بچوں کی خبرگیری کر رہا تھا جو دکان پر آتے تھے۔ مہارت سے ان کے لیے چیزیں نکالتا، انھیں ہنساتا، بہلاتا ٬ اگر کوئی چیز نہ ہوتی تو اس کے بدلے کچھ اور ایسا پیش کر دیتا کہ خوش ہو کر لے جائیں۔
 
یہ ناگزیر تھا کہ مہینے بھر میں وہ دکان کے کام میں براہِ راست میرا شریک بن جائے۔ اس کے طور طریقے بہت دلنشیں تھے۔ گاہک اس سے باتیں کرنا پسند کرتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ایسا کوئی گھر ایکسٹینشن میں باقی نہ رہا جہاں وہ اپنے ہی گھر کے فرد کی طرح نہ سمجھا جاتا ہو۔ ہر گھر کی اندرونی کہانی اسے معلوم تھی۔ وہ سب کی حسبِ استطاعت خدمت کرتا۔ کہیں کسی شخص کے باغیچے میں مدد کر رہا ہے، کہیں کسی مکان بنانے والے ٹھیکیدار سے بات چیت کر کے تخمینہ کم کروا رہا ہے، کہیں لڑائی جھگڑا ختم کروا رہا ہے، کہیں آوارہ بچوں کو سدھار کر اسکول بھیج رہا ہے۔ وہ ایکسٹینشن ایلیمینٹری اسکول کی تمام ہم نصابی سرگرمیوں میں شریک رہتا۔کلَب کی تحریک میں بھی دلچسپی لیتا۔ اسکول کا معائنہ کرنے جب انسپکٹر آیا تو اس موقع کے لیے اس نے خاص اہتمام سے لباس پہنا اور پھولوں اور ہاروں کی فراہمی کا انتظام بھی اسی نے کیا۔ اور یہ سب کچھ دکان کے کام کے علاوہ تھا۔ ہر روز بازار جاتا، تھوک فروشوں سے سودا سلف خریدتا، گھنٹوں دکان میں بیٹھ کر گاہکوں کو چیزیں دیتا، رات گئے تک حساب کتاب میں ڈوبا رہتا، اور تمام بل وصول کرتا۔
 
رامو کی موجودگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے کاروبار میں تقریباً دس گنا اضافہ ہوگیا۔ اب مجھے خوب آرام میسر آنے لگا۔ میں نے دکان مکمل طور پر اس کے سپرد کر دی۔ دوپہر کو کھانا کھانے گھر چلا جاتا، پھر تین بجے تک خوب نیند لیتا۔ اس کے بعد کچھ دیر کے لیے دکان جاتا، مگر شام پانچ بجتے ہی پاس کے میدان میں دوستوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلنے چلا جاتا۔ دوبارہ دکان پر صرف شام سات بجے لوٹتا۔
 
ایک دو مرتبہ میں اور بیوی نے سوچا کہ رامو کی ماہانہ تنخواہ مقرر کردی جائے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ رامو کی محبت اور خدمت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ مگر جب ہم نے اس موضوع کا ذکر چھیڑا تو رامو کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی اور وہ بولا: ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ہاں نہ رہوں، تو پھر تنخواہ کا ذکر دوبارہ کیجیے گا۔۔۔‘‘
 
یوں ہی پانچ برس گز ر گئے۔ وہ ہمارے ساتھ ہی عمر کے مہ و سال طے کرنے لگا۔ ہماری ساری خوشیوں اور غموں میں شریک رہا۔ اب میرے چار بچے تھے۔ میرا کاروبار حد سے زیادہ ترقی کرچکا تھا۔ ہم اسی گلی میں ایک بڑے مکان میں منتقل ہوچکے تھے۔ میں نے دکان والی عمارت طویل مدتی لیز پر لے لی تھی۔ ہر طرح کا بے پناہ سامان اب میرے اسٹور میں موجود تھا۔
 
میں نے کاروبار کو مزید بڑھا لیا۔ آس پاس کے دیہات سے بڑی مقدار میں مکھن خریدتا اور اُسے مدراس کے گھی و مکھن فروشوں کو بیچ دیتا۔ اس کاروبار میں بڑا منافع تھا۔ مجھے اکثر دیہات اور مدراس کے چکّر کاٹنے پڑتے۔ دکان اب پوری طرح رامو کے ہاتھ میں تھی۔
 
مدراس میں میں جارج ٹاؤن کے ایک بنیے کے ہاں ٹھہرتا تھا۔ ایک بار کام نے مجھے وہاں میری توقع سے کچھ زیادہ دن روک لیا۔ ایک شام ابھی میں رامو کو ایک خط پوسٹ کرنے کے لیے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ ایک تار بردار سائیکل سے اُتر کر میرے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما گیا۔ میں نے فوراً اسے پھاڑا اور پڑھا:
"باپ کو ہیضہ، مرنے والے ہیں۔ فوراً آنا ضروری۔ فوراً لوٹ آؤ۔ رامو"
 
اگلی صبح ٹھیک پانچ بجے میں مالگُڑی میں اُتر گیا۔ رامو بھی اسٹیشن پر موجود تھا ۔ وہ بھی اسی گاڑی سے تریچنوپلی جانے والا تھا۔ گاڑی بہت تھوڑی دیر کو رکی۔ آنکھیں لال، ہچکی بندھی ہوئی حالت میں رامو بولا:
"میرے ابّا… ہیضہ… کبھی سوچا نہ تھا کہ اُنھیں بھی ہو جائے گا…" میں نے اسے دلاسا دیا۔ میں نے اسے کبھی اتنا ٹوٹا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ بس آہستگی سے کہا: "وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا… فکر نہ کرو…" مگر ہمت ہی نہ پڑ رہی تھی کہ دکان کا پوچھوں۔
خود ہی بولا: "چابیاں اماں کے سپرد کر دی ہیں ٬ حساب کتاب اور نقد رقم بھی…"
میں نے کہا:"اچھا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے — وہ سب میں سنبھال لوں گا تم فکر نہ کرو۔"
 
گارڈ نے سیٹی دی۔ رامو چھلانگ مار کر تیسرے درجے کے ڈبے میں سوار ہوگیا۔ گاڑی جھٹکے سے آگے بڑھی۔ اُس نے کھڑکی سے گردن نکال کر کہا: "اگر ابّا سنبھل گئے تو رات والی گاڑی سے کل ہی لوٹ آؤں گا… کچھ بھی ہو، پندرہ دن سے زیادہ نہیں رکوں گا… کِٹّو نے کہا ہے اُس کے لیے…"
اُس کی آواز اور چہرہ دُور ہوتے جا رہے تھے۔
"پہیوں والا لکڑی کا ہاتھی لا دوں… اُسے کہنا ضرور لا دوں گا… امّاں کو میرا نمسکار کہنا…"
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اور گاڑی پلیٹ فارم سے بہت دور جا چکی تھی،تب بھی وہ کھڑکی سے جھانک کر ہاتھ کے اشاروں سے یہی بتانے کی کوشش کرتا رہا "میں بہت جلد واپس آ جاؤں گا… یقیناً!"
 
 
میرے مدراس کے کچھ ادھورے کام باقی تھے، اس لیے میں ایک ہفتے تک دکان کے قریب بھی نہ جا سکا۔ جب دوبارہ دکان کھولی تو سب سے پہلا منظر یہ تھا کہ دکان تقریباً خالی پڑی تھی۔ صرف ایک بوری موٹے چاول کی اور چند سستے صابن کی ٹکیاں پڑی تھیں۔ باقی سارے ریک اور ڈبّے خالی! میں نے فوراً حساب کی کتاب اٹھا کر دیکھی ۔ اندراجات بری طرح خراب اور بکھرے ہوئے تھے۔ میں نے انھیں ایک طرف رکھ دیا ۔ اس وقت ضروری یہ تھا کہ اسٹاک دوبارہ بھرا جائے۔ میں نے فہرست مرتب کی اور بازار کا رخ کیا۔
 
میرا تھوک فروش صادق سیٹھ گاؤ تکیوں کے درمیان آرام سے بیٹھا تھا۔ اُس نے ہمیشہ کی طرح گرمجوشی سے میرا استقبال کیا ۔ میں اپنی تجارت کا آغاز ہی اس غیر محدود اُدھار کی بدولت کر پایا تھا جو اس نے مجھے کبھی دیا تھا۔ کچھ رسمی اور غیر اہم باتوں کے بعد میں نے اس کے سامنے فہرست رکھی۔ اس نے اُداس نظروں سے دیکھا اور سر ہلا کر بولا:
’’تمھیں تقریباً تین سو روپے کا مال چاہیے۔۔۔ میری رائے یہ ہے کہ ابھی صرف پچاس روپے کا سامان لے لو، میں یہ تمھاری ہی بھلائی کے لیے کہہ رہا ہوں۔۔۔‘‘ یہ پہلا موقع تھا کہ اُس نے مجھ سے اس طرح کی بات کی۔ پھر صاف صاف کہہ دیا: ’’برا نہ ماننا دوست ٬ تم تاجر ہو، میں بھی ہوں۔ گھما پھرا کر کہنے کا فائدہ نہیں۔ سیدھی بات یہ ہے کہ تمھارا حساب ہمارے ہاں ساڑھے تین ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے اور اگر پچھلے تین مہینوں میں تم نے ایک قسط بھی ادا کی ہوتی تو ہمیں کچھ اطمینان ہوتا۔۔۔‘‘
 
میں گھبرا کر بولا:’’لیکن سیٹھ ٬ پچھلے مہینے میں نے چار سو روپے تمھیں بھیجے تھے۔۔۔ اس سے پچھلے مہینے ساڑھے تین سو۔۔۔ اور اس سے پہلے۔۔۔ تو اب تو صرف اتنا بقایا رہ جانا چاہیے تھا۔۔۔‘‘
اس نے اپنا کھاتہ نکالا ۔ پچھلے چار مہینوں میں صرف ایک ادائی درج تھی، جب بل تقریباً ایک ہزار تھا۔ اس کے بعد تقریباً ہر روز چالیس روپے تک کی خریداری درج تھی اور کوئی ادائی نہیں!
 
’’اُس لڑکے نے کہا تھا کہ کاروبار بہت اچھا چل رہا ہے اور آپ جب مدراس سے واپس آئیں گے تو سارے حساب صاف کر دیں گے۔‘‘
میرا سر چکرا گیا۔’’میں… پھر ملتا ہوں‘‘ کہہ کر میں دکان پر لوٹ آیا۔
 
میں نے ایک بار پھر حساب کی کتاب دیکھی۔ کئی صفحات بقایاجات سے بھرے تھے۔ اگلے دن میں بل وصولنے نکلا۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا: ’’کوئی غلط فہمی ہے شاید؟ ہم نے تو دو ہفتے پہلے ہی پورا بل ادا کر دیا تھا ۔ نہیں تو رامو ہمیں چین سے رہنے دیتا؟‘‘
 
بیوی نے بتایا:’’تمھاری غیرموجودگی میں وہ رات کو بارہ بجے کے قریب گھر آتا تھا۔ کہتا تھا حساب کتاب نے روک رکھا ہے۔ میں روز پوچھتی ’آج کاروبار کیسا رہا؟‘ تو کہتا تھا: کاروبار کبھی اچھا، کبھی خراب، بہرحال فکر نہ کرو، سب مجھ پر چھوڑ دو، میں سنبھال لوں گا۔‘‘
لاؤلی ایکسٹینشن کے ایک بزرگ نے پوچھا،
’’وہ لڑکا کہاں گیا جو تمھارے پاس تھا؟‘‘
میں نے بتایا۔
وہ بولے:
’’دیکھو، یہ بات اپنے تک رکھنا ۔ یاد ہے نا، ہمارے پڑوس میں حیدرآباد کے لوگ رہا کرتے تھے؟‘‘
’’ہاں… ہاں…‘‘
’’تمھارا لڑکا اُن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی گھل مل گیا تھا ۔ وہاں ایک اونچی لمبی، بہت خوبصورت لڑکی بھی تھی ۔ وہ لڑکی کو روز شام کو ٹیکسی بُلا کر گھمانے لے جاتا تھا ۔ دکان وہ ٹھیک چھ بجے بند کر دیتا تھا ۔ وہ لوگ کچھ دن پہلے حیدرآباد لوٹ گئے ہیں۔‘‘
 
بعد میں میں نے مارکیٹ روڈ میں کچھ لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ رامو نے اپنے لیے چار ٹویڈ کے سوٹ، اٹھارہ ریشمی قمیصیں اور تقریباً سو روپے کے دوسرے کپڑے سلوا رکھے تھے ۔ لیدر سوٹ کیس، پمپ شوز کے چار جوڑے، دو مخملی چپلیں، ایک کلائی گھڑی، دو انگوٹھیاں، ایک بروچ، ریشمی ساڑیاں،بلاؤز کے تھان اور جانے کیا کچھ خرید چکا تھا۔ میں نے رامو کے ایک قریبی رشتے دار سے رابطہ کیا جو مدراس کے ایک بینک میں ملازم تھا۔ معلوم ہوا کہ رامو کا بوڑھا باپ ایک دم تندرست ہے اور کہیں کوئی ہیضے کا ذکر تک نہیں٬ بلکہ رامو تو کبھی تریچنوپلی گیا ہی نہیں! اس کا حال کوئی نہیں جانتا۔ خط کے آخر میں لکھا تھا: ’’کوئی بندہ حال ہی میں حیدرآباد میں کسی موسیقی کے بڑے میلے سے لوٹا ہے، ہجوم کے اندر اس نے کہیں رامو کو دیکھا تھا ۔۔۔ مگر یقین سے نہیں کہہ سکتا۔‘‘
 
میں نے اپنی پوری دکان اور گھر بار بیچ کر قرض خواہوں کو رقم ادا کی اور مالگُڑی چھوڑ دیا۔ میں بیوی اور چار بچوں سمیت دیوالیہ ہو چکا تھا۔ ۔ ہم جگہ جگہ مارے مارے پھرتے، کبھی دوستوں، کبھی رشتے داروں، کبھی اجنبیوں کے رحم و کرم پر۔ کبھی کوئی کھانا نہ دیتا تو ہم کسی سرائے کے تاریک گوشے میں جا پڑتے ۔میرے بد حال بچے روتے روتے سو جاتے۔ لیکن یہ ساری داستان آپ کو تھکانے کے لیے نہیں سنانا چاہتا یہ تو ایک اور حکایت ہے۔ صرف اتنا بتا دوں کہ چار برس بعد میمپی ہلز میں ایک کافی اسٹیٹ کے مالک سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے مجھے نیا آغاز دیا اور شکر ہے اس کا کہ آج میرا کافی کا کاروبار بہت اچھا جا رہا ہے۔
 
اب آتے ہیں رامو کی طرف ۔ ایک سال پہلے میں تیرُپتی کی پہاڑیوں کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا ۔ مندر میں منت پوری کرنی تھی۔ دو ہزار سیڑھیاں پار کر چکا تھا کہ بھیک مانگنے والوں کی قطار میں سے ایک نامانوس سی مگر کہیں سنی ہوئی آواز کانوں میں پڑی۔میں ٹھٹک کر مُڑا ٬ اور وہ تھا ٬ رامو۔۔۔میں بمشکل اسے پہچان سکا ۔ میں نے دس سال پہلے اسے مالگُڑی اسٹیشن پر رُخصت کیا تھا ۔ اس کا چہرہ اب سیاہ پڑ چکا تھا ٬ زخموں کے نشانوں سے بھرا ہوا ۔ اس کی آنکھیں ایک ہی سمت میں جامد تھیں۔ اگر اُس نے بھیک نہ مانگی ہوتی تو میں شاید اسے دیکھے بغیر ہی گزر جاتا۔ مگر اُس نے آواز دے دی، اس کی آواز ابھی بھی پہلے جیسی تھی۔ میں رک گیا اور کہا،
"دیکھو۔"
"میں کچھ نہیں دیکھ سکتا، میں اندھا ہوں۔"
"تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟"
میں نے تھوڑی سی سختی کے ساتھ اپنی آواز بدل کر پوچھا۔
"جاؤ، تم اپنے رستے جاؤ۔ یہ سب جاننے کی کیا ضرورت ہے؟" اس نے کہا۔
 
میں اکثر شیخی بگھارتا تھا کہ اگر وہ دوبارہ ملا تو پہلے اس کی ہڈی پسلی ایک کروں گا؛ مگر میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس سے اس طرح ملنا ہوگا۔ مجھے بہت الجھن اور دکھ محسوس ہوا۔ میں اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر ایک سِکہ رکھ کر آگے بڑھا۔ مگر چند قدم چڑھ کر رکا اور پاس بیٹھے ایک اور بھکاری کو اشارے سے بلایا۔ وہ آ گیا۔ میں نے اس کے سامنے ایک آنے کا سکہ اٹھایا اور کہا،"یہ لے لو، بس تم مجھے اس اندھے آدمی کے بارے میں کچھ بتا دو…"
 
"میں اسے جانتا ہوں،" وہ بھکاری جس کے بازو نہیں تھے ٬ بولا۔ "ہم ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے پاس ہاتھ ہیں مگر آنکھیں نہیں؛ میرے پاس آنکھیں ہیں مگر بازو نہیں۔ اس طرح ہم ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ہم ساتھ چلتے پھرتے ہیں۔ وہ میرے جیسا بھکاری نہیں، بلکہ ایک سَنّیاسی ہے۔ وہ دو سال پہلے یہاں آیا تھا۔ کبھی حیدر آباد یا دِلّی یا بنارس میں اس کے پاس بہت پیسہ تھا۔ چِکن پاکس نے اس کی بینائی چھین لی۔ اس کی بیوی، جو بُری عورت تھی، نے اسے چھوڑ دیا۔ اسے دنیا سے بیزاری ہوگئی۔ شمال سے آئے کچھ یاتری اسے یہاں لا کر چھوڑ گئے… مگر برا نہ ماننا، تم اسے یہ بات مت بتانا؟ جب کوئی اس سے اُن دنوں کا ذکر کرتا ہے تو وہ وحشی ہو جاتا ہے…"
 
میں رامو کے پاس واپس گیا، اس کے سامنے کھڑا ہوا اور ایک لمحہ اسے گھورتا رہا۔ میرا دل چاہا کہ میں چلّا کر کہوں، "رامو، خدا نے تجھے کافی سزا دے دی ہے۔ اب میرے ساتھ آ جا۔تیری محبوبہ کہاں ہے؟ میرا پیسہ کہاں ہے؟ کس شیطان نے تجھے پکڑ لیا؟" مگر میں نے خود پر قابو پایا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کے ساتھ سب سے بڑی مہربانی یہی ہوگی کہ اسے اکیلا چھوڑ دوں۔ میں چپ چاپ اس کی کھلی ہوئی ہتھیلی پر ایک روپیہ رکھ آیا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔ موڑ پر مڑ کر ایک بار پھر اس پر نظر ڈالی۔ اور یہ آخری بار تھا جب میں نے اسے دیکھا۔ کیونکہ جب میں چار دن بعد اسی راستے سے واپس آیا تو وہ کہیں نظر نہ آیا۔ شاید وہ اپنے بے بازو ساتھی کے ساتھ کہیں اور نکل گیا تھا۔
 
Original Title: A Career 
For a Play based on this short story :

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !