گلاب اور گوبھی (افسانہ)۔۔ شاہین کمال

امی، مرد آخر اتنا ٹھرکی کیوں ہوتا ہے؟ وہ ایک ہی کا ہو کر کیوں نہیں رہ سکتا؟
نفیس نے فون کی اسکرین سے نظریں ہٹاتے ہوئے مجھ سے پوچھا؟ 
ہیں!! صبح صبح ایسا لا ینحل مسئلہ ؟ 
اللہ امی! سوالات کا کوئی ٹائم ٹیبل تھوڑی نا ہوتا ہے. نفیس نے ہنستے ہوئے میرے گالوں کو بوسہ دیا اور گاڑی کی چابی سنبھالتی یہ جا وہ جا. 
نفیس میری دلاری بیٹی تو یہ سوال اچھال کر دفتر سدھاری اور میں آملیٹ پلٹتے اور پراٹھے بیلتے پراٹھوں کی بل میں الجھتی ہی چلی گئی. دوران ناشتا یہ سوال مجھے بہت بہت پیچھے لے گیا. وہ بھٹو کا دور زوال تھا اور اس سامری کی ساحری ایکسپائر ہو چکی تھی. سرمہ سرکار چور راستے سے واردات ڈال چکے تھے اور ان کی غبّی مسکراہٹ سب کچھ بدل دیا. ہوا، فضا، ماحول اور سماجی برتاؤ سب شدید گھٹن زدہ . میں جامعہ کراچی میں انرز سے فائنل میں آ چکی تھی. ان دنوں جامعہ میں لگایا جانے والا نعرہ
 " ایشیا سبز " ہے جانے کس احمق کا تخلیق کردہ تھا. کاہے کا سبز بھائی! ایشیا تو ہمیشہ ہی خونم خون رہا ہے، لہو سے تر بتر سرخم سرخ اور اب تو ہمارے پڑوس میں بھی جنگ بھڑک چکی تھی. خیر دنیا ازل سے بے سکون ہی رہی ہے.

  جامعہ میں ہمارا فائنل ائیر کا فائنل سیمسٹر تھا تو ہم سب کا پگلانا تو بنتا ہی تھا. شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ہم ساتوں کا شمار شعبے کی کریم میں ہوتا تھا. ہمارے گروپ میں تین بدیسی اور باقی کے چار اپنی کراچی کے بھئیے . افغانستان کا جمال شاہ اور ایران سے آئے باسم رضا اور سیمی شیرازی .ان دنوں پاکستان شاید ایرانیوں کا دوسرا گھر تھا. ہر شعبے میں ایرانیوں کی کثرت تھی . ہمارے ڈپارٹمنٹ کی ملکہ حسن مہر یار خان، پی ای سی ایچ ایس سے، ہمایوں شہزاد، ناگن چورنگی، نشاط ظفر ہمارے گروپ کی سقراط نارتھ ناظم آباد اور میں عزیز آباد کے پوائنٹ سے جامعہ پہنچتے تھے. مہر اور سیمی کی چوٹ برابر کی تھی کہ مہر حسنِ صورت سے آراستہ تو سیمی، سیمی تن و قاتل ادا . شیخ سعدی کی ہم وطن سیمی شیرازی الٹرا موڈ تھی. اکثر ڈپارٹمنٹ میں لانگ اسکرٹ یا چست جینز میں آتی. مرغوب تو اسے شارٹ اسکرٹ تھے پر صد شکر کہ اس نے شعبے کے لڑکوں پر رحم کھاتے ہوئے کبھی انہیں اُس کڑے امتحان سے نہیں گزارا. جب ہم سب فرسٹ ایئر آنرز میں تھے تو انہی دنوں ایک لیکچرار جرمنی سے تازہ بتازہ پی ایچ ڈی کر کے آئیں تھیں. ان کے مارڈن لباس نے جامعہ میں تھرتھریاں مچا دی تھیں اور ان کا لباس گویا قربِ قیامت کی نشانی ٹھہرا . یوں جامعہ میں ڈریس کوڈ لاگو کر دیا گیا. 
سجیلا ہینڈسم باسم رضا پہلے تولو پھر بولو کی تفسیر، حقیقتاً اس کی خاموشی بھی گونج دار ہوتی. ہماری فضول کی بحثوں میں باسم کا فرمانا ہی فرمانِ آخر ہوتا . جلال آباد سے آیا جمال شاہ اپنے پی ٹی وی کی حسین اداکارہ، فریال گوہر کے شوہر نامدار ہی طرح خوش جمال مگر تند و گرم مزاج. مہر یار خان بلا کی صاف گو بلکہ منہ پھٹ مگر وہی بات کہ حسن کے اضافی نمبروں کے صدقے
کتنے شریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

 ہمایوں شہزاد مرنجا مرنج اور لطیفے گھڑنے میں ماہر. رہی میں یعنی تمکین تو میں نمک کی کان تو ہر گز نہ تھی پر شکلاً و مزاجاً قدرے نمکین و تیکھی. میری زندگی کا بہترین دور زمانہ طالب علمی ہی تھا. گو کہ ہم سب پر پڑھائی کا بار گراں اور ہم سب اپنی اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کی کوششوں میں اپنی جان کھپاتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا کی مظلوم ترین مخلوق گردانا کرتے تھے. تب کسے خبر تھی کہ زندگی کیسے کیسے جھکولے دے گی.

کووڈ سے ذرا ہی پہلے کی بات ہے کہ جامعہ کے شعبہ بین الاقوامی میں ری یونین کا غلغلہ اٹھا. مہر کی زندگی چونکہ جھیل کا کنول سو اس نے ہمایوں، نشاط، باسم، سیمی اور جمال شاہ کی کھوج میں جہاں کنویں میں بانس ڈلوائے وہیں فرہنگ ایران کے اسٹاف کا ناک میں دم کر دیا. میں اور مہر ابھی تک رابطے میں تھے گو بارہا یہ سلسلہ مصروفیات و مشکلات کے سبب ٹوٹتا رہا. میری مہر سے آخری ملاقات، کوئی چار سال قبل اس کی چھوٹی بیٹی کی شادی پر ہوئی تھی. 
جب مجھے واٹس ایپ پر ری یونین کا دعوت نامہ ملا تو میں دیر تک فون کی اسکرین کو گھورتی رہی. زندگی نے اتنے دھچکے و پٹخے دئیے تھے کہ ماضی دھول ہوا. ناگوار واقعات کو بھلانے کے چکر میں ذہن بہت کچھ خوشگوار کو بھی ڈیلیٹ کرتا چلا گیا تھا. میرا ارتکاز میری منجھلی بیٹی کی بلند پکار پر ٹوٹا.
امی.... امی... کیا ہوا امی؟
 سب خیریت ہے ناں !!
ہاں.. ہاں... سب خیریت ہے. یہ میرے ڈپارٹمنٹ کا ری یونین کا کارڈ آیا ہے. "پینتیس سالہ ری یونین" اب بھلا کون آئے گا؟ 
اتنے لمبے عرصے میں سب جانے کدھر کدھر بکھر چکے ہونگے.
ارے تو کیا ہوا امی! جو بھی آئیں گے ان سے ملاقات کر لیجیے گا پھر مہر آنٹی تو آپ کے ساتھ ہی ہونگی نا.
منجھلی بیٹی نے تینوں بہنوں کو بھی دعوت کی بابت ٹھسک دیا. غرض چاروں بیٹیوں نے میرا گھراؤ کر کے مجھے تقریب میں جانے پر راضی کر ہی لیا. یہ مہر کی ہی کوششوں کا ثمر تھا کہ ہم ساتوں، پینتیس سال بعد ملنے والے تھے. 

جولائی کی بادلوں سے ڈھکی سہ پہر اور مادر علمی.
 کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تیری آئی
 وہ بے فکری کے دن، بے انت باتیں اور لایعنی نکات و مسائل پر طویل بحثیں. ری یونین کی تقریب کا انتظام اسٹاف روم میں کیا گیا تھا. مدتوں بعد ہم سب اکٹھے ہوئے. جہلم میں بیاہی نشاط اپنی سرجری کے سبب شریک نہ ہو سکی پر بھلا ہو ٹیکنالوجی کا، فیس ٹائم نے اس کا دیدار کرا ہی دیا. مہر ہماری سدا کی منتظم و دیدہ ور. اس نے سب کے سینے پر نیم ٹیگ سجا دیا ورنہ بخدا کوئی بھی پہچان میں نہ آتا تھا. نازک اندام سیمی شیرازی کی نازکی فربہی میں ڈھل چکی تھی اور بگ ٹٹ بھاگتے وقت نے اس کی خوب صورت بلونڈ زلفوں کو کپاس کیا. پر بھئی سیمی آج بھی اسٹائلش تھی. 
 خدایا خدایا!!! باسم تمہیں کیا ہوا؟
 نحیف اور گنجے باسم رضا کو دیکھ کر میں بالکل چکرا گئی! وقت نے اس بے دردی سے ہم میں سے کسی کو بھی نہیں روندا تھا. 
کچھ نہیں میں نے سرطان کو زیر کیا ہے. تم جانو کینسر جاتے جاتے پھونک ہی چھوڑ جاتا ہے.
خیر مجھے چھوڑو اپنی سناؤ تمکین !
باسم نے اشتیاق سے پوچھا. 
تم بیماری اور میں سختئ حالات کے پاٹوں میں آئی. زندگی نے مجھے بھی رولر کوسٹر پر بیٹھا دیا. 
میں رنجیدہ سی ہنسی ہنس دی.
یہ جمال شاہ کہاں رہ گیا؟
Think of the devil and the devil is here.
ایک دم سے جمال شاہ نے میرے سامنے جھکتے ہوئے کہا.
کہاں ہوتے ہو؟
مجھے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جمال میں زیادہ بدلاؤ نہیں آیا تھا.
اب میں تمہارا محبوب کراچی چھوڑ کر عرصے سے پنڈی بوائے ہو گیا ہوں. اس نے ایڑی بجاتے ہوئے کہا اور ہم سب بے ساختہ پچھلے زمانے کی طرح ہنس پڑے. میں نے چپکے چپکے سب کا گہرا جائزہ لیا. ہم سب میں آسودہ ہمایوں شہزاد لگ رہا تھا گو کہ نہ اس کی گنج میں کمی تھی اور نہ ہی مٹاپے میں کوئی کسر مگر اس کی آنکھوں میں ابھی بھی جوت زندہ تھی.
ہماری ملکہ حسن مہر یار خان ابھی بھی شاداب مگر کوسمیٹکس کی بدولت. گزرتے ستم گر وقت نے ہم سب سے خراج لیا تھا. چائے بہت پر تکلف تھی پر جو سچ کہوں تو ایک دوسرے کو سننے کی اتنی چاہ اور للک تھی کہ باقی سب کچھ بے معنی ہو گیا تھا. باتوں باتوں میں جمال شاہ نے بتایا کہ دو سال قبل اس کی طلاق ہو گئی ہے. مہر نے تڑ سے کہا کہ " وجہ یقیناً تمہاری نظر بازیاں رہی ہو نگی! " 
 مجھے مہر کے جملے سے زیادہ اس کے لہجے نے الجھایا. 
What do you mean by نظر بازی
بھئی اللہ کی خوب صورت تخلیق کو سراہنا اور سبحان اللہ کہنا کب سے گناہ ہو گیا؟ 
جمال شاہ نے سگار کے چھلے ہونٹوں سے نکالتے ہوئے جتون چڑھا کر پوچھا.
 جمال پلیز تم سگار گل کر دو مجھے استھما ہے. اچھا ایمانداری سے یہ بتاؤ کہ کیا تعریف و توصیف کی یہی آزادی تم زرتاشا کو بھی دیتے؟ 
او کم آن سیمی! شادی شدہ عورتیں کب اس علت میں پڑتی ہیں. ان کے دل اور آنکھوں میں تو اپنے میاں ہی کی تصویر ہوتی ہے. جمال نے تنک کر کہا. 
یہ تو ان شرافت اور نیک نیتی ہوئی ناں جمال. ویسے تمہیں ایک بات بتاؤں عورتیں کمال اداکار. وہ ساری عمر تمہارے ساتھ بتانے پر بھی تمہیں اپنے من کا بھید نہیں دیتی. 
میں بھی اس بحث میں شامل ہو چکی تھی. 
مردوں کے متعلق تو میں جانتا ہوں کہ ان کے دل میں ایک دنیا بسی ہوتی ہے مگر عورتیں یقیناً ایک وقت میں ایک ہی تصویر دل میں لگاتی ہیں. بہرحال میں شاید اس مد میں رائے دینے کے لیے کوالیفائی نہیں کرتا. آپ خواتین ہی بہتر بتا سکتی ہیں. 
کم گو باسم شیرازی نے آہستگی سے کہا. 
تم بالکل رائے دینے کے لیے کوالیفائی کرتے ہو بلکہ دنیا کا ہر انسان رائے کا حق رکھتا ہے. محبت میں صنفی تفریق نہیں ہوتی باسم. تمکین نے بالکل صحیح کہا، عورتیں اداکار تو اچھی ہوتی ہی ہیں ساتھ اپنے نفس پہ ان کی گرفت بھی مضبوط . پھر ہمارے یہاں جس طرح بندشوں میں جکڑ کر بیٹیوں کی تربیت کی جاتی ہے اس میں وہ بہت کم ہی اپنی رائے یا پسند کے اظہار پر قادر . ہاں یہ بھی حقیقت کہ عورتوں میں مردوں کے مقابلے ٹھرک بازی بہت کم. عورتیں شادی کو مذہبی فریضہ مانتے ہوئے دوسرے مردوں کو بالکل نہیں سوچتیں جبکہ مرد کم ہی ان تکلفات میں پڑتے ہیں. 
مہر کے بجھے انداز پر میرے دل نے ایک بیٹ مس کی. 
مگر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مہر تمہاری تو لو میرج ہوئی تھی ناں؟ 
جمال شاہ بے اختیار مہر سے پوچھ بیٹھا. 
لو ہو یا ارینج تمام شادیاں کچھ عرصے بعد محض شادیاں اور ذمہ داریوں کا بیگج ہی رہ جاتی ہیں. 
سیمی نے بروقت مداخلت کی. 
یہ ٹھرکی کیسا عجیب لفظ ہے دوستو!!میں نے یہاں ہوتے ہوئے تو کبھی نہیں سنا تھا؟ 
باسم کی حیرانی دیدنی تھی. 
 باسم شیرازی ہمارے دور کا لچا، لفنگا، آوارہ آج کا ٹھرکی ہے. یہ لفظ آج کل بہت اِن اور یہ جذبہ بھی جگہ جگہ گٹر کی طرح ابل رہا ہے. 
مہر کا پتھریلا انداز بہت کچھ ان کہا بیان کر رہا تھا. 
اچھا سچی سچی بتاؤ کیا تم شادی شدہ عورتیں مردو کو نہیں دیکھتی، سوچتیں؟ 
نہیں جمال میرے خیال میں شادی شدہ عورتوں میں ایسی گھٹیا سوچ کا پرسٹیج بہت ہی کم ہے. ایسا نہیں کہ عورتیں حسِ جمال نہیں رکھتی یا احساس کے گداز سے محروم ہیں مگر ایک تو ان کی تربیت اور پھر ان کا مضبوط نفس انہیں کم ہی لڑکھڑانے دیتا ہے. میں نے قطعیت سے جواب دیا. 
مجھے نہیں لگتا کہ مردوں میں ایسی کوئی کشش ہوتی ہے کہ عورتیں ان پر فوراً مر مٹیں چاہے وہ یوسف ثانی ہی کیوں نہ ہو. میں نے دیکھا ہے عورتیں بہت ہی committed ہوتی ہیں البتہ مردوں کے لیے ہر عورت میں کوئی نہ کوئی کشش ضرور ہوتی ہے۔
ہمایوں نے اپنا تجزیہ پیش کیا.  
تمہاری بات درست ہے ہمایوں عورتیں فوراً کم ہی مرتی ہیں. ٹین ایج میں شاید لو ایٹ فرسٹ سائٹ کا رولا ہوتا ہو تو ہو ورنہ عورتیں یوسف پر کم ہی فدا ہوتی ہیں البتہ یعقوب کی طلبگار ضرور . میں نے جمال کے گہرے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے ہمایوں کو جواب دیا. 
ہیں!! یعقوب؟ اب یہ مردوں کی کون سی قسم ہے بھئی ؟ 
جمال نے جھلاتے ہوئے پوچھا؟ 
میرا مطلب ہے کہ عورتیں مردوں کی ظاہری خوبصورتی پر کم ہی توجہ دیتی ہیں البتہ سیرت کی قدردان ضرور. انہیں کیئرنگ اور قدر شناس مرد زیادہ پسند کہ عورتوں کے لیے تحفظ مقدم.
بھئی کیئر تو سب کی ضرورتِ اولا . یہ تو سامنے ہی کی بات ہے تمکین؟ ہمایوں نے ہنستے ہوئے کہا. 
اللہ کی بندیوں، دنیا بنی آدم و حوا کی کہانی پر ہے۔ اگر جہان بھر کے مرد سدھر جائیں تو دنیا کی ساری رنگینی ہی ختم ہو جائے ۔ ذرا سوچو اگر عورتوں کو سراہا نہیں جائے گا تو صنفِ لطیف کا تو بھٹہ ہی بیٹھ جائے گا. معزز خواتین! اگر مرد حضرات شریف ہوگئے تو دنیا بے رنگ ہو جائے گی. نہ کوئی شاعر ہو گا نہ گائیک اور نہ ہی مصور و سنگتراش اور اربوں ڈالرز کی کوسمیٹک انڈسٹری کا بھی دیوالیہ نکل جائے گا. 
جمال کے جوشِ خطابت پر ہم سب بے طرح ہنس پڑے. 
ارے کیوں کیا بیویاں ناکافی ہوتی ہیں شاعری اور مصوری کے لیے؟
 مہر کا سوال برجستہ. 
کسی نے آج تک بیوی پر شاعری کی ہے؟
جمال نے ترنت سوال پلٹایا. 
یہ کیا بات ہوئی؟ یہ تو زیادتی ہے بھئی . بیوی پر شاعری، مصوری سب ہونی چاہیے.
میں تو گویا تلملا ہی گئی . 
جاں نثار اختر، کیفی اعظمی اور گلزار نے تو کی ہے
ہمایوں نے گراں قدر معلومات فراہم کی.
مرد چاہے گلاب پیش کرتے ہوئے چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
ہی کیوں نہ گائے، آگے سے بیگم صاحبہ فرمائیں گی، 
سنیے! گوبھی اور دھنیا لانا نہ بھولیے گا۔ 
جمال نے نئی پھلجھڑی چھوڑی.
لو تو اس میں کیا برائی ہے؟ 
سچی بات تو یہی کہ گلاب کے مقابلے میں گوبھی کا پھول economical ہونے کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی. 
سیمی کی لوجک نے جمال کو کلین بولڈ کر دیا. 
ہاں چاہے سارے رومانس کی ایسی کی تیسی ہی کیوں نہ ہو جائے؟
جمال اب بھی اپنے بات پر اڑا ہوا تھا. 
مسئلہ فقط اتنا ہے جمال کہ مردوں کے لیے رومانس پارٹ ٹائم جبکہ عورتوں کے لیے فل ٹائم ہوتا ہے. اب دیکھو نا وہ نیک پروین اِسی دھنیا پتی کو باریک باریک کتر کر پھینٹے ہوئے بیسن میں شامل کر زبردست پکوڑے، گرما گرم چائے کے ساتھ پیش کرے گی. 
میری اس بات پر جہاں قہقہہ پھوٹا وہیں جمال نے مسکین سی آواز میں کہا، جی اور یوں سارے رومانس کا دھڑن تختہ کر دے گی.

وہ یقیناً ایک خوشگوار شام تھی. ہم سب چائے کی دوسری کپ سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ گرج برس مینہ برسنے لگا. میں مہر کے ساتھ بارش کے نظارے کے لیے کوری ڈور میں آ گئی. مہر کے چہرے پر بہت تناؤ تھا.
 کیا بات ہے مہرو؟
میں تھک گئی ہوں تمکنت! اب اور کتنا اور آخر کب تک ؟؟ کاظم کے آئے دن کے چلنے والے معاشقے اب بیٹی کا گھر خراب کرنے کے درپے ہیں. اسے تو جسے کسی بات سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا، کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے. بزنس پہلے ہی ٹھپ ہے، اب تو میرے پاس کوئی پراپرٹی بھی نہیں بچی اور مفلس بڑھاپا دانت نکوسے سامنے کھڑا ہے . 
میں صدمے سے گنگ رہ گئی، مجھے اپنی گزری مشکلات مہر کی جاری اذیت کے آگے بہت چھوٹی لگیں.
میں نے اسے خاموشی سے گلے لگا لیا کہ اس کے دکھ کا مداوا میرے بس میں نہ تھا. 
چلتے سمے ہم سب نے ایک دوسرے کا نمبر لیا اور ہمایوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے واٹس ایپ پر گروپ بنا کر سب کو ایڈ کر دیا. اس نے گروپ کا نام "دب اکبر" رکھا. 

واٹس ایپ گروپ کے طفیل ہم سب ایک بار پھر جڑ گئے تھے. آج سوچتی ہوں نہ ہی جڑے ہوتے تو اچھا تھا کہ لا علمی بھی نعمت. تین سال قبل ایران میں کرد نوجوان " مہسا امینی" کو اسکارف سے چند بال نظر آنے پر گرفتار کیا گیا تھا. زبردست تشدد کا شکار وہ ہنستی کھیلتی لڑکی جان کی بازی ہار گئی. احتجاجاً ایران میں ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے اور ہماری فیمنسٹ سیمی شیرازی بھی احتجاج کا حصہ بنی. اس نے دھرنے دئیے جلوس نکالا اور بالآخر گرفتار ہوئی. قید میں تشدد و ذلت نے اس کا دماغی توازن الٹ دیا. اب ہماری پیاری، گولڈ میڈلسٹ ذہین و فطین دوست، شیراز کے دماغی ہسپتال میں مستقل زیر علاج . 
زندگی کتنی بے مہر ہے. ہم سب تدبیر کی تگ و دو کرتے ہوئے بھی تقدیر کی شمشیر سے گھائل ہو ہو جاتے ہیں. 

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !