یہ ایک تاریک رات کی بات ہے، جب بہت سے روشن ستارے آسمان پر چمک رہے تھے اور چاند کی سفیدی گہرے جنگلوں، وادیوں، ندی، نالوں اور پہاڑوں پر چمک رہی تھی۔ ایسے میں ایک ننھا سا جگنو اپنی روشنی پھیلاتے ہوئے حسین جنگل کی سیر میں مگن تھا۔
اڑتے ہوئے جگنو نے ایک قد آور درخت کی سب سے بلند شاخ پر ایک الّو کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ الّو بے حد مایوس اور افسردہ دکھائی دیتا تھا۔
جگنو اس کے قریب آیا اور پوچھا،
"پیارے دوست! کیا ہوا، اس قدر اداس کیوں دکھائی دیتے ہو؟"
الّو نے ایک آہ بھرتے ہوئے جگنو سے کہا،
"کیا بتاؤں ننھے دوست، جب سے پیدا ہوا ہوں، اسی درخت کی ایک شاخ پر بنے گھونسلے میں رہتا ہوں۔ میرا کوئی اپنا نہیں ہے، اور نہ ہی میرا کوئی دوست ہے۔ یہیں اکیلا پڑا رہتا ہوں، اور اب تو یقین مانو، کہ غمگین سا رہنے لگا ہوں۔"
الّو کی بات سن کر جگنو مسکرایا۔
"تم پرواز کیوں نہیں کرتے؟ باہر کی دنیا بہت خوبصورت ہے، کئی خوبصورت پرندے، جاندار، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ بلند اور وسیع آسمان اپنا تاروں بھرا دامن لیے ہوئے زمین کی مخالف سمت بچھا ہوا ہے۔ تم اس پر اُڑان کیوں نہیں بھرتے؟"
جگنو کی یہ بات سن کر الّو مزید دل برداشتہ اور افسردہ ہوگیا۔ کہنے لگا،
"بات کچھ یوں ہے کہ جب میں پیدا ہوا تھا، اڑنے کی کوشش نہیں کی۔ دراصل میرے ماں باپ مجھے یہاں گھونسلے میں چھوڑ کر دوسرے گاؤں کچھ عزیز رشتہ داروں سے ملنے چلے گئے۔ یہاں تک کہ میں اُڑنا بھی نہیں سیکھ پایا، اور وہ چلے گئے۔ اب میں یہاں تنہا اور بے بس ہوں۔"
جگنو کہنے لگا،
"اس دنیا میں کوئی بھی جاندار بے بس اور تنہا نہیں ہوتا۔ ہر جاندار کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی کام اور مشغلہ تشکیل دیا ہے۔ تمہارا مشغلہ اُڑنا اور پرواز کرنا ہونا چاہیے۔ اس لیے تم پرواز کرو، اور اس دنیا کے خوبصورت نظاروں سے لطف اٹھاؤ، کیونکہ اس دنیا میں بنائی گئی تمام تر خوبصورت چیزوں اور تخلیقات پر ہر جاندار کا حق ہے۔ تمہیں یہاں اپنے گھونسلے میں بے مقصد زندہ نہیں رہنا چاہیے۔"
"میں نے ابھی تک پرواز کرنا نہیں سیکھا، اور میں تمہاری طرح اُڑ نہیں سکتا۔" الّو نے افسردگی سے کہا۔
جگنو بولا،
"پیارے دوست، ایسا ممکن نہیں ہے۔ تم ضرور اُڑ سکتے ہو، یقیناً تمہیں اُڑنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ کیوں نہ تم میرے ساتھ آؤ، اور ہم مل کر اُڑنے کی مشق کریں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ تم اُڑنا سیکھ لو گے۔"
جگنو کی بات سن کر الّو کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی۔ جگنو کی ہدایت پر الّو نے اپنے پر کھولے، اپنے پنجوں کو درخت کی شاخ سے اٹھایا اور پر پھڑپھڑانے لگا۔ چند لمحوں بعد الّو ہوا میں اُڑنے لگا۔
اب منظر کچھ یوں تھا کہ الّو جگنو کی تقلید میں اُڑنے لگا۔ دونوں نے ایک لمبے وقفے تک اُڑان بھری۔ پہلے پہل الّو بہت خوفزدہ اور سہما ہوا تھا۔
الّو نے جگنو سے کہا،
"پیارے دوست! کیوں نہ ہم واپس لوٹ چلیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے پروں کا توازن کھو دوں اور زمین پر گر پڑوں۔"
جگنو نے الّو کی طرف دیکھا اور بولا،
"پیارے دوست، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ خود پر یقین رکھو، اور اگر تم سنبھل نہ سکے تو یقیناً اللہ کی مرضی اور اس کی رحمت سے میں تمہیں سنبھال لوں گا۔"
الّو نے بے یقینی سے پوچھا،
"کیا تم مجھے سنبھال لو گے؟"
جگنو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
"ہاں، میں تمہیں سنبھال لوں گا۔"
یوں الّو ایک دفعہ پھر پُرعزم اور توانا ہوگیا۔ دونوں نے کچھ دیر کی مزید مسافت طے کی، اور پھر اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹ آئے۔
اس مختصر سی مشق کے بعد الّو کے دل میں ایک امید اور جستجو پیدا ہوگئی۔ کچھ دن یہ معمول اسی طرح چلتا رہا۔ روز رات میں جگنو آتا، دونوں ایک لمبی پرواز کرتے، اور پھر جگنو چلا جاتا۔
الّو پہلے سے بہتر، توانا اور خوش رہنے لگا۔ وہ نئی نئی چیزوں کو دیکھتا، نظاروں سے لطف اندوز ہوتا اور جگنو سے گھلنے ملنے لگا۔
ایک روز جگنو الّو سے ملنے نہ آیا۔ الّو نے جگنو کا بہت انتظار کیا، وہ رات ایسے ہی گزر گئی۔ اگلی صبح بھی الّو جگنو کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ اور پھر رات ہوگئی۔ اب الّو بےتابی سے جگنو کا انتظار کرنے لگا، یہاں تک کہ جگنو اس رات بھی نہ آیا۔
اڑنے کی خواہش الّو کو بے چین کرنے لگی۔ اس نے اپنے پروں کو کھولا، چند لمحے پھڑپھڑایا اور پھر اپنے پنجے درخت کی شاخ سے اوپر اٹھائے، اور لمحے بھر میں آسمان میں پرواز کرنے لگا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک طویل اور بلند پرواز کی۔ ایک طویل مسافت کے بعد وہ اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹا۔
یوں ہی کچھ دن اس نے جگنو کا انتظار کیا اور اکیلے پرواز کرتا رہا، مگر جگنو نہ آیا۔
ایک روز اس نے اپنے محسن کو ڈھونڈنے کی کوشش کی اور پھر اس کی تلاش میں پرواز کا آغاز کیا۔ یہاں تک کہ کچھ دیر اُڑنے کے بعد اسے ایک درخت کی شاخوں میں زرد روشنی محسوس ہوئی۔ الّو سمجھ گیا کہ یقینا یہ جگنو ہے۔
وہ اس روشنی کے قریب آیا، اور وہ جگنو ہی تھا جو اپنی روشنی پھیلائے شاخوں کے درمیان ٹمٹما رہا تھا۔
الّو کو دیکھ کر جگنو کے چہرے پر ایک پُرمسرت مسکراہٹ پھوٹ پڑی اور اس نے الّو کا استقبال کرتے ہوئے کہا،
"آؤ پیارے دوست، مجھے امید تھی تم ضرور آؤ گے!"
دوسری جانب الّو بھی جگنو سے مل کر بہت خوش ہوا۔ کچھ دیر کے بعد الّو پُراعتماد انداز میں کہنے لگا،
"پیارے دوست! کیا تم جانتے ہو میں نے تمہارا بہت انتظار کیا، اور پھر آخرکار اپنے پروں کے دم پر پرواز کرتے ہوئے تمہیں تلاش کیا اور تم سے مل پڑا۔ یقیناً اب میں نے پرواز کرنا سیکھ لیا ہے، اور میں اُڑنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ بے شک یہ سب تمہاری ہی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔"
جگنو نے عاجزی سے جواب دیا،
"پیارے الّو، اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر جاندار میں مختلف صلاحیتیں پیدا کی ہیں۔ تم بھی انہی میں سے ایک ہو۔ تمہیں بلند ہمت، حوصلے اور پہلے قدم پر اصلاح کی ضرورت تھی، جو میں نے پوری کی، اور اب یقیناً تم کامیاب ہو۔"
الّو نے تشکر سے جگنو کو گلے لگا لیا۔
یقیناً جگنو کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی نے الّو کی مایوسی اور کم ہمتی کو دور کر دیا۔
اس تحریر کے ذریعے میں نے بہت کچھ سیکھاہے۔ میں خود ایک الّو کی طرح تھی مگر میرے ارد گرد بہت سے جگنوموجود تھے جنہوں نے مجھے کامیاب بنایا، مجھے وہ حوصلہ اور ہمت دی جس نے مجھے کامیاب ہونا سکھایا۔ وہ جگنو کوئی اور نہیں میرے استاد ہیں میرے بزرگ جنہوں نے اپنی انکھوں سے اس ملک کو بنتے دیکھا جن کے آباؤ اجداد نے اس ملک کے لیے اپنی جانیں گنوائیں۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے قربانی کی اہمیت اور افادیت مجھے سکھائی ہے۔اج کے دور میں بھی بہت سے ایسے جگنو موجود ہیں جو مایوس، بھٹکے ہوئے اور نااُمید الّوؤں کو پہلی پرواز کے لیے پرعزم اور پر امید کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ جگنو ہمیشہ ان بھٹکے ہوئے الّوؤں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ لاپرواہی اور عدم توجہی کا روش اپناتے ہیں۔میں نے بہت سے لوگوں کو خاص طور سے نوجوان لڑکیوں اور بچیوں کو دیکھا جن کی عمر کچھ 14 سے 16 سال کے قریب ہو مگر وہ بطور محبِِ وطن اور ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے بہت پیچھے ہیں۔ کہیں نہ کہیں حب الوطنی کو پیٹروٹیزم اور پیٹروٹیزم کو من پسند گلوکار کے ملی نغمے سننا قرار دیا جاتا ہے۔اس سے زیادہ بڑھ کر حب الوطنی اور اب کچھ بھی نہیں ہے۔بطور طالبہ میں ایک ایسے دور کی طالب علم رہ چکی ہوں جب استاد کہا کرتی تھیں کہ بیٹا پانی کی بوتل کو زمین پہ نہیں رکھو اس میں پانی ہے،ایک نعمت ہے۔ میں اج بھی کسی طالب علم کو اپنا بستہ پاؤں کے قریب نہیں رکھنے دیتی مجھے یہ معیوب محسوس ہوتا ہے یہاں اکثر میری ہم جماعت سہیلیوں اور دوسرے بچے اور بچیوں سے بحث ہوتی ہے وہ مجھ سے اختلاف کرتی ہیں کہ اپ اپنا بستہ زمین پر کیوں نہیں رکھنے دیتی اور میں کہتی ہوں اس میں علم ہے اسے زمین پر رکھیں گے تو ہمارے ذہن میں کیا جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ میرے رب نے مجھے بہت زیادہ عزت سے نوازا ہے ہم نے اپنے وطن کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں کامیاب ہونا ہے بہترین ملازمت کرنی ہے اعلٰی تعلیم حاصل کرنی ہے صرف اس لیے کہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں لیے اور اپنی زندگی میں نام اور شہرت کما سکیں۔ اج یہ نہیں سوچا جاتا مجھے اپنے وطن پاکستان کے لیے کامیاب ہونا ہے۔ ہمیں اس وطن میں رہ کر تمام تر سہولیات درکار ہیں مگر وسائل کی طرف ہمارا رجحان ہی نہیں۔ اگر ہم سہولیات کے خواہش مند ہیں تو یقیناً وسائل کی جدوجہد بھی ہمیں خود ہی کرنا ہوگی۔یہ وطن ہمارے دم سے ہے ہم اس کے دم سے نہیں ہیں۔ نئی نسل نے پاکستان کے لیے قربانیاں دینا سیکھا ہی نہیں۔ایک اٹھ سال کا بچہ اپنی جماعت میں کامیاب ہوتا ہے اس لیے کہ اسے اپنا من پسند انعام مل سکے۔ جب ہم اپنے وطن کی ترقی کے لیے کوشش ہی نہیں کرتے پھر یہ امید کیوں رکھتے ہیں کہ اس میں رہ کر ہم ترقی کریں یہ نا انصافی ہے اس اور اس وطن کے لیے دی جانے والی قربانیوں او ان تمام قیمتی جانوں کے ساتھ جو ہمیں یہ وطن سونپنے میں قربان ہوئی ہیں آج ضرورت اس عمل کی ہے کہ نئی نسل میں حب الوطنی قربانی اور وطن کے لیے کامیابی کا جذبہ پیدا کیا جائے یہی وہ صورت ہے جس کی بدولت ہم قائدا اعظم کے پاکستان کو بلندیوں پر دیکھ سکتے ہیں
میں یہ نہیں کہوں گی کہ آوے کا آواہی بگڑ چکا ہے مگر ہاں ایک قابل غور شرح اس راستے پر گامزن ہے اور وہ اسے اپنی ازادی اور جدید طرز زندگی تصور کرتی ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے وطن پاکستان کو دنیا کی عظیم تر بلندیاں اور ترقیاں عطا کرے امین
