کل خرادیے کے پاس کچھ کام کروانے گیا ، مجھے کام تھوڑا جلدی چاہییے تھا لیکن اس کے پاس ایک گاہک کھڑا تھا اور وہ اس کے کام میں مصروف تھا
میرا خراد وغیرہ کا کام کم ہی نکلتا ہے اسی لیے ایک ہی بندے سے کام کرواتا ہوں ، اس کو اس کے کام کے اچھے پیسے دیتا ہوں بعض اوقات طے شدہ ریٹ سے سو پچاس زیادہ دے دیتا ہوں ، کبھی اس کو ادھار پیسوں کی ضرورت ہو تو اس کی خوشدلی سے مدد کر دیتا ہوں اور اس سے ہمیشہ اچھے اخلاق سے بات کرتا ہوں جس کی وجہ سے وہ میرے کام کو ترجیح دیتا ہے لیکن جب میں خود دیکھوں کہ مشین میں کسی کام کی ٹَھل ( جاب ) باندھی ہوئی ہے تو انتظار کر لیتا ہوں
بات سے بات نکل رہی ہے ، میری مارکیٹ میں ایک جوتے پالش کرنے والا شخص بھی آتا ہے ، عام طور پر بیس روپے پالش کے لیتے ہیں لیکن میں اس کو تیس روپے دیتا ہوں اور اس کو ہمیشہ حاجی کہہ کر بلاتا ہوں ( اس کی عمر پچاس کے قریب ہے تو عزت کے لیے حاجی بلاتا ہوں)
ہر تیسرے چوتھے روز اس سے پالش کرواتا ہوں چاہے اس کی ضرورت نہ بھی ہو ، اس عزت کی وجہ سے وہ جوتی کو اتنی محنت سے پالش کرتا ہے کہ دو سال پرانی جوتی بھی نئی لگتی ہے ، خود ہی دکان کے اندر آ کر مجھے ایکسٹرا جوتی دے جاتا ہے اور میرے بوٹ لے جا کر سکون سے پالش کر کے واپس لا دیتا ہے ، عید تہوار پر بھی اس کو اپنے گاؤں جانے کے لیے کچھ رقم دے دیتا ہوں
میرا یہ ماننا ہے کہ یہ محنتی لوگ اس سے زیادہ کے حقدار ہیں اور ہماری کچھ رقم اور عزت سے ان کی خوشی بڑھ جاتی ہے
قصے پر واپس آتے ہیں
جب اس خرادیے کے پاس گاہک اور مشین کو دیکھا تو اسے اپنے کام کے لیے زیادہ زور نہیں لگایا کہ جلدی کر دو ، اور میں نے اپنے گاہک کو فون کر دیا کہ آپ کے میگنٹس آپ کو کل ملیں گے
آج وہ خرادیہ میرے پاس خود میرا کام واپس کرنے آیا ، دکان پر جب بھی آتا ہے تو گھر کی باتیں بھی شروع کر دیتا ہے ، اس نے بتایا کہ جو گاہک اس کے پاس آیا تھا وہ کشمیر کا ہے اور وہ وہاں پر فری انرجی ( مفت بجلی ) بنانا چاہتا ہے
اس بندے نے یو ٹیوب یا ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو دیکھ لی تھی جس میں فلائی وھیل کے زریعے جنریٹر چلایا جاتا ہے ، آپ نے بھی ایسی ویڈیوز دیکھی ہوں گی ، فلائی وھیل ایک شافٹ کے ساتھ لگے اس پہیے کو کہا جاتا ہے جو اس شافٹ سے کئی گنا بڑا اور وزنی ہوتا ہے ، دراصل فلائی وھیل جنریٹر میں پہلے بیرونی بجلی کے زریعے موٹر کو آن کیا جاتا ہے ، وھیل جب گھومنا شروع ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی گھومنے کی طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے یعنی جب ایک دفعہ بھاری پہیہ گھوم جاتا ہے تو اس کے گھومنے کی وجہ سے بھی ایک طاقت پیدا ہوتی ہے جو کہ بیرونی بجلی کو ختم کرنے کے بعد بھی اس میں موجود رہتی ہے
اسی فارمولے کو استعمال کرکے کئی ناہنجاروں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز ڈال رکھی ہیں کہ پہیہ گھومنے کے بعد بیرونی بجلی کو منقطع کر دیا جاتا ہے اور پھر اس فلائی وھیل کے ساتھ لگی ڈینمو کو آن کر کے اس میں سے آنے والی بجلی کے زریعے وھیل کی موٹر کو چلایا جاتا ہے
سائنس کا ایک اصول ہے کہ کسی بھی طاقت ( انرجی ) کو پیدا کرنے کے لیے طاقت کی ہی ضرورت ہو گی لیکن کبھی بھی کسی بھی مشین کے ذریعے مہیا کردہ طاقت سے زیادہ طاقت حاصل نہیں کی جا سکتی ، اگر کوئی بہت ہی قابل مشین ہو ( جو کہ ابھی تک نہیں بن سکی ) تو جتنی طاقت دی جا رہی ہے اتنی ہی طاقت واپس مل سکے گی لیکن اس سے زیادہ ہرگز نہیں مل سکتی ، اسے رول آف تھرمو ڈائنامک کہا جاتا ہے
یعنی ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا ہے فلائی وھیل کو بیرونی طاقت کے بغیر چلائے اس سے مفت بجلی حاصل کی جا سکے !
لیکن ایسی ویڈیوز جس میں باقاعدہ دکھایا جاتا ہے کہ بیرونی طاقت ( بجلی ) کو منقطع کرکے وھیل کے جنریٹر سے کئی کلو واٹ کی چیزیں چلائی جا رہی ہوتی ہے ، ایسا صرف وقتی طور پر ہو سکتا ہے لیکن مستقل ایسا ممکن نہیں ، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے وقار نامی شخص نے پانی کے زریعے گاڑی چلا کر دکھا دی تھی
جیسے پانی کے زریعے گاڑی کو مستقل نہیں چلایا جا سکتا ایسے ہی فلائی وھیل کے زریعے بھی مستقل بجلی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے ، یہ ناممکن ہے کیونکہ یہ سائنس کے اصول کے ہی خلاف ہے
اس خرادیے سے کہا کہ کیا صرف ہم پاکستانی ہی پوری دنیا میں سمجھدار ہیں کہ یہ طریقہ صرف ہمیں سمجھ آیا ہے جبکہ پوری دنیا کے سائینسدانوں کو آج تک اس فارمولے کا پتا نہیں چل سکا ؟
جبکہ ترقی یافتہ ممالک ٹیکنالوجی میں ہم سے کئی سال آگے ہیں ، ہم ان کی دس سال پرانی ٹیکنالوجی کو نیا سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور وہ لوگ آر اینڈ ڈی ( ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) کے لیے بھی اربوں کھربوں روپیہ خرچ کرتے ہیں
خلا کو تسخیر کی کوشش کرنے والے آج تک فری انرجی جیسی کوئی ڈیوائس نہیں بنا سکے تو پاکستان میں بیٹھے ایک شخص میں ایسے کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ فری انرجی ڈیوائس بنا سکتا ہے
اس خرادیے کے پاس آئے ہوئے گاہک کا اب تک ساٹھ ہزار روپیہ لگ چکا تھا اور کشمیر پہنچ کر فٹنگ ہونے تک یہ ایک لاکھ سے اوپر کی رقم بن جانی ہے
اور یہ ایک لاکھ روپیہ بالکل برباد ہو جائے گا ، بعد میں مایوس ہو کر وہ دل برداشتہ ہو گا کیونکہ میں نے خود اس کی آنکھوں میں کھربوں روپے حاصل کرنے کے خواب دیکھے ہیں یا تو یہ سب کچھ دس بیس ہزار روپے میں کسی کباڑی کو بیچ دے گا یا پھر اپنی بھی ویسی ہی کوئی ویڈیو بنا کر مزید لوگوں کو گمراہ کرے گا جیسی ویڈیو دیکھ کر خود اس نے ایک لاکھ روپیہ ، اپنا قیمتی وقت اور خواب ضائع کیے تھے
مجھے یقین ہے کہ اس تحریر پڑھنے والوں میں بھی کئی ایسے لوگ شامل ہوں گے جو فری انرجی کو حقیقت سمجھتے ہیں اور اس فری انرجی والے شارٹ کٹ کے زریعے راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں
لیکن نہ تو یہ شارٹ کٹ ہے اور نہ ہی ہر شارٹ کٹ کامیابی کی طرف جاتا ہے
صبر اور ایمانداری کے ساتھ اپنے اپنے کاموں میں محنت کریں یہی سب سے بڑا شارٹ کٹ ہے
